تجرید کتبِ اربعہ(موطا امام مالک، مسند امام احمد، سنن دارمی، سنن کبریٰ)

تجرید، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی نکالنے، آزاد کرنے، علیحدہ کرنے،کسی بھی قسم کی تراش خراش اور تصنع سے پاک ہونا، کسی بھی قسم کی زیادتی سے چھٹکارا پانا اور کسی شے کو اس کی صفت یا تعلق سے ذہنی طور پر الگ کرکے اصل پر اعتماد کرنا اور نتیجہ نکالنا کے ہیں۔
پیشِ نظر کتابحدیث کی چار مشہور کتابوں صحاحِ اربعہ یعنی موطا امام مالک، مسند امام احمد، سنن دارمی اور سنن کبریٰ کی تجرید ہے۔ ان کتب میں سے مکررات کو حذف کرکے ”جامع حدیث“ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اگر ایک حدیث میں جامع مفہوم نہیں ملا تو دو یا تین روایتوں کو بھی لے لیا گیا ہے۔ ائمہ صحاح ستہ کی طرح ائمہ کتب اربعہ بھی ایک ہی روایت کو مختلف ابواب و مسائل اور مسانید کے تحت متعدد بار ذکر کرتے ہیں، اس طرح بعض روایات ایک ہی کتاب میں بیس یا اس سے زائد مرتبہ بھی مذکور ہیں، جیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں روایات کی تکرار بہت زیادہ ہے۔ اگرچہائمہ حدیث کا یہ طریق اسناد و استدلال کی بنیاد پر ہے اور استنباط ِمسائل کے لیے ضروری بھی ہے، لیکن اس سے طلبہ ومحققین کو خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ ان کتب کی تجرید کی جائے۔ کتبِ اربعہ میں شامل احادیث کی تعداد 54904 ہے، جب کہ تجرید کے بعد یہ تعداد 8413 ہے۔
ان کتب کے مصنفین اپنے اپنے زمانے کے عظیم محدث، فقیہ، متکل، مؤرخ، ادیب اور امام الائمہ و المحدثین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چاروں ائمہ کی تصانیف کو قبولیتِ عامہ حاصل ہے۔ ان کتب کی شروحات و تعلیقات بھی لکھی گئیں اور کئی دوسری جہات سے بھی انپر مختلف ادوار میں کام ہوا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عام قارئین کے لیے ان کتب کا مختصر تعارف پیش کردیا جائے۔
تجرید صحاحِ اربعہ میں شامل پہلی کتاب ”موطا“ہے جسے امام مالک (193ھ)کی نسبت سے ”موطا امام مالک“کہا جاتا ہے۔ حدیث کی اس کتاب کو امام مالکؒ نے فقہی ابواب پر مرتب کیا ہے۔ احادیثِ صحیحہ کے ساتھ اقوالِ صحابہ و تابعین بھی ذکر کیے ہیں۔ یہ کتاب حدیث کے ابتدائی مصادر میں سے ہے اور فقہ و حدیث کی پہلی جامع کتاب ہے۔
دوسری کتاب”مسند امام احمد بن حنبل“ہے۔یہ امام احمد بن حنبل (241ھ )کی سب سے مشہور اور حدیث کی اہم ترین کتاب ہے، اورجو شہرت اسےحاصل ہے وہ کسی دوسرے مجموعہ مسانید کو حاصل نہیںہے۔ مسند احمد تقریباً 172 اجزاء پر مشتمل اور سات سو صحابہ کی حدیثوں کا مجموعہ ہے جن کی تعداد عام طور سے تیس اور چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔ احادیث کے دوسرے مجموعوں میںجو روایات متفرق طور پر پائی جاتی ہیں، ان کا اکثر حصہ اس میں موجودہے، اس لحاظ سے مسند احمد حدیث کی سب سے زیادہ جامع کتابہے۔
تیسری کتاب امام ابو محمد عبداللہ دارمیؒ (م 255ھ)کی ”سنن دارمی“ ہے۔ صحاح ستہ کے بعد حدیث کی جو کتابیںسب سے اہم اور مستند سمجھی جاتی ہیں ان میں سنن دارمی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ سنن دارمی 35 فصول اور 1408 ابواب پر مشتمل ہے۔یہ اگرچہ حدیث کی کتاب ہے لیکناس میں فقہیمسائل و مباحث اور ان کے متعلقفقہاء کے اختلافات و دلائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام و تابعین عظام کے آثارو فتاویٰ بھی درج کیے گئے ہیں۔
چوتھی کتاب امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی ؒ (م458ھ) کی مایہ ناز تصنیف”السنن الکبریٰ“ ہے۔صحاح ستہ کے بعد حدیث کی جن کتابوں کو غیر معمولیشہرت اور بقائے دوام حاصل ہوا، یہ کتاب اُن میں سے ایک ہے۔ امام بیہقی نےہر ہر مسئلے کے لیے مستقل اور جداگانہ ابواب قائم کیے ہیں۔ عنوانات اور ابواب قائم کرکے آیات و احادیث سے لطیف استنباط کیے ہیں۔اسی طرح استدلال میں بھی نہایت عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معانی و مطالب کی وسعت و تنوع اور استدلال، استنباط اور استخراج کے لحاظ سے سنن بیہقی ایک نہایت عمدہ کتاب سمجھی جاتی ہے۔
کتب ِ صحاح ستہ کے بعد مذکورہ بالا چاروں کتب ِاحادیث کا درجہ مسلمہ ہے، بعض ائمہ نے تو موطا امام مالک، مسند احمد اور سنن دارمی کو بھی صحاح ستہ میں شامل کیا ہے، جب کہ کتب تسعہ میں بھی یہ کتب شامل ہیں، اس لیے اس بات کی ضرورت تھی کہ ان کتب کی تجرید کی جائے۔ان کتبِ اربعہ کی تجرید پر اس سے پہلے کام نہیں ہوا تھا۔ فاضل مترجمین و مولفین کے مطابق اس نوعیت کا جو کام ہوا ہے، وہ جزوی نوعیت کا ہے یا صرف ایک کتاب پر ہوا ہے۔ دوسرے کتبِ اربعہ پر جو پہلے کام ہوا ہے وہ عربی زبان میں ہے، اردو ترجمے کے ساتھ یہ پہلی کاوش ہے۔اس طرح نبی کریم ﷺ کے فرامین و ارشادات اور صحابہ کرام و تابعین کے آثار کا مطالعہ بالخصوص اردو دان طبقے کے لیے بہت آسان ہوگیا ہے کہ کم وقت میں زیادہ ذخیرہ احادیث کا مطالعہ کرسکیں گے۔
کتب ِ اربعہ کی تجرید کی یہ شاندار خدمت ایک چار رکنی مجلسِ تحقیق نے انجام دی ہے، جس میں ڈاکٹر مفتی محمد کریم خان، مولانا محمد بلال طارق، مفتی محمد افضل نعیمیاور مفتی محمد امان اللہ شاکر شامل ہیں۔ تجرید کے بعد اس کے ترجمے،تخریجاور نظرِ ثانی کا فریضہ بھی انھی حضرات نے انجام دیا ہے۔ یہ چاروں شخصیات فاضل درسِ نظامی اور علوم ِ دینیہ کے اساتذہ ہیں اور دینی و عصری علوم سے آراستہ ہیں۔ مجلس ِ تحقیق نےبڑی عرق ریزی اور جاں فشانی سے احادیثِ مبارکہ کی یہ خدمت انجام دی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انھیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے اور ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین