پاکستان کرکٹ کی داخلی سیاست اور ورلڈکپ

ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھارت میں موجود ہے، چیف سلیکٹر انضمام الحق نے استعفیٰ دے کر کرکٹ ٹیم یا بورڈ کی داخلی سیاست کو نمایاں کیا ہے۔ اُن کے استعفے نے یہ بات واضح کردی ہے کہ بورڈ یا کرکٹ سے جڑے معاملات میں سب اچھا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ورلڈ کپ کے خاتمے سے قبل ہی چیف سلیکٹر انضمام الحق کو استعفیٰ کیوں دینا پڑا؟ چیف سلیکٹر پر الزام لگایا گیا کہ وہ پلیئرز ایجنٹ کی کمپنی یا عالمی سطح پر موجود یازوا انٹرنیشنل کے شیئر ہولڈر نکلے ہیں۔ اس پر جب پاکستان کرکٹ بورڈ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی تو چیف سلیکٹر انضمام الحق نے استعفیٰ دے کر اپنے عہدے سے دست برادری کا اعلان کردیا۔ اس مقدمے میں پاکستانی بلے باز اور وکٹ کیپر محمد رضوان بھی شامل ہیں، اور یہ مفادات کے ٹکرائو کا بڑا معاملہ بن کر سامنے آیا ہے۔انضمام الحق نے کھلاڑیوں سے مذاکرات کرکے انھیں تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی کی آمدنی سے بھی شیئر دلوایا اور تنخواہوں میں بھی 202فیصد تک اضافہ کروایا۔

تفصیلات کے مطابق سینٹرل کنٹریکٹ پر پی سی بی اور کھلاڑیوں کے درمیان سنگین اختلافات سامنے آئے تھے اور ورلڈ کپ سے قبل معاملہ کمرشل سرگرمیوں کے بائیکاٹ تک پہنچنے لگا تھا اور کھلاڑی آئی سی سی سے ملنے والی رقم میں سے حصہ بھی طلب کررہے تھے۔ایسے میںانضمام الحق سامنے آئے اوربورڈ کو 48گھنٹوں میں تنازع حل کرنے کی پیش کش کردی۔اُس وقت بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ انضمام الحق اور پلیئرز کے ایجنٹ ایک ہی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انضمام الحق بطور چیف سلیکٹر پی سی بی سے 25لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

پلیئرز انٹرنیشنل کمپنی یازوا کا قیام اُس وقت ہوا تھا جب انضمام چیف سلیکٹر نہیں تھے۔ پی سی بی کے قوانین کے تحت کوئی فرد پی سی بی میں عہدے پر ہو تو وہ کسی اورکمپنی کے ساتھ تعلق نہیں رکھ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی سی بی کو اس بات کی تصدیق پہلے نہیں کرنی چاہیے تھی؟ اگرچہ انضمام الحق ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں، اور ان کے بقول وہ خود کو پی سی بی کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی سی بی کا رویہ درست نہیں اور مجھ سے پوچھے بغیر نہ صرف مجھ پر الزامات لگائے گئے بلکہ میری شہرت کو بھی نقصان پہنچایا گیا، میڈیا میں موجود ایک بڑے طبقے نے مجھ پر بغیر تصدیق کے الزامات لگائے جو درست رویہ نہیں تھا۔ اسی بنیاد پر یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ اگر پی سی بی کو انضمام الحق کے معاملے میں کوئی انکوائری کمیٹی بنانی ہی تھی تو ورلڈ کپ ختم ہونے کا انتظار کرلیا جاتا، تاکہ عالمی کپ کے دوران یہ معاملات سامنے آتے اورنہ ہی ہمیں مختلف محاذوں پر سبکی کا سامنا کرنا پڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ پی سی بی کے سربراہ ذکا اشرف پر بھی تنقید کررہے ہیں۔

دوسری جانب انضمام الحق کی جانب سے چیف سلیکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد اس عہدے کے لیے نئے امیدواروں کے نام نکل کر آرہے ہیں۔ ان میں وقار یونس، یونس خان اور عاقب جاوید کے نام زیرغور ہیں۔ ایک ٹی وی شو میں ڈاکٹر نعمان نیاز کے بقول پلیئرز کی کمرشل سرگرمیوں کا مسئلہ پی ایس ایل سے شروع ہوا جب پاکستان سپر لیگ میں ٹیموں نے جوئے کی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے تھے اور جواب میں کھلاڑیوں نے شرٹس پر لوگو لگانے سے انکار کردیا تھا۔ ان کھلاڑیوں میں کپتان بابراعظم اور محمد رضوان بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بابراعظم کی کپتانی بھی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ بہت سے کرکٹ شائقین اورکرکٹ کے تجزیہ نگار بابراعظم پر تنقید کرتے نظر آرہے ہیں اور اُن کے بقول سابق کپتان سرفراز احمد کو دوبارہ کپتان بنایا جاسکتا ہے۔

پاکستان کو اِس سال دسمبر میں آسٹریلیا کے ساتھ تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے جس میں لوگ بابراعظم کی جگہ سرفراز احمد کو ہی کپتانی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرفراز احمد نے اِس سال دس برس کے بعد کراچی وائٹ کو چیمپئن بنوایا اور بہترین کپتانی کی، جس کے بعد اُن کی ملاقات پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کے ساتھ ہوئی جنھوں نے اُن کو جیت پر مبارک باد بھی دی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں، اور ان کو یہی لگتا ہے کہ کرکٹ ٹیم میں بھی کارکردگی سمیت سب اچھا نہیں ہے۔ حالیہ ورلڈ کپ میں بھی ہماری کارکردگی وہ نہیں جس کی ہم میں سے بہت سے لوگ توقع کررہے تھے۔ حتیٰ کہ ہمیں افغانستان سے بھی اس ورلڈ کپ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، اورہماری بولنگ اور بیٹنگ میں وہ ردھم نظر نہیں آیا جو جیت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ بابراعظم کی کپتانی میں بھی بہت سے مسائل دیکھنے کو مل رہے ہیں اور ہماری اسپن بولنگ بھی غیر مؤثر نظر آرہی ہے۔ افغانستان سمیت ہمیں بھارت، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ سے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم پاکستان نے اپنے آٹھویں میچ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر نہ صر ف افغانستان سے پانچویں پوزیشن واپس لے لی بلکہ سیمی فائنل میں رسائی کے لیے اپنی امیدیں زندہ رکھیں۔ اب قومی ٹیم کو اپنا آخری میچ انگلینڈ سے لازمی جیتنا ہوگا۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کو اپنا آخری گروپ میچ 11نومبر کو انگلینڈ کے ساتھ کھیلنا ہے۔ اس سے پہلے نیوزی لینڈ اور سری لنکا کا میچ ہوجائے گا۔ اس میچ پر تمام پاکستانیوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور سب پاکستانی شائقینِ کرکٹ چاہتے ہیں کہ سری لنکا کے ہاتھوں نیوزی لینڈ کو شکست کا سامنا کرنا پڑے، دوسری طرف افغانستان بھی اپنے دو میچوں میں سے ایک ہار جائے۔ اگر نیوزی لینڈ اپنا آخری میچ سری لنکا سے ہار جاتا ہے تو پاکستان کو اپنا آخری میچ انگلینڈ سے جیتنا ہوگا، اور اس جیت کی صورت میں پاکستان سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے، اور اگر نیوزی لینڈ سری لنکا سے جیت جائے اور پاکستان انگلینڈ سے جیت جائے توایسی صورت میں سیمی فائنل کا فیصلہ دونوں ٹیموں کے درمیان رن ریٹ پر ہوگا۔ پاکستان جب اپنا آخری میچ کھیلے گا تو اس کے سامنے نیوزی لینڈ کی صورت حال واضح ہوچکی ہوگی کہ ہم جیت کر ہی سیمی فائنل میں جاسکتے ہیں یا اب ہمیں نیوزی لینڈ کی جیت کی صورت میں نہ صرف انگلینڈ کو شکست دینی ہے بلکہ جیت کا مارجن بھی طے کرے گا کہ کون سی ٹیم سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرے گی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایسی صلاحیت موجود ہے۔ امید کرتے ہیں کہ پاکستان اس ورلڈ کپ کے آخری میچ میں ایک اچھے مارجن سے جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرسکے گا۔

ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو اپنے معاملات سنجیدگی سے درست کرنا ہوں گے، اور بورڈ سمیت کھلاڑیوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنا بھی ضروری ہے۔