الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2024ءکے لیے ماہ فروری کی8تاریخ مقرر کردی ہے، جس کے بعد بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے تیاریاں مزید تیز کردی ہیں ۔ یقیناً یہ تیاریاں حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد شروع ہوگئی تھیں۔ جماعت اسلامی بلوچستان تو بہت پہلے قومی اور صوبائی حلقوں پر امیدواروں کو نامزد کرچکی ہے ۔ نیشنل پارٹی بڑے دھیمے انداز سے بندوبست میں لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ حکومت کے آخری مہینوں یعنی جب بی این پی نے جام کمال خان کے خلاف عبدالقدوس بزنجو کو ابھارنے میں غالب حصہ ڈالا، یہ اسکیم تب کے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کی سربراہی میں بنائی گئی تھی، چناں چہ بلوچستان نیشنل پارٹی قدوس بزنجو حکومت میں حزبِ اختلاف میں ہوتے ہوئے گویا حکومت کا حصہ بنی جس سے بلوچستان نیشنل پارٹی کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا۔ اگرچہ جمعیت علماءاسلام بھی اس اسکیم کی اہم کھلاڑی تھی مگر اسے سیاسی نقصان اس لیے نہیں پہنچا کہ اس کے کارکن اور ووٹر سرے سے اس نوع کے معاملات کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہر حال میں اپنی جماعت کی پالیسیوں پر چلنے والے ہیں۔ اب سردار اختر مینگل نے وڈھ کی صورتِ حال اور لاپتا افراد کا مسئلہ اٹھایا ہے جس کا انہیں فائدہ ملا ہے۔ وجہ سیکورٹی اداروں اور حکومت کی نا فہمی بھی ہے کہ جنہوں نے بی این پی کے لانگ مارچ پر قدغن لگانے کی بے جا کوشش کی، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر کوریج نہ دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ ان غیر سنجیدہ حرکتوں کی وجہ سے بی این پی کے لیے بلوچ عوام میں ہمدردی پیدا ہو گئی ۔ بہر حال بی این پی کے لیے2024ءکے عام انتخابات اطمینان بخش نہیں ہیں ۔ یہاں مرکزِ نگاہ سرکاری پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی ( بی اے پی ) بنی ہوئی ہے کہ جس میں توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
یکم اور2نومبر کو نواز لیگ کے رہنماسردار ایاز صادق کوئٹہ میں تھے، وہ یہاں ”باپ “پارٹی کے وابستگان سے ملے۔ یہ ملاقات مجموعی تھی جس میں باپ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق اراکین اسمبلی اور وزراشامل تھے۔ وہ بھی ملے جنہوں نے میاں نوازشریف کو داغِ مفارقت دیا تھا۔ ایاز صادق سے ملاقات کرنے والوں میں سردارعبدالرحمان کھیتران،نواب جنگیز مری، محمد خان لہڑی ، نور محمد دومڑ ، طور اتمان خیل ، کریم نوشیروانی، سابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی دوستین ڈومکی اور سابقہ پارلیمانی سیکرٹری ربابہ بلیدی شامل تھے ۔ یہ تمام اب نواز لیگ کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ سردار کھیتران پر مسلم لیگ (ن) کے بعض دیرینہ ساتھی و رہنمامعترض ہیں۔یہ رہنما میاں نواز شریف کے ساتھ مشکل ادوار میں جڑے رہے ہیں اور غالباً تیس سال سے زائد کی رفاقت رکھتے ہیں، مگر معلوم نہیں صوبائی صدر شیخ جعفر خان مندوخیل دوبارہ کیوں انہیں نواز شریف کی صفوں میں شامل کرنے کی کوشش میں ہیں! خود جعفر خان مندوخیل بھی بیچ میں میاں نواز شریف کو چھوڑ چکے ہیں، اور یہی چند دیرینہ نظریاتی ساتھی تھے جنہوں نے ان کی دوبارہ قبولیت کے لیے راہ ہموار کردی ہے۔
بارکھان سانحہ ابھی تازہ ہے جہاں سردار عبدالرحمان کھیتران کی سفاکی اور وحشت کھل کر سامنے آئی ہے ۔ان پر لوگوں کو نجی جیلوں میں قید رکھنے، اغوا، قتل، اسی طرح صحافی کے قتل کے الزامات بھی لگے۔ رواں سال کے شروع میں عبدالرحمان کھیتران پر ان کے سابق محافظ خان محمد مری نے الزام لگایاکہ انہوں نے اس کی اہلیہ اور بچوں کو چار سال سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ جب نجی جیل میں قید خان محمد مری کی اہلیہ گراں ناز کی قرآن اٹھا کر بازیابی کی اپیل سے متعلق ویڈیو وائرل ہوئی تو اس کے چند دن بعد بارکھان کے ایک کنویں سے ایک خاتون اور 2 لڑکوں کی لاشیں ملیں ،جن کے متعلق گراں ناز کے شوہر خان محمد مری نے دعویٰ کیا تھا کہ کنویں سے ملنے والی لاش اس کی بیوی اور دو بچوں کی ہے۔ بعد ازاں یہ ثابت ہوا کہ دو لاشیں خان محمد مری کے بیٹوں کی ہیں تاہم لاش اہلیہ کی نہیں کسی اور خاتون کی ہے۔عبدالرحمان کھیتران کو تین افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تاہم وہ اِن دنوں ضمانت پر ہیں۔ گویا پاور پالیٹکس کا یہ مطلب بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی کسی بھی خصلت اور کردار کا حامل ہو اُسے اپنا حصہ بنایا جائے۔ سیاست میں شائستگی ہونی چاہیے ، اچھی روایات کا پاس ہونا چاہیے ۔جب صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے امکانات کی ہوا چلی تو باپ پارٹی کے ظہور احمدبلیدی اور سلیم کھوسہ وغیرہ نے آصف زرداری سے ہاتھ ملالیا اور پارٹی میں شامل ہوگئے۔ غالب طورپرجام کمال خان عالیانی بھی نواز لیگ میں جارہے ہیں۔ مذکورہ سارے افراد ایاز صادق سے شیخ جعفر خان مندوخیل کے گھر ملنے گئے۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی سے ملنے ایاز صادق خود ان کی رہائشگاہ سراوان ہاؤس گئے۔ یہ ملاقات طویل رہی ۔ ایاز صادق نے لشکری رئیسانی کو نواز لیگ میں شمولیت کی دعوت دی۔ لشکری رئیسانی پیپلز پارٹی سے الگ ہوئے تو کچھ عرصہ نواز لیگ میں شامل رہے ۔ بعد ازاں بلوچستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوئے۔ ان دنوں کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں۔
یہاںیہ پہلو بھی مدنظر رہے کہ فی الوقت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے جس میں چند لوگ آئندہ کے کسی اتار چڑھاؤ کے پیش نظر جمع رکھے گئے ہیں۔البتہ عبدالقدوس بزنجو مزید پارٹی کے صدر نہیں رہے ۔5 نومبر کو کوئٹہ میں بی اے پی کے منعقدہ جنرل کونسل سیشن میں نوابزادہ خالد مگسی صدر منتخب ہوئے ۔سینیٹر منظور کاکڑ سیکریٹری جنرل بنائے گئے۔کونسل سیشن میں چیئر مین سینیٹ میر صادق سنجرانی ،اسپیکر بلوچستان اسمبلی جان جمالی، سردار صالح بھوتانی، سینیٹر نصیب اللہ بازئی، سینیٹر کہدہ بابر، سینیٹر آغا عمراحمدزئی، سینیٹر ثنا جمالی، سینیٹر دنیش کمار ،سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال شریک تھے۔ سردار صالح بھوتانی صوبائی صدر اور سینیٹر کہدہ بابر مرکزی سیکریٹری اطلاعات منتخب ہوئیں ۔گویا باپ پارٹی کے لوگ تین جگہوں پرتقسیم ہوگئے ہیں۔آخر الذکر وقتِ ضرورت کے لیے جماعتی شکل میں یکجا کردیے گئے ہیں۔ بلوچستان میںمسلم لیگ نواز،جمعیت علما ءاسلام ،نیشنل پارٹی اور پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی پر مشتمل مخلوط حکومت بنتی ہے تو اس کے سر پر تلوار لٹکتی رہے گی ۔اول تو جو غول نواز لیگ میں شامل ہونے جارہا ہے، وفاداری بدلنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرے گا ۔