عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے انتخابات کا اعلان

نیب ہمیشہ سے ہی ریاستی عناصر کا ایک ایسا آلۂ کار رہا ہے جس کو سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے 8 فروری 2024ء کو ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، انتخابات اِن شاء اللہ وقت پر ہوں گے، میڈیا کو ایسا کوئی منفی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جس سے الیکشن پر شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہوں، سب کے اتفاقِ رائے سے معاملہ حل ہوچکا ہے، الیکشن کمیشن 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنائے۔ الیکشن کمیشن نے باقاعدہ 8فروری 2024ء کو عام انتخابات کرانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ یہ نوٹیفکیشن صدر اور الیکشن کمیشن کے اتفاق کے بعد صدر کی دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد جاری کیا گیا۔

یہ امر خوش آئند ہے کہ تمام سیاسی قیادتیں عام انتخابات کے لیے طے پانے والی 8 فروری کی تاریخ پر متفق ہیں، اور انتخابات کے بروقت ہونے کی یقین دہانی پر سپریم کورٹ کے ریمارکس نے مہر ثبت کرکے انتخابات پر لگے سوالیہ نشان کے حوالے سے تمام شکوک و شبہات دور کردیے ہیں۔ لہٰذا عدالتِ عظمیٰ کی واضح ہدایات کے بعد دانشور حلقوں، سوشل میڈیا بالخصوص پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اب ایسے تبصروں سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے جن سے انتخابات کے حوالے سے عوام میں شکوک و شبہات پیدا ہوں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میڈیا اور اینکر مافیا کو خبردار اس لیے کیا کہ کچھ ایسی اطلاعات ہیں کہ چند ماہ قبل پاکستان کے متعدد صحافی برسلز لے جائے گئے تھے اور ٹاسک یہ تھا کہ پاکستان میں عام انتخابات متنازع بنا دیے جائیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد بھی تصدیق کرچکے ہیںکہ ایسی سازش بُنی جارہی ہے جس کا مقصد انتخابات اور ان کے نتائج کو متنازع بناکر ملک کو مزید بے یقینی کی دلدل میں دھکیلنا ہے۔ اب الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو تمام سیاسی پارٹیوں کے تحفظات دور کرنے چاہئیں کیونکہ لیول پلیئنگ فیلڈ دے کر ہی انتخابات میں حصہ لینے والی ہر پارٹی اور عوام کو انتخابی نتائج پر مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) صرف سیاسی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا وار شروع کیے بیٹھی ہیں، دونوں جماعتوں کی قیادت میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر اصل سیاسی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو پیپلزپارٹی سے مسلم لیگ(ن) کئی درجے زیادہ مقبول سیاسی جماعت ہے، نوازشریف کی وطن واپسی سے اسے بہت فائدہ ہوگا۔ تحریک انصاف کا اب بھی یہ دعویٰ ہے کہ اس کا کھمبا بھی جیت جائے گا۔ پنجاب کے شہروں کی حد تک تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ابھی اس کا ووٹ بینک ٹوٹا نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی نوازشریف کے ساتھ بالواسطہ الجھ رہی ہے اور چاہتی ہے کہ تحریک انصاف بھی میدان میں رہے تاکہ نوازشریف کا حریف مقابلے میں رہے اور پیپلزپارٹی کے لیے کچھ چانس بن سکے، لیکن جہاں فیصلے ہونے ہیں وہاں کی فضا یہ اطلاع دے رہی ہے کہ مفاہمت اور مصالحت کی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنے چار سالہ اقتدار کے دوران قومی سلامتی جیسے اجلاسوں میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا تھا، وہ اب بھی 9 مئی کے ’’نشان‘‘ کے ساتھ سیاسی عمل میں واپسی چاہتے ہیں، اب انہیں کسی شجاع پاشا کی برکھا نہیں مل رہی، وہ جہاں سے پنکھے اتروا رہے تھے وہیں جا پہنچے ہیں۔ اب تو جس سپریم کورٹ نے صادق و امین کہا تھا اسی سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سیاسی ہیجان پیدا کرنے کی کوشش کی، غیرآئینی طور پر قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ دیا، صدر علوی نے غیر آئینی طور پر اسمبلی توڑی جو غداری کے مترادف ہے، عمران خان اور صدر علوی ہی ہیجان اور بحران پیدا کرنے کا باعث بنے۔ اگر وہ اسمبلی سے مستعفی نہ ہوتے تو پی ڈی ایم کی حکومت دس روز نہیں چل سکتی تھی اور انتخابات بھی آئینی مدت کے اندر اندر ہوجاتے۔ ماضی کے انتخابی بیانیے ماضی میں جا بسے ہیں۔ آج کا انتخابی بیانیہ 9 مئی ہے۔ نو مئی کے وارثوں کو سیاسی شکست ہوگی۔ نو مئی کی کھلی بغاوت کے بعد کسی کے لیے گنجائش نہیں رہی کہ اپنی مرضی کی سیاست میں واپس آسکے۔

مسلم لیگ(ن) کا بھی اصل میدان اور حلقہ اثر پنجاب میں ہی ہے۔ پنجاب کی قومی اسمبلی میں 141نشستیں ہیں۔ پنجاب دراصل جی ٹی روڈ کے شہروں، جنوبی پنجاب، شمالی پنجاب اور وسطی کے علاوہ بالائی پنجاب میں تقسیم ہے۔ صرف جی ٹی روڈ پر شہروں کے قومی اسمبلی کے حلقے جیت جانے سے کوئی بھی سیاسی جماعت واضح برتری حاصل کرسکتی ہے۔ جنوبی پنجاب کے تمام دیہی حلقے تقریباً الیکٹ ایبلز کی گرفت میں ہیں۔ جنوبی پنجاب کے علاوہ شمالی اور وسطی پنجاب کے حلقے واضح برتری دلانے کے کام آتے ہیں۔ پنجاب میں ووٹ بینک چھوٹی پاکٹ کے بجائے مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ساتھ ایک واضح اکثریت میں کھڑا ہے۔ جنوبی پنجاب کی حد تک پیپلزپارٹی ایک بااثر سیاسی جماعت ہے۔ مسلم لیگ(ن) فروری میں ہونے والے انتخابات میں جے یو آئی، ایم کیو ایم، جی ڈی اے، اے این پی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ حصہ لے گی۔ اس کے مقابلے میں پیپلزپارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی ہے۔ پنجاب میں دینی جماعتوں کا سیاسی اثر بہت کم ہے۔ مسلم لیگ(ن) اپنا بیانیہ بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے اعلانات اور نعروں کو عوام کتنی پذیرائی بخشتے ہیں، یہ جاننا اب زیادہ دور نہیں رہا۔ نوازشرییف ایک کُل جماعتی کانفرنس کی میزبانی کے خواہش مند ہیں جس میں تحریک انصاف کو بھی مدعو کیا جائے گا، لیکن تحریک انصاف کی خواہش ہوگی کہ ایسی کانفرنس ایوانِ صدر میں ہو۔ اس ساری سیاسی پیش رفت کو نیب آرڈیننس میں توسیع نے کچھ دھندلا دیا ہے۔ عام انتخابات سے صرف چند ماہ قبل نیب آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع نے قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور نیشنل پارٹی نے اس پیش رفت کو ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ توسیع کے حوالے سے قرارداد نگران وفاقی وزیر برائے قانون احمد عرفان اسلم نے جمعرات کو سینیٹ میں پیش کی تھی۔ قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس 2023ء جولائی میں سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے اُس وقت کے وزیراعظم شہبازشریف کے مشورے کے بعد قائم مقام صدر کی حیثیت سے نافذ کیا تھا۔ صدر عارف علوی اس موقع پر سعودی عرب میں تھے۔ اس آرڈیننس کے مطابق ایک ملزم کو جسمانی ریمانڈ میں 14 دن کے بجائے 30 دن تک زیر حراست رکھا جا سکتا ہے۔ آرڈیننس چیئرمین نیب کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ نیب سے تعاون نہ کرنے کی بنیاد پر کسی بھی ملزم کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کر سکتے ہیں، اور یہ کہ کسی ملزم کو انکوائری کے مرحلے پر بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ نیب کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس توسیع کے ذریعے انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے گی۔ نیب ہمیشہ سے ہی ریاستی عناصر کا ایک ایسا آلۂ کار رہا ہے جس کو سیاسی جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اب انتخابات سے صرف چند مہینے پہلے اس طرح کی توسیع کا مقصد صاف یہ نظر آرہا ہے کہ کچھ عناصر انتخابات پر اثرانداز ہونا چاہتے ہیں۔ یہ توسیع سیاست دانوں کی خواہش نہیں لگتی، طاقتور عناصر اس کے پیچھے ہوسکتے ہیں۔

یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی دہشت گردی کا بہت بڑا واقعہ ہونا اپنے پیچھے بے شمار سوالات چھوڑ گیا ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے بلوچستان اور فاٹا کے علاقوں میں دہشت گردی کی روک تھام اور دوسری طرف سے دہشت گردوں کے ہاتھوں رونما ہونے والی کارروائیاں منظرعام پر آتی رہی ہیں، تاہم دہشت گردی کے بعض واقعات ایسے ہولناک ہوتے ہیں جو پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے کافی ہیں۔ ہر واقعے کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ سیکورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں اور قوم کو دہشت گردی سے نجات ملے گی۔ دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں یہ تیزی بہرحال دہشت گردی کے خلاف کارروائی کوزیادہ مؤثر اور ہمہ گیر بنانے کا تقاضا کرتی ہے۔ عام انتخابات کے اعلان کے بعد دہشت گردی پر جلد ازجلد پوری طرح قابو پالینا اور بھی ضروری ہوگیا ہے۔ پاکستان ایئر فورس ٹریننگ ایئربیس میانوالی پر دہشت گردوں نے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب حملہ کیا جسے سیکورٹی فورسز نے ناکام بناتے ہوئے تمام حملہ آوروں کو ہلاک کردیا۔ حملے کے دوران تین غیر آپریشنل طیاروں کو کچھ نقصان پہنچا۔ آپریشن کا فوری اور پیشہ ورانہ اختتام اَمن دشمنوں کے لیے یاددہانی ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج چوکس رہتی ہیں اور کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی بلوچستان کے علاقے پسنی سے اورماڑہ جانے والی سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں پر دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 14 فوجی جوان شہید ہوگئے تھے۔ اسی اثناء ڈیرہ اسماعیل خان میں یکے بعد دیگرے مختلف مقامات پر متعدد دھماکے ہوئے۔ دہشت گردی کے یہ واقعات افسوس ناک ہیں۔ ہر واقعے کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ شرپسند عناصر کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، یہ کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں، ملک میں افراتفری پھیلانے کی مذموم سازش ناکام بنادی جائے گی۔ ملک میں دہشت گردی کے یہ واقعات عام انتخابات کی راہ نہیں روک سکیں گے۔ ملک میں اب عام انتخابات 8فروری 2024ء کو کرانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر، صدرِ مملکت اور سپریم کورٹ ایک پیج پر آئے تو پیش قدمی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالت میں تین الگ الگ تاریخیں دی تھیں جس پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدرِ مملکت کے ساتھ مشاورت کرکے حتمی تاریخ دینے کا کہا تھا۔ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے صدر کے ساتھ تفصیلی ملاقات کی، غور و خوض کیا اور پھر اٹارنی جنرل کی کوشش سے بالآخر 8 فروری پر دونوں نے اتفاقِ رائے کرلیا۔ ملاقات میں چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اور الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان بھی تھے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے صدر عارف علوی سے ملاقات کی تفصیلات اور صدرِ مملکت عارف علوی کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کی دستخط شدہ کاپی سپریم کورٹ میں پیش کی تھی، اس کے بعد ہی عدالت نے حکم نامہ لکھوانے کے بعد انتخابات 90 دن میں کرانے سے متعلق کیس نمٹایا تھا۔ بہرحال اب تاریخ کا اعلان ہوگیا ہے، تمام تر افواہیں دم توڑ گئی ہیں، سرگوشیاں مدھم پڑ گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے صدرِ مملکت کو یہ باور تو کرایا کہ اگر ان کوکوئی مشورہ درکار تھا تو وہ عدات سے رجوع کرسکتے تھے، انہیں صحیح جگہ اپنے آئینی اختیار کا استعمال کرنا چاہیے تھا، لیکن یہ بھی واضح کیا کہ عدالت کا مقصد الیکشن کمیشن یا صدرِ مملکت کے اختیار میں مداخلت کرنا ہرگز نہیں ہے، عدالت مکمل طور پر آئینی حدود سے آگاہ ہے، ہر ادارے پر آئین کی پابندی لازم ہے، اس سے انحراف کاکسی کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان صرف سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ اِس بات سے تو سب کو ہی اتفاق ہے، سپریم کورٹ نے خود کسی بھی تاریخ کا اعلان نہیں کیا بلکہ الیکشن کمیشن کو صدرِ پاکستان کے ساتھ مشاورت کر کے معاملہ حل کرنے پر زور دیا۔ اس طرح مسئلہ صلح صفا ئی اور بات چیت کے ذریعے حل ہوگیا۔ اسی طرح اگر ہر ادارہ اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرے، اپنی اپنی حدود کو پہچانے اور دوسرے کے معاملات میں دخل نہ دے تو کوئی بھی رکاوٹ ناقابل ِ عبور نہیں رہے گی۔