علامہ اقبال اور فلسطین

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو ایک ماہ سے زائد گزر چکا، جس کے دوران اسرائیلی ریاست نے سفاکی کی انتہا کردی ہے۔ نہتے، محصور اور بے قصور فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی طیاروں سے بموں کی برسات جاری ہے، ایک ایک رات میں ڈھائی ڈھائی ہزار فضائی حملے کیے جارہے ہیں، صہیونی ریاست کے ان یک طرفہ حملوں میں انسانیت کی تمام قدروں کو کھلم کھلا پامال کیا جارہا ہے۔ دس ہزار سے زائد معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے، بیمار اور زخمی ان حملوں کے سبب شہادت کی منزل پا چکے ہیں، جب کہ زخمیوں کی تعداد نصف لاکھ کو چھو رہی ہے۔ شہر ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے، عمارتوں کے ملبے تلے بہت سے لوگ مُردہ، یا زخمی حالت میں امداد کے منتظر ہیں۔ اسپتالوں، ایمبولینس گاڑیوں اور امدادی اداروں کے کارکنوں تک کو گولہ باری کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ غزہ کا محصور خطہ خوراک، پانی، ادویہ، ایندھن اور بجلی وغیرہ جیسی بنیادی انسانی ضروریات سے محروم کردیا گیا ہے۔ علاقے میں مواصلاتی رابطے کے ذرائع اور انٹرنیٹ وغیرہ منقطع کیے جا چکے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کو اس جنگ زدہ علاقے تک رسائی دی جا رہی ہے نہ امدادی اشیاء پہنچانے کی اجازت… جس کی وجہ سے وہاں قحط کی کیفیت ہے۔ ظلم اور سفاکی کی انتہائوں کو چھونے کے باوجود جارح اسرائیلی ریاست شرمندہ ہے نہ خوف زدہ، بلکہ اس کے وزیر نہایت ڈھٹائی سے فلسطینیوں کی نسل کُشی اور ان کا وجود مٹانے کے لیے ایٹم بم کے حملے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس ساری صورتِ حال میں تہذیب و تمدن کی دعویدار اور انسانی حقوق کی علَم بردار مغربی دنیا کا کردار نہایت شرمناک ہے۔ وہ ممالک جو ایٹم بم بنانے کی کوششوں کا الزام عائد کرکے ایران پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کردیتے ہیں اور ہلاکت خیز گیسوں کی تیاری کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام عائد کرکے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور اس کے صدر صدام حسین کو تختۂ دار پر پہنچا دیتے ہیں وہی ملک اسرائیلی وزیر کی ایٹمی حملے کی کھلی دھمکی اور اسرائیل کی جانب سے شہری آبادی پر ہلاکت خیز ہائیڈروجن جیسے خطرناک بموں کے استعمال کے باوجود صرف خاموش تماشائی ہی نہیں بنے ہوئے بلکہ کھلے بندوں ظالم، جابر اور سفاک صہیونی ریاست کی سرپرستی کررہے ہیں۔ ایک طرف تو بے چارے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو خوراک و ادویہ تک فراہم نہیں کرنے دی جارہیں، مگر دوسری جانب عین حالتِ جنگ میں اور واضح جارحیت کے باوجود امریکہ اور برطانیہ سمیت ساری مغربی دنیا اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہے، اور دکھ کا مقام یہ بھی ہے کہ اسرائیل کے لیے مغربی دنیا کا اسلحہ اور گولہ بارود مسلمان ممالک کی زمینی، فضائی اور سمندری حدود میں سے ہوکر پہنچ رہا ہے۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کو جسدِ واحد قرار دیا گیا ہے کہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم اسے محسوس کرتا اور بے چین ہوجاتا ہے، مگر افسوس کہ مسلمان جن وطنی و علاقائی حد بندیوں میں محصور ہوچکے ہیں اس نے علامہ اقبالؒ جن کا یوم پیدائش ابھی 9 نومبر کو منایا گیا ہے، کے اس فرمان کو سو فیصد درست ثابت کردیا ہے کہ:

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یورپ اور مغرب کے بارے میں تو علامہ نے ہمیں ایک صدی قبل ہی آگاہ کر دیا تھا کہ:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے

مگر افسوس کہ آج دنیا بھر کے پونے دو ارب مسلمان بھی علامہ کے اس ارشاد کی تائید کررہے ہیں کہ ’’مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہیں‘‘۔ ساٹھ کے قریب مسلمان ریاستیں دنیا کے نقشے پر موجود ہیں مگر ان کی بے حسی اور بے بسی دیدنی ہے، ایک ماہ سے زائد گزر چکا، اسرائیل کی جارحیت جاری ہے مگر کوئی مسلمان ملک کھل کر اس کی مذمت تک کرنے کی جرأت نہیں کر پا رہا۔ عرب لیگ کا اجلاس ہوا ہے نہ اسلامی تعاون تنظیم خوابِ غفلت سے بیدار ہوسکی ہے۔ اب اطلاع ہے کہ سعودی عرب نے 12 نومبر کو او آئی سی کا غیر معمولی سربراہ اجلاس طلب کیا ہے جس میں غزہ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر ’’تبادلہ خیال‘‘ کیا جائے گا۔ یہ اجلاس بھی غنیمت ہے مگر یقین ہے کہ اس میں زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ 1938ء میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے اور اسرائیل کا ناپاک وجود 1948ء میں عمل میں آیا، مگر انہوں نے بہت پہلے کفر کی سازشوں کو بھانپتے ہوئے بانیِ پاکستان محمد علی جناح کے نام اپنے ایک خط میں اپنی تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں، اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ صرف ہندوستان بلکہ اسلام کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘ قیامِ اسرائیل کے لیے مغرب کے دلائل اور جواز کا جواب دیتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے نہایت واضح الفاظ میں فرمایا کہ:

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟

فلسطین اور مسلمان دنیا کی آج کی صورتِ حال میں علامہ مرحوم ہی کے الفاظ میں خالقِ کائنات سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ:

یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے

(حامد ریاض ڈوگر)