میرِ حجازؐ (مستند واقعات پر مبنی سیرت کہانی)

قصہ کہانی ہمیشہ سے ہی انسانی طبائع کی دلچسپی اور پسندیدگی کے حامل رہے ہیں۔ یہ کہانی کار پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کہانی کیسے کہتا یا سناتا ہے۔ سیرت کے واقعات کو کہانی کا روپ دینا آسان کام نہیں، بقول ماہرالقادری: ایک طرف شریعت ہوتی ہے اور ایک طرف محبت ہوتی ہے۔ مولانا عبدالحلیم شرر ہوں یا مولانا ماہرالقادری یا عنایت اللہ سبحانی… سب نے اپنے اپنے انداز و اسلوب میں سیرت نگاری کی اور اسے اپنی سعادت کا ذریعہ بنایا۔

قرآن کریم میں انبیائے کرام کے قصص کا بیان ہے تو احادیث میں مخبر صادقؐ نے بھی بعض مواقع پر کہانی کا اسلوب اپنایا۔ سیرتِ رسولؐ ایک مسلمان کی زندگی کو روشنی، توانائی اور حرارت بخشتی ہے۔ جدوجہد، جانفشانی اور جستجو سے لبریز زندگی انسانی زندگی کے لیے کسی افسانے اور ناول سے زیادہ دلچسپ اور خوبصورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر اختر حسن عزمی نے سیرت کے واقعات کو موضوعاتی تقسیم یا زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرکے 20 عنوانات اور موضوعات کی روشنی میں سیرت کہانی ’’میرِ حجازؐ‘‘ کے عنوان سے دل پذیر انداز میں پیش کی ہے۔ ’’نیل کے مسافر‘‘ اور ’’امام شافعی کے علمی اسفار‘‘ کے بعد ڈاکٹر اختر حسین عزمی کی محنت، جستجو اورلگن کا پرتو اور نقش سیرتِ رسولؐ کی صورت میں ڈھلا ہے اور خوب صورت اندازِ بیان اور قلم کی جولانی عروج پر نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر اختر حسین عزمی نے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کیا اور ایک ادارے کے صدرِ شعبہ اور پھر سربراہ بنے۔ ان کا اندازِ تحقیق و انتخاب اور ترتیب و تسوید عرق ریزی کی غماز ہے۔ انہوں نے اخلاص اور محبتِ رسولؐ کے جذبے سے سرشاری اور وسیع و عمیق مطالعے کے ساتھ واقعاتِ سیرت کو ایک وسیع تر کینوس میں پھیلا کر مسلسل ایک کہانی کے روپ میں پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ کہانی کا یہ انداز نسلِ نو کو خاص طور پر اپیل کرتا ہے۔ نوجوان نسل کو سیرتِ رسولؐ سے جوڑنے کے لیے جو اسلوب درکار ہے وہ تنقیدی و تحقیقی نہیں بلکہ کہانی کا اسلوب ہے۔ کہانی کار کے نزدیک نسلِ نو اہم اور ان کی مخاطب ہے، تنقیدی و تحقیقی مباحث قوتِ تاثیر کو کم کردیتے ہیں، کہانی میں یہ نہیں ہوتا۔ ’’میر حجازؐ‘‘ کے واقعات، مکالمے اور مناظر سارے کے سارے حقیقی ہیں، البتہ ان کا اسلوب کہانی کا ہے۔

سیرتِ رسولؐ کا پیغام اور اس کی قوتِ تاثیر کو علمی و تنقیدی مباحث سے بچاکر تسلسل اور ترتیب سے آپؐ اور آپؐ سے وابستہ کرداروں کو فطری انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میںسیرتِ رسولؐ کا جوہر جگمگاتا اور چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ اسے کوئی ادبی شہ پارہ تو نہیں کہا جاسکتا، البتہ یہ دلوں کے تار چھیڑتی اور گداز کرتی ہے اور آنکھوں میں نمی پیدا کرتی ہے۔

یہ واقعاتِ سیرت معروف ہیں مگر کہانی کا یہ انداز قلوب کا تزکیہ کرتا اور سیرتِ رسولؐ کے مراحل، دعوت و تربیت، ہجرت، جہاد، حُسنِ معاشرت، سیاست و سفارت دین کے جامع و اکمل تصورات کو راسخ کرتے ہیں۔ کہانی لکھنے والے نے فنی تکنیک ضرور استعمال کی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھتے ہوئے یہ حدیث ان کے حرزِجاں اور پیش نظر رہی کہ ’’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ گھڑا وہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے‘‘۔

’’میرِ حجازؐ‘‘ میں انہی واقعاتِ سیرت کا بیان ہے جو سیرت و احادیث میں موجود ہیں۔ صحابہ کرامؓ کے قبولِ اسلام، اقوال و واقعات بھی تحقیق اور مستند ماخذوں سے لیے گئے ہیں، البتہ دورِ جاہلیت کی زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے تخیل اور منظرنگاری و منظرکشی سے کام لیا گیا ہے۔

اسلام دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں، سازشوں، منصوبہ بندیوں میں مکالمات کو منظر کشی اور خیال آرائی سے مؤثر بنایا گیا ہے۔

تاریخ ومغازی میں زیادہ تر واقعات و غزوات کے سیاسی و عسکری پہلو بیان کیے جاتے ہیں لیکن یہاں ساتھ ساتھ تربیت و تزکیہ اور اخلاقی قدروں کا خیال بھی مدنظر رکھا گیا۔ زمانی ترتیب کے ساتھ واقعات کی زمانی ترتیب کتبِ حدیث و سیرت میں بھی ترجیح قائم رکھنے کی کوشش نمایاں نظر آتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن سے جوانی اور رفیقِ اعلیٰ کے پاس تشریف لے جانے تک معجزات، مستند روایات کا بیان ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ظاہر ہے انبیاء کرام کی زندگی کے فطری اسباق، مافوق الفطری اسباب نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ جدوجہد، خوف و امید، خوشی و غم، اطمینان و پریشانی، بھوک، رشتہ داروں اور دشمنوں کی جانب سے اذیتوں کا احساس مثال اور نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

یہ اس ہستی کا خوب صورت تذکرہ ہے جس کی بارگاہ میں جنید و بایزید ہوں یاسنجر وسلیم… دم سادھے ہوئے آتے ہیں۔ خوب صورت اور دلچسپ انداز میں ترتیب دی گئی ’’میرِحجازؐ‘‘ سیرت کے باب میں نہایت قیمتی اور وقیع اضافہ ہے اور محبت و عقیدت کو دل و نگاہ میں جاگزیں کرنے اور حرزِجاں بنانے کا درس دیتی ہے۔
کتاب عمدہ گٹ اپ، دیدہ زیب سرِورق سے مزین، اغلاط سے پاک، اور روایتی انداز میں طباعت و اشاعت کے مراحل سے گزار کر پیش کی گئی ہے۔ البتہ کتاب ایک جلد میں پیش کرنے کے بجائے دو جلدوں میں پیش کی جاتی تو خریدنے والوں کے ساتھ نیکی ہوتی۔