منصورہ کینٹین کے باورچی محمد رفیق ایک نیک روح اپنے رب سے جاملی

منصورہ کینٹین کے نیک نام باورچی محمد رفیق دورانِ ڈیوٹی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

محمد رفیق نیک، سادہ، شریف النفس اور اپنے کام سے کام رکھنے والے اچھے انسان تھے۔ مورخہ 14ستمبر 2023ء کو منصورہ میں ختمِ نبوت کانفرنس جاری تھی، وہ شرکا کے لیے کھانا تیار کرنے پر مامور تھے کہ اچانک دل کی تکلیف ہوئی۔ پہلے تو انہوں نے کوئی توجہ نہ دی، اُنہوں نے سوچا کہ کام سے فارغ ہوکر اسپتال چلا جاؤں گا۔ مگر تکلیف کی شدت سے گر گئے۔ اسپتال لے جایا گیا مگر ان کا آخری وقت آن پہنچا تھا۔ کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی اور اس طرح وہ دورانِ ڈیوٹی اپنے اللہ کے پاس چلے گئے، ان کی موت شہادت کی موت ہے۔

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ان کا یا ان کی فیملی کا تحریک سے رکنیت کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جب وہ تحفیظ القرآن سے وابستہ ہوئے تو انہوں نے تحریک اور تحریکی کام کو اوڑھنا بچھونا ہی بنا لیا۔ پوری توجہ اسی کام پر مرکوز رکھی۔ کوئی دوسری مصروفیت ساتھ نہ اختیار کی۔

محمد رفیق 90 کی دہائی میں مرکز جماعت منصورہ آئے، تحفیظ القرآن منصورہ کے باورچی مقرر ہوئے۔یہ وہ زمانہ تھا جب تحفیظ القرآن کی رونقیں پورے جوبن پر تھیں، دنیا بھر بالخصوص وسط ایشیا، افغانستان، چین، ملائشیا،انڈونیشیا اور ترکی سے بچے حفظ کے لیےآتے، حفظ کرتے، رفیق چاچا کی مہمان داری سے لطف اندوز ہوتے اور اپنے اپنے ملک سدھار جاتے۔رفیق ان بچوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے۔ بڑے چھوٹے سب انہیں رفیق چاچا پکارتے۔ وہ تحفیظ القرآن کے بچوں کے لیے اچھے اچھے کھانے پکاتے۔ وہ ہر طرح کے کھانے پکانے میں ماہر تھے۔ کھانا ایسا بناتے جیسے گھر میں بنایا گیا ہو۔ مناسب نمک، مرچ، گھی اور مصالحہ استعمال کرتےجس سے طبیعت بوجھ نہ محسوس کرتی۔اللہ نے ان کے ہاتھ میں ذائقہ بھی کمال کا رکھا تھا۔ جب تحفیظ القرآن کو مسجد ہال میں منتقل کیا گیاتو محمد رفیق مرحوم کو بھی منصورہ کینٹین میں مشترک کھانا بنانے کے لیے مستقل کیا گیا۔وہ کینٹین کا کھانا بناتے یا تربیت گاہ کے ہزاروں شرکا کے لیے، کھانےوالے لذت محسوس کرتےاور ان سے پوچھتے: کھانا آپ نے بنایا ہے؟آئل اور مصالحہ جات کون سے استعمال کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ جواب میں مسکرا دیتے۔

وہ کام کرتے تو مکمل احساسِ ذمہ داری اور دیانت داری سے کرتے، اپنے کام سے کام رکھتے،کسی سے زیادہ بات چیت نہ کرتے۔صابر اور متحمل ایک سچےخدمت گار اور مخلص انسان… وہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن ان کے بچے پڑھ لکھ رہے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں اور اچھے انسان بنیں۔ ان کا بڑا بیٹا ابھی منصورہ اسکول سے فارغ ہوکر کالج میں انٹر کا طالب علم ہے۔ باقی بچے چھوٹے ہیں اورا سکول میں پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کی دستگیری فرمائے، نیک بنائے اور اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنادے، آمین۔

محترم امیر جماعت جناب سراج الحق کو ان کی ناگہانی وفات کا معلوم ہوا تو انہوں نے ان کی فیملی اور بچوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار فرمایا، تعزیت کی اور انہیں ان کے گاؤں پریم نگر، کوٹ رادھا کشن کے لیے روانہ کیا۔ اپنے کارکنان کے ساتھ ان کی محبت اور جذبہ قابلِ قدر ہے۔

وہ پریم نگر، تحصیل کوٹ رادھا کشن کے رہنے والے تھے جہاں وہ موٹر سائیکل پر اکثر گاؤں جاتے جہاں ان کے والدین مقیم تھے اور ان کی خدمت بجالاتے۔

وہ اچھے، باذوق اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔ لباس اور بالوں کی تراش خراش اور ڈاڑھی کے معاملے میں بھی خاص اہتمام کرتے۔ نمازوں کے اوقات میں مسجد میں نظر آتے۔ صوم و صلوٰۃکے پابند تھے۔

کبھی کبھار انہیں کھانوں سے متعلقہ چیزیں خریدنے کے لیے بھیجا جاتا تو وہ اچھی، معیاری چیزیں مناسب نرخ پر خرید کر لاتے۔ خریداری کرنے میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ بارگیننگ بھی اچھی کرلیتے۔ وہ دل کے کھرے اور لالچ سے کوسوں دور تھے، پھر چیزوں کو سنبھالنے اور محفوظ کرنے میں بھی بخل نہ کرتے، بلکہ مکمل ذمہ داری نبھاتے جو کہ ایک اچھے باورچی ہونے کا ثبوت تھا۔

میں نے انہیں فارغ بیٹھے گپ شپ کرتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمہ تن کام کے آدمی تھے، کام کے دوران ہی ساتھیوں سے گپ شپ کرتے۔ کھانا بنانے کے تو وہ ماہر تھے ساتھ ہی تندور پر روٹیاں لگانے کے کام کے لیے بوقتِ ضرورت میسر ہوتے۔ جب تندورچی رخصت پر جاتا تو متبادل نہ ہونے کے باعث روٹی ہوٹل سے لگوانا پڑتی تھی، پھر یوں ہوا کہ انہیں کہا گیا کہ جن دنوں تندورچی چھٹی پر ہو روٹی آپ لگا دیا کریں۔ انہوں نے انکار نہیں کیا بلکہ یہ فریضہ بھی سر انجام دینے لگ گئے۔

وہ عیدالاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرتے تھے۔ اس کام میں بھی ماہر تھے۔ ایک بار میں نے بھی ان سے عید کے موقع پرجانور ذبح کروایا۔ وہ بہت اچھے انداز سے جانور ذبح کرتے، صفائی کے ساتھ گوشت بناتے۔ ساتھی کبھی کبھار انہیں چھیڑتے کہ رفیق بھائی آپ کا بغدا کہاں ہے؟ آپ تو اچھے خاصے قصائی ہیں و غیرہ۔ یہ کام انہوں نے تحفیظ کے زمانے میں سیکھااور اسے روزگار کا ذریعہ بنایا۔جو مل جاتا اس پر صبرشکر کر کے گزارہ کرلیتے۔ایک اچھے دل والاانسان جس کے دل میں ہر کسی کے لیے محبت،لگاؤ اور انس تھا۔اگر کسی سے کسی وقت رنجش بھی ہوجاتی تودوبارہ ملنے پر انہیں کم ہی یاد ہوتا۔

ایک دوست نے شادی کا پروگرام رکھا، انہوں نے کھانا بنوانے کے سلسلے میں مجھ سے رابطہ کیاتو اس شادی کے کھانے کے لیے محمدرفیق سے درخواست کی۔ انہوں نے شادی کے پروگرامات کو عمدگی سے نبھایا۔مجھے بعد میں بھی دوست احباب پوچھتے رہے کہ کھانا کہاں سے بنوایا تھا تاکہ اس سے بنوایا جا سکے،تو میں نے انہیں بتایا کہ ہماری منصورہ کینٹین کےساتھی ہیں جنہوں نے محبت اور اخلاص کے جذبے سے یہ کام سر انجام دیا ہے، آپ چاہیں تو ناظم مہمان خانہ سے رابطہ کر لیں یا براہِ راست باورچی سے۔

ان کی نمازِ جنازہ ان کے گاؤں پریم نگر کو ٹ رادھا کشن میں ادا کی گئی۔مقامی لوگ بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود تھے اور منصورہ کے دوست احباب بھی اپنا تعلق نبھانے پہنچے ہوئےتھے۔ہر فرد اس اچانک اور ناگہانی وفات پر دل گرفتہ نظر آیا۔ان کے بزرگ والد اور بھائی سے تعزیت کرنے والے انہیں حوصلہ دے رہے تھے اور ہمت بندھا رہے تھے، مگرظاہر ہے اللہ کی مرضی کے آگے انسان توبے بس ہی ہے۔یہی ہمیں دین سکھاتا ہے اوریہی ہمارے ایمان کا تقاضاہے کہ موت بر حق ہے۔

اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے،نیکیوں کو قبول فرمائے اور اعلیٰ علیین سے نوازے، اور ان کے بچوں کا حامی و ناصر ہو جائے، آمین۔