مذہی تحریکوں نے ہمیں کیا دیا؟ اگر ہم میں عقل و خرد کی ذرا بھی رمق باقی ہے تو آج ہمارے لیے اس سے اہم سوال کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ اسلامی ریاست کے جس تصور کو اختیار کیا گیا وہ قراردادِ مقاصد کی صورت میں مجسم ہوا، جو بعد میں آئین کا حصہ بن کر پاکستان کے نظریاتی تشخص کی بنیاد بن گئی۔ پاکستان میں ابتدا ہی سے مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو بحث چل نکلی ہے، اس میں یہ کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان کو سمجھنے کے لیے مذہب و سیاست کے باہمی تعلق کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مذہبی تحریکوں کا مطالعہ اس کا نقطہ آغاز ہوسکتا ہے۔ ہم نے قومی سطح پر اس موضوع کو دقتِ نظر کے ساتھ نہیں سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کا جب بھی اہلِ مذہب سے پالا پڑا اُس کو پسپائی ہی اختیار کرنی پڑی۔ مذہب و ریاست کا مسئلہ برسوں سے ہماری دہلیز پر کھڑا ہے، اربابِ حل وعقد کو مگر یہ بات کون سمجھائے کہ جنہیں اس مکالمے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ جنوبی ایشیا کے فکری منظرنامے میں صفِ اوّل کے مسلم مفکرین نے نمائندہ تحریکوں کا حصہ بننے کے بجائے اپنی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔
مفکر، محقق اور پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین نے اپنی کتاب ’’مذہب، ریاست اور سماجی تبدیلیاں… جدید فکری رجحانات‘‘ میں حالیہ محرکات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ یہ درحقیقت ایک اہم کام ہے، مگر اس کے لیے انہوں نے علما کے لیے مابعد ازاسلام کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ڈاکٹر حسن الامین یہ یقین رکھتے ہیں کہ مابعد ازاسلام سے مراد اسلامی تحریکوں کا خاتمہ نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے مراد خلافِ اسلام یا پھر آزاد خیالی ہے، مگر اس سے مراد ریاست اور معاشرے کی مثالیت پسندی ضرور ہے۔ مابعد از اسلام ایک ایسا ڈھانچہ فراہم کرتا ہے جہاں سیاسی اصلاحات کا تعلق مذہی اصلاحات سے ہے، جہاں اسلامی جماعتیں اپنی توجہ اقلیتوں، نوجوانوں اور صنفی خدشات پر مرکوز کریں اور ان کے حقوق کو اجاگر کریں۔ درحقیقت یہی عملی طور پر مابعد از اسلام کا ظہور ہے۔
جہاں تک اسلام ازم کی تحریکوں کا تعلق ہے ڈاکٹر حسن الامین انہیں نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں سمجھتے ہیں اور وہ اس کے تین عوامل بیان کرتے ہیں:
-1 مذہب کی سیاسی توجیح بیان کرنا اور اس تناظر میں ذاتی اور اجتماعی فرائض کا تعین کرنا۔
-2 شریعت کے نفاذ کے لیے سماجی اور سیاسی جدوجہد، ریاست کے اداروں کے ذریعے اسلام کا نفاذ اور اسلام کو سماجی تبدیلی کے طور پر پیش کرنا۔
-3 اسلام کی تبلیغ کے لیے پروپیگنڈے کے تمام جدید ذرائع بالخصوص پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا استعمال۔
ان کے مطابق مابعد از اسلام ایک سماجی تحریک ہے جو اسلامی ریاست کے قیام کے لیے متحرک ہے، یا شاید یہ مسلمانوں کے ذہنوں میں عالم گیریت کا ردعمل ہو۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ جاوید احمد غامدی برصغیر میں مروجہ مکاتیبِ فکر کی پیروی نہیں کرتے۔ جاوید احمد غامدی نے مولانا مودودیؒ سمیت اسلام پسندوں کے اسلامی ریاست کے تصور کو چیلنج کیا ہے جو کہ شریعت کو تمام سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات میں برتر مانتے ہیں۔ ڈاکٹر حسن الامین نے ملک کی موجودہ دوسری مذہبی تحریکوں کے مقابلے میں ایک نقطہ نظر پیش کیا ہے۔
معاصر سیاسی اسلام کے باقاعدہ تصور کے نظریہ سازو پرچارک کے طور پر مولانا مودودیؒ کے مقام و تعین پر کس کو کلام ہوسکتا ہے! بہ مشکل ہی کوئی تحقیقی مطالعہ ایسا ہوگا جس میں سیاسی اسلام کی نظریہ و ادارہ سازی میں مولانا مودودیؒ کی خدمات کو فراموش کیا گیا ہو۔
بہ مشکل ہی سیاسی اسلام (Political islam) کے حوالے سے ایک سنجیدہ تحقیق سیاسی اسلام کی ادارہ جاتی تشکیل و اطلاق کے لیے مولانا مودودیؒ کی خدمات کو نظرانداز کرسکے گی۔ اگرچہ مولانا مودودیؒ، ان کے سیاسی اسلام اور اسلامی ریاست کے تصورات و نظریات سے مغربی درس گاہیں بہ خوبی واقف ہیں، لیکن مغربی محققین مولانا مودودیؒ کی فکر کے ناقد اور متبادل بیانیے کے خالق علما کی فکر سے تاحال خاطر خواہ شناسائی حاصل نہیں کرپائے۔
زیادہ واضح فکری عمل دخل رکھنے کے باوجود مابعد از اسلام ازم تحریکیں مقبول سماجی تحریکوں کی شکل اختیار نہیں کرسکیں۔ ڈاکٹر حسن ناامید نہیں ہیں، وہ اس بات سے متفق ہیں کہ مابعد از اسلام ایک متحرک تصور ہے جو کہ اسلام کو سماجی، سیاسی اور فکری میدانوں میں درپیش نئے چیلنجوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے مصروف ہے۔
ڈاکٹر حسن الامین نمایاں مفکر ہیں جنہیں کئی عالمی فورمز پر بات کرنے کا موقع ملا ہے اور ان کی زیر نظر کتاب سے پاکستان میں ایک نئے مکالمے کا راستہ کھلے گا۔
nn