خیبر پختون خوا کے تاریخی شہر چارسدّہ سے عزیزم ابوبکر صدیقی نے سوال ارسال کیا ہے کہ
’’بھانڈا کسے کہتے ہیں؟ بھانڈا پھوٹنا یا بھانڈا پھوڑنا کے لفظی معنی کیا ہوں گے‘‘۔
خط پڑھ کر خوشی ہوئی کہ چارسدّہ سمیت چارسُو صدیقی پھیلے ہوئے ہیں۔گویا چارسدّہ میں صرف چپلیں ہی نہیں بنائی جاتیں، ہمارے صدیقی صاحبان بھی وہاں چپلیں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ یہ شہر ہمارے صوبے خیبر پختون خوا کا ایک اہم تاریخی شہر ہے۔ ملک کی بہت سی مشہور سیاسی شخصیات کا تعلق اسی شہر سے تھا۔ کچھ اہم شخصیات اب بھی اسی شہر سے ہیں۔ چارسدہ سے تعلق رکھنے والے مشاہیر میں خان عبدالغفار خان، ولی خان، حیات محمد خان شیرپاؤ اور آفتاب شیر پائو وغیرہ کے علاوہ خیبرپختون خوا کے موجودہ نگراں وزیراعلیٰ اعظم خان بھی شامل ہیں۔ اگر اعظم خان محض وزیر ہوتے تو ’’وزیراعظم خان‘‘ کہلاتے۔ ’سد‘ کا مطلب ہے روکنا، مزاحم ہونا، دیوار اور بندش۔ کسی برائی یا بیماری کا رستہ روکنا ہو تو اُس کے دخول کے دروازے بند کرکے ہم اُس کا ’سدِّ باب‘ کردیتے ہیں۔ اُردو اور فارسی کے اکثر شعرا کی طرح حضرتِ ناظمؔ کو بھی رونے دھونے کی دھاکڑ بیماری تھی۔ اُنھیں اِس کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ مگر اپنے اس کام سے دو بھیانک کام تو وہ کر ہی گئے۔ ایک تو سکندر ذوالقرنین کی مدتوں میں تعمیر کی ہوئی دیوارِ چین، اپنی پلک جھپک کر پل بھر میں ڈھادی۔ دوسرے ایرانی بادشاہ فریدوں کا اچھا خاصا بنا بنایا محل بھی مسمار کرڈالا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ناظمؔ صاحب اس بدنظمی پرنادِم نہیں، نازاں ہیں کہ
میرے شیون سے فقط قصرِ فریدوں نہ گرا
سدِّ اسکندرِ اورنگ نشیں بیٹھ گئی
’سدِّسکندری‘ تو ناظم ؔ صاحب کے نالے سے بیٹھ گئی۔مگر کہتے ہیں کہ چار سدہ کا نام ’چار سدّہ‘یوں پڑا کہ شہر کے چاروں طرف ’سد‘ اُٹھائی گئی تھی۔ فصیلِ شہر۔ ہر سد میں ایک ایک باب تھا۔ ہر باب سے چار مختلف سمتوں کو راہ نکلتی تھی، کابل کی طرف، سوات کی طرف، قبائلی علاقوں کی طرف اور ہندوستان کی طرف۔قصہ مختصر، چاروںطرف سے سدِّباب کرکے بھی چارسدّہ صدیقیوں کی راہیں مسدود نہ کر سکا۔
چلیے، چارسدہ کا سدباب تو ہوگیا۔ اب آئیے بھانڈا پھوڑتے ہیں۔ ’بھانڈا‘ مٹی کے بڑے برتن مثلاً ہانڈی، گھڑے یا مٹکے کو کہا جاتا تھا۔ برصغیر میں بہت عرصے تک مٹی کے چولھے پر مٹی کی ہانڈی میں، دھیمی دھیمی آنچ پرکھانا پکایا جاتا تھا۔ بعض علاقوں میں شاید اب بھی پکایا جاتا ہو۔ یہ کھانا دھیمے دھیمے اورآہستہ آہستہ تیار ہوتا تھا، تب ہی تو لذیذ و مزے دار ہوتا تھا۔ لکڑی، کوئلے اور اُپلے کی آنچ کی آہستگی میں اور بہت سی چیزیں آہستہ آہستہ شامل ہوجاتی تھیں۔ مگر جیسا کہ ہم اپنے کسی پرانے کالم میں لکھ چکے ہیں اب تو گھروں میں گیس یا بجلی کے چولھے اور برقی لہروں کے تنور آگئے ہیں جنھیں ’مائیکرو ویو اوون‘ کہا جاتا ہے۔ سرد خانے سے نکلے ہوئے ٹھنڈے کھانے، ننھی لہروں کے اس تنور میں گرماکے کھلا دیے جاتے ہیں۔ ان تنوروں میں سرد کھانوں کے ساتھ ساتھ سردمہری کا شکار ہوجانے والی بہت سی دوسری چیزیں بھی رکھ دی گئی ہیں۔ سب کی سب ساتھ ہی ’دم پُخت‘ ہوگئیں۔ گھروں میں بولی جانے والی شیریں زبان، رسیلالب و لہجہ، بامحاورہ گفتگو، تربیتِ اطفال، بالخصوص بچیوں کی تعمیر سیرت، خاندانی روایات، تہذیب اور تمدن سب ہی کچھ اس تیز رفتار چولھے میں جھونک دیا گیا ہے۔
مٹی کے چولھوں پر چڑھانے کے لیے مٹی کے برتنوں کے بعد جدید چولھوں پر چڑھے ہوئے جو برتن لوگوں کے استعمال میں آئے وہ بھی ’بھانڈا‘ کہلائے۔ ابھی بہت برس نہیں بیتے کہ پنجاب کے گلی کوچوں میں قلعی گر صدا لگاتے پھرتے تھے ’’بھانڈے قلعی کرالو‘‘۔ اہلِ پنجاب آج بھی اپنے باورچی خانے میں ’برتن بھانڈے‘ ہی رکھتے ہیں۔ ’’بنجارہ نامہ‘‘ میں نظیرؔ اکبر آبادی ’بنجاروں‘ یعنی بدیس اور پردیس میں پھر پھر کرمال بنانے والوں اور پھر دیس واپس آکر نہاری، سری پائے اور حلوہ اُڑانے والوں کو عبرت دلاتے ہیں:
جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے
پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے
’نایک‘ سردار یا سرگروہ کو کہتے ہیں۔ ہمارے دوست نادر خان بھی ’سرگروہ‘ ہیں۔ انھیں بھی لسانیات کا نایک ہی جانیے۔’تن کا نایک‘جان یا رُوح ہے۔ اگر یہ نکل جائے تو سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا۔پہلے مصرعے میں ’ہانڈا‘ بے کار پھرنے اور آوارہ گردی کرنے کے معنوں میں لیا گیا ہے۔’ہانڈنا‘ فضول گھومتے پھرنا ہے۔ دوسرے مصرعے میں یہی لفظ ہانڈی کا مذکر بن گیا ہے۔’مانڈا‘ نہایت پتلی اور بڑی سی روٹی کو کہتے ہیں جو میدے میں گھی ملا کر تنور میں پکائی جاتی ہے۔اتنی پتلی اور بڑی روٹی رکھنے کا بھانڈابھی کوئی خاص بھانڈا ہوتا ہوگا۔
مٹی کا بھانڈا آسانی سے پھوٹ جاتا تھا۔ کوئی پھوڑنا چاہتا تو اُسے بھی دُشواری نہیں ہوتی تھی۔ جب تک کوئی شے بھانڈے کے اندر رہتی ہے، تب تک پوشیدہ اور پردۂ راز میں رہتی ہے۔ لیکن بھانڈا پھوٹ جائے یا پھوڑ دیا جائے تو اندر کی چیز باہر آجاتی ہے۔ راز فاش ہو جاتا ہے۔اسی وجہ سے ’بھانڈا پھوٹنا‘ بھید کُھل جانے اورراز فاش ہو جانے کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ جب کہ ’بھانڈا پھوڑدینا‘ افشائے راز کردینے کے مفہوم میں مستعمل ہے۔ کبھی کبھی ساجھے کی ہنڈیا بھی چوراہے پر پھوٹ جاتی ہے۔ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب ساجھوں ماجھوں میں پھوٹ پڑ جائے۔ آپس میں پھوٹ پڑتے ہی ساجھے کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے پر پھوڑ دی جاتی ہے۔پھرکُھد بُد کُھد بُد پکنے والی ساری اور ساجھی سازش طشت از بام ہوجاتی ہے۔ سازشیوں کا کام تمام ہو جاتا ہے۔
لیجے صدیقی صاحب! ہم نے بھانڈا پھوٹنے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔بھانڈا پھوٹتے ہی ایک اور لفظ یاد آگیا ’بھانڈ‘۔ پہلے اس کے معنی ؎تھے ’پیٹ کا ہلکا ہونا‘۔ ’بھانڈا‘ بھی تو پیٹ کا ہلکا ہی ہوتا ہے۔ جو پیٹ میں ہو منہ سے نکا ل دیتا ہے۔ اسی طرح بھانڈ بھی ہر بات ہر جگہ اُگل دیتا ہے۔ بعد کو یہ لفظ صرف نقالوں اور ناچنے گانے والوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ بھانڈ لوگ بالعموم خوشی کی تقریبات میں پہنچ کر ناچتے گاتے ہیں تاکہ اپنے اور اپنے بھانڈے کے لیے رزق کما سکیں۔ مولوی میر حسن مرحوم ایسی ہی کسی تقریب کا حال سناتے ہوئے بتاتے ہیں:
کِیا بھانڈ اور بھنگیوں نے ہجوم
ہوئی ’آہے آہے مبارک‘ کی دھوم
اسلام آباد سے محمد اسلم (طالب علم بحریہ کالج) نے پچھلا کالم پڑھ کر پوچھا ہے: ’’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا کا کیا مطلب ہوا؟‘‘
مطلب تو آپ کی سمجھ میں اُس وقت آئے گا جب ہم اس ضرب المثل سے منسوب قصہ سنائیں گے۔پہلے یہ جان لیجے کہ یہ ضرب المثل ایسے موقعے پر استعمال کی جاتی ہے جب کوئی کائیاں شخص کسی کو اُس کے فائدے کا لالچ دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرنا چاہے مگر اگلا اُس کے جھانسے میں نہ آئے اور یہ کہہ کرجان چھڑا جائے کہ’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘۔اب قصہ سنیے۔ کہتے ہیں کسی جگہ چوہے بلی کا کھیل جاری تھا۔ بلی نے چوہے پر جھپٹّا مارا مگر خوش قسمتی سے چوہا بچ نکلا۔ البتہ اُس کی دُم بلی کے ہاتھ میں آکر ٹوٹ گئی۔چوہا اپنے بل میں جا گھسا۔ بلی ہاتھ ملتی رہ گئی۔آخر بلی کو ایک ترکیب سوجھی۔ اُس نے چوہے سے کہا ’’چوہے میاں بل سے باہر آؤ میں تمھاری دُم جوڑ دوں، ورنہ یوں لنڈورے پھرتے ہوئے تم بہت بُرے لگو گے‘‘۔ چوہا سمجھ گیا کہ جیسے ہی بل سے باہر نکلے گا، وہ کود کے آن دبوچے گی، پھر اُس کی گردن نوچے گی، پھر ہبڑ ہبڑ کھا جائے گی، یوں اپنی حرص مٹائے گی۔سو، اُس نے بلی کو محولہ بالا جواب دے ڈالا۔مگر شاید چوہا بھی اپنی برادری کا بابائے اُردو ہی تھا۔ بلی کے جواب میں ایسا جملہ کسا جو ضرب المثل بن گیا۔