’’ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں،ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ‘‘ مولانا ظفر احمد انصاریؒ… ایک عہد ،ایک تاریخ

مولانا محمد ظفر احمد انصاری فروری 1905 میں الٰہ آباد شہر کے قریب واقع منڈارا نامی گائوں میں پیدا ہوئے۔ اُن کے آبا و اجداد سلطان محمود غزنوی کے بھانجے سالار مسعود غازی کے ساتھ عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان کے شہر بہرائچ میں آباد ہوئے تھے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد جب مسلمانوں پر حالات تنگ ہوئے تو مولانا انصاری کا خاندان منڈارا منتقل ہو گیا۔ مولانا انصاری کے والد حافظ فضل الرحمن اور دادا مولانا نور محمد کا تعلق درس و تدریس کے شعبے سے تھا ۔اس کے ساتھ ساتھ کپڑے کی تجارت بھی کرتے تھے۔ یہ اس زمانے کے اہل علم کا عام معمول تھا کہ درس و تدریس کے ساتھ معاش کے لیے کوئی پیشہ بھی اختیار کیا کرتے تھے۔ مولانا ظفر احمد انصاری کی رحلت 20 دسمبر 1991ء کو ہوئی۔

قیام پاکستان کے بعد ان کا مستقل قیام کراچی میں ہی رہا جہاں انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ سعید منزل کے سامنے واقع 12/18 ایم اے جناح روڈ کے کرائے کے ایک فلیٹ میں گزارا۔ اسی فلیٹ میں ملک اور بیرون ملک سے آنے والی بڑی بڑی علمی‘ ادبی اور سیاسی شخصیات ان سے ملاقات کے لیے تشریف لاتی تھیں۔ مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی جب بھی پاکستان آتے تو ان کی قیام گاہ پر بھی تشریف لاتے۔ اسی طرح اخوان المسلمون کے رہنما کراچی تشریف لاتے تو وہ انصاری صاحب سے ملنے کے لیے آتے۔ اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء شہید کے داماد سعید رمضان کا کراچی میں برسوں قیام رہا۔ اُن کا وہاں آنا روز کا معمول تھا۔ یہاں آنے والوں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ‘ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین‘ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین‘ میاں عبدالباریؒ، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع‘ میاں طفیل محمدؒ، میاں ممتازدولتانہ‘ نواب زادہ نصراللہ خان‘ ماہرالقادری‘ ڈاکٹر الٰہی علوی‘ اسماعیل احمد مینائی‘ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن عمر حیات ملک (تحریک پاکستان میں اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے ان کاتاریخی کردار ہے‘ قیام پاکستان کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر تھے) ‘ مولانا ناظم ندوی (جو مولانا انصاری کے سمدھی بھی تھے)‘ پروفیسر حسن ریاض (استاد جامعہ کراچی‘مصنف ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘) ماہر تعلیم‘ ملک کے مزاح گو شاعرسید محمد جعفریؒ‘خلیق نذیری‘ سردار عبدالقیوم‘ کے ایچ خورشید‘ سردار امین خان لغاری‘ مطلوب الحسن سید‘ مولانا حسن مثنیٰ ندوی‘ڈاکٹر حمیداللہ‘ بابا ذہین شاہ تاجی‘ پیر ہاشم جان سرہندی‘ مولانا عبدالرشید نعمانی‘ مفتی جعفر حسین مجتہد‘مولانا متین خطیب‘ پروفیسر محمد سلیم‘ مولانا طاسین‘ چودھری محمد اشرف باجوہ‘ مولانا عبدالغفار‘ زبیر بن عمر‘ جسٹس محمد افضل چیمہ‘ جسٹس نورالعارفین‘ جسٹس عبادت یار خان‘ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی‘ الطاف حسن قریشی‘ محمود احمد مدنی‘ ڈاکٹر نثار زبیری اور کئی دیگر معززین شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما چودھری غلام محمد مرحوم جب تک حیات تھے اور وہ کراچی میں موجود ہوتے تو کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا تھا جب وہ شام کو گھر جانے سے پہلے وہاں نہ آتے ہوں۔ 1962ء اور 1970ء کا الیکشن لڑنے کے لیے انہیں آمادہ کرنے میں چودھری غلام محمد مرحوم کا بنیادی کردار تھا۔ افسوس کہ وہ 1970ء میں ان کی کامیابی کو نہ دیکھ سکے اور الیکشن سے پہلے ہی ان کا انتقال ہوگیا۔

ساری زندگی کراچی میں رہنے کے بعد اپنے انتقال سے محض چند ہفتے پہلے مولانا انصاری اپنے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کے پیہم اصرار پر اسلام آباد میں ان کے گھر منتقل ہو گئے تھے۔ وہیں ان کی طبیعت خراب ہوئی اور دو دن کی مختصر علالت کے بعد وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے پڑھائی۔ نمازجنازہ میں ان کے خاندان کے افراد کے علاوہ ملک بھر سے آئے ہوئے ان کے معتقدین اورملک کی معروف شخصیات شریک ہوئی تھیں جن میں میاں محمدنواز شریف‘ سردار فاروق لغاری (سردار فاروق لغاری کا ان سے تعلق زمانہ طالب علمی سے تھا‘ وہ جب بھی کراچی آتے تو انصاری صاحب کے یہاں ضرور آتے اور گھنٹوں وہاں بیٹھتے)‘ چودھری شجاعت حسین‘ راجہ ظفر الحق‘ شیخ الجامعہ ڈاکٹر انوار حسین صدیقی‘ سید منور حسن‘ پروفیسر خورشید احمد‘ ڈاکٹر انیس احمد‘ الطاف حسن قریشی‘ مجیب الرحمن شامی‘ سید فصیح اقبال اور متعدد ارکان قومی اسمبلی و سینیٹ بھی شامل تھے۔

1926ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار بیک وقت تین مسلمان طلبہ نے اپنے اپنے شعبوں میں ٹاپ کیا تھا۔ ان میں مولانا محمد ظفر احمد انصاری نے ایم اے فلسفہ میں ٹاپ کیا‘ ان کے قریبی دوست ظفر الحسن لاری نے معاشیات میں اور محمد اقبال (جو بعد میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے) نے پولیٹیکل سائنس میں ٹاپ کیا تھا۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے دو سال بعد الٰہ آباد یونیورسٹی سے ہی ایل ایل بی کے امتحان میں بھی ٹاپ کیا۔ تدریس مکمل کرنے کے بعد کچھ عرصہ الٰہ آباد یونیورسٹی میں ہی بطور استاد اور ریسرچ فیلو خدمات انجام دیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبال الٰہ آباد تشریف لائے اور اپنا مشہور خطبہ الٰہ آباد پیش کیا۔ انصاری صاحب کی خوش نصیبی تھی کہ وہ بھی یہ خطبہ سننے والوں میں شامل تھے اور علامہ اقبال سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا۔ انصاری صاحب علامہ اقبالؒ سے حد درجہ متاثر تھے۔ انہوں نے 1930ء کے عشرے میں ’’پیامِ حریت‘‘ کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی تھی۔ 1969ء میں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے زیر انتظام ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ کا اجراء ہوا تو اس کے مدیر جناب مجیب الرحمن شامی نے انصاری صاحب کی یہ نظم شائع کی اور اس پر نوٹ لکھا ’’انصاری صاحب کی نظم علامہ اقبال کے رنگ میں کہی گئی ہے۔‘‘

’’پیام حریت‘‘ کے پہلے صفحے پر انصاری صاحب نے علامہ اقبال کے فارسی کلام کا یہ شعر نقل کیا ہے:

’’مزاجِ ناقہَ را مانند عرفی نیک می دانم
حُدی را تیز تر خوانم چوں محمل را گراں بینم‘‘

انصاری صاحب نے ’’پیام حریت‘‘ کا انتساب مسلمانانِ ہند کے نام کرتے ہوئے لکھا:

’’اب سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے ریگ زارِ عرب کے ایک خرقہ پوش اُمی کا پیام لے کر بادیہ نشینوں کی ایک بے سرو سامان قوم اٹھی جس نے نصف صدی میں زمین کے ایک ثلث پر ربانی حکومت قائم کر دی اور عالمگیر مساوات‘ جہاں آرا اُخوت‘ گیتی افروز تمدن‘ کائنات کشا علم و عمل کا پرچم لہرا کر اپنے کو خیرالامم ثابت کر دکھایا۔ اگر وہ قوم اب بھی زندہ ہے تو یہ ’’پیامِ حریت‘‘ اسی کے نام معنون ہے۔

دِلم بشگاف و ذوقِ اضطرابم را تماشاکُن‘‘
(ظفر انصاری)

انصاری صاحب کی اس طویل نظم کو ایک مختصر مضمون میں شامل کرنا تو ممکن نہیں‘ البتہ چند ابتدائی اور اختتامی اشعار نقل کیے جا رہے ہیں:

دے رہا ہوں قلبِ مسلم کو نویدِ اضطراب
خاکِ افسردہ میں پھر پیدا ہو ذوقِ اِلتِہاب
پھر رگِ بازو میں کھائے زورِ حیدرؓ پیچ و تاب
پھر نظر کے سامنے پھرنے لگے خیبر کا باب
سن کہ پیغام حیاتِ جاوداں دیتا ہوں میں
تودۂ گِل کے لیے روحِ رواں دیتا ہوں میں
٭
عبائوںمیں پیوند‘ پتھر شکم پر
قدم کے تلے تاجِ کسریٰ و قیصر
غذا نانِ جو‘ وہ بھی کم تر میسر
مگر ہاتھ میں زورِ تسخیر ِ خیبر
کبھی اہل ایماں کی پہچان یہ تھی
کبھی اہلِ اسلام کی شان یہ تھی
٭
مسلمِ نادار پھر جنسِ حمیت لے کے اٹھ
پھر اُسی قرآن سے درسِ اخوت لے کے اٹھ
٭
کیا ہوا مسلم وہ زورِ ناشکیبائی ترا؟
کیا ہوا وہ اضطرابِ موجِ دریائی ترا؟
کیا ہوا جوشِ جنوں اے حق کے سودائی ترا؟
کیا ہوا وہ جذبۂ کونین پیمائی ترا؟
اُٹھ مکاں و لامکاں کی دل میں وسعت لے کے اٹھ
٭

انصاری صاحب کے گھر پر سال میں کم سے کم دو بار تو شعری نشستیں ضرور ہوتی تھیں۔ ایک سردی کے موسم میں اور ایک گرمی کے موسم میں۔

انصاری صاحب الٰہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔ قانون کی تعلیم بھی الٰہ آباد سے حاصل کی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد تفسیر قرآن‘ حدیث اور فقہ کی باقاعدہ تعلیم سبقاً سبقاً کراچی میں علامہ خلیل عرب اور مولانا حکیم سعید اشرف ؒ سے حاصل کی تھی۔ انصاری صاحب کے ساتھ ماہر القادری مرحوم، اسماعیل احمد مینائی مرحوم اور ڈاکٹر منظور احمد بھی پڑھنے والوں میں شامل تھے۔

اسی طرح انصاری صاحب نے گاندھی جی کے قریبی دوست اندولال یاجنک کی قیام پاکستان سے قبل شائع ہونے والی کتاب ’’Gandhi As I know him‘‘کا اردو ترجمہ ’’پیر ِ سابرمتی‘‘ کے نام سے کیا جسے خاصی مقبولیت ملی۔ چند سال قبل یہ ترجمہ دوبارہ شائع کیا گیا جسے تاریخ ہند سے دل چسپی رکھنے والے افراد میں کافی سراہا گیا۔

انصاری صاحب اردو، انگریزی، فارسی اور عربی پر عبور رکھتے تھے۔ عربی زبان سے ان کی محبت اس درجہ تھی کہ اپنے تمام بچوں کی شادی کے دعوت نامے ایک طرف عربی اور دوسری طرف اردو میں خود تحریر کیے۔ یاد رہے کہ وہ اتنے خوش خط تھے کہ دعوت نامے کاتب سے لکھوانے کے بجائے خود لکھتے تھے۔

انصاری صاحب نے 1941ء میں سرکاری ملازمت سے جہاں وہ سینٹرل بورڈ آف ریونیو میں بطور افسر تعینات تھے‘ مستعفی ہو کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے یہ فیصلہ اس شعور کے ساتھ کیا تھا کہ ’’اگر برصغیر کا مسلمان خدانخواستہ آزادی کے حصول کی یہ جنگ ہار گیا تو ہندوستان میں مسلمانوں کو ہندو مت کا اجتماعی بپتسمہ اس طرح دیا جائے گا کہ دنیا ہسپانیہ میں مسلمانوں کو دیے جانے والے عیسائیت کے بپتسمہ کے بعد ہونے والے ظلم وستم کی تاریخ کو فراموش کر دے گی۔‘‘ (آج بھارت میں نریندر مودی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے وہ مولانا انصاری کے خدشات کو درست ثابت کر رہا ہے۔)

قیام پاکستان کے بعد انہوں نے قائداعظم کی صدارت میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں شرکت کی‘ جس میں قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے ، آل انڈیا مسلم لیگ کے خاتمے اور انڈیا مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ کے نام سے الگ الگ لیگ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ انصاری صاحب نے قیام پاکستان کے بعد جماعتی سیاست سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو درپیش دیگر مشکلات سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ جماعتی سیاست کے بارے میں انصاری صاحب کی سوچی سمجھی رائے یہ تھی کہ مسلمانوں کے ملک میں الگ الگ جماعتیں بنانا اور حصولِ اقتدار کی کوشش کرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ (واضح رہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ریکارڈ دو شخصیات کے پاس تھا جو وہ اپنے ساتھ پاکستان لے کر آئے تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری سید شمس الحسن صاحب اور مولانا ظفر احمد انصاری دونوں نے اپنے پاس موجود ریکارڈ رکھنے اور اس سے منفعت حاصل کرنے کے بجائے اس کو جامعہ کراچی کو دے دیا تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے وہ محفوظ رہے۔)

انصاری صاحب نے قیام پاکستان کے فوراً بعد انڈین سول سروس میں موجود تجربہ کار اور قابل افراد کو پاکستان لانے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا اور وہ تمام حضرات پاکستان میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے مگر کبھی بھی ان سے اپنے خاندان کے لیے کسی معاملے میں کوئی سفارش کی نہ کوئی منفعت حاصل کی۔ ان کے قریب ترین لوگوں میں معروف شاعر فضل احمد کریم فضلی بھی تھے جو ان سے ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’انصاری صاحب ہمیں بھی کوئی خدمت کرنے کا موقع دیں۔‘‘ تو وہ جواب میں کہتے کہ ’’آپ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں‘ یہ ہماری ہی خدمت تو ہے۔‘‘ جب کہ وہ کسی دوسرے ضرورت مند کی مدد کرنے اور اس کے لیے دوسروں سے کہنے میں کوئی تکلف اور عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ مجھے ملک کے معروف اسکالر اور شاعر محترم احمد جاوید صاحب نے بتایا کہ میرے والد کو بھی انصاری صاحب نے ہی پاکستان آنے پر آمادہ کیا۔

وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل نواب زادہ لیاقت علی خان کے معتمدین میں شامل تھے اور اسی وجہ سے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ ایکشن کمیٹی کا بھی سیکرٹری بنایا گیا اور آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کا بھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی انصاری صاحب اور وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے درمیان یہ رشتہ اسی طرح برقرار رہا جس کی وجہ سے انہوں نے دستور سازی کے سلسلے میں قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی دستور سازی کی تاریخ میں خواہ وہ 1954ء کا دستور ہو جس کو نافذ ہونے سے پہلے ہی گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دفن کر دیا تھا، یا 1956ء کا دستور جو تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد نافذ ہوا اور جس کے تحت ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات ہونے تھے اور جس کے بارے میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قدآور لیڈر حسین شہید سہروردی نے اسمبلی کے فلور پر یہ اعلان کیا تھا کہ اس دستور نے مشرقی پاکستان کے حوالے سے صوبائی خود مختاری کا مسئلہ 98 فیصد حل کر دیا ہے اور اس دستور کے تحت ہونے والے انتخابات اگر آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ طور پر عمل میں آ گئے تو باقی 2 فیصد بھی ہمیشہ کے لیے حل ہوجائے گا۔ اس انتخاب کے نتیجے میں جو جماعت بھی اکثریت حاصل کرے گی اُس کا لیڈر خواہ اس کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہو یا مغربی پاکستان سے‘ وہ ملک کا متفقہ وزیراعظم ہوگا۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے پہلے مہم جو کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا کی ملی بھگت سے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے دستور کے خاتمے کا اعلان کر دیا جو ایک طرح سے ملک کو دولخت کرنے کا فیصلہ ثابت ہوا۔ پاکستان کے مسائل و مصائب کا ادراک رکھنے والے سب ہی لوگ اس اقدام سے ہل کر رہ گئے۔ انصاری صاحب بھی ان ہی شخصیات میں سے ایک اہم شخص تھے لیکن اللہ نے انصاری صاحب کو یہ حوصلہ دے رکھا تھا کہ وہ کسی وقت بھی پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی تگ و دو سے دست کش نہیں ہوئے۔ جب ایوب خان کے بعض مشیروں نے انہیں عربی رسم الخط کے بجائے ملک میں رومن رسم الخط اختیار کرنے پر قائل کر لیا تو انصاری صاحب ان سے ملے اور ان کو یہ چیز باور کرائی کہ اگر ایسا ہوا تو سب سے زیادہ نقصان آپ کا ہوگا‘ جس کے بعد پاکستان میں رومن رسم الخط اختیار کرنے کا باب بند ہوا۔

انصاری صاحب 1960ء کے عشرے میں پانچ‘ چھے برس موتمر عالمِ اسلامی کے تحت اسلامک سینٹر جنیوا میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے مقیم رہے جہاں انہوں نے مغرب میں آنے والے مسلمانوں اور خاص طور سے حصولِ علم کے لیے آنے والے نوجوانوں کے لیے انگریزی زبان میں قرآن پاک اور احادیث اور سیرت النبیؐ پر مشتمل کتابوں کی اشاعت کا انتظام کیا جس کے بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ اس کی تفصیل اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ محترم الطاف حسن قریشی نے انصاری صاحب سے لیے جانے والے اپنے انٹرویو میں شائع کی۔ اسی انٹرویو میں انصاری صاحب نے صہیونیوں کی عالمگیر سازش کا پردہ چاک کیا اور اس سے نمٹنے کے لیے اربابِ اقتدار و اختیارات کو متوجہ کیا ۔ بھٹو دور میں پاکستان میں فری میسن ہال کا بند ہونا انہی خطرات سے محفوظ رہنے کا فیصلہ ہے۔ (واضح رہے کہ ترکی (ترکیہ) میں خلافت ِ عثمانیہ کے خاتمے میں صہیونی طاقتوں اور فری میسن لاجز کا بنیادی کردار رہا۔) مولانا انصاری نے جنیوا کے علاوہ لندن میں بھی متعدد بار مہینوں قیام کیا اور وہاں اسلام کے فروغ کے لیے جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان کے قیام میں بھی انصاری صاحب کا بڑا حصہ ہے۔

حاشر فاروقی مرحوم کی زیر ادارت ’’امپیکٹ‘‘ رسالے کے اجرا کا سہرا تو انصاری صاحب کے سر اس طرح ہے کہ انہوں نے ہی حاشر فاروقی صاحب کو اس پر آمادہ کیا تھا کہ انگریزی زبان میں ایک معیاری پرچہ لندن سے نکلنا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے پاکستان میں اپنے کچھ نیاز مندوں سے مالی وسائل بھی فراہم کرائے۔

سعودی فرمانروا سعود بن عبدالعزیز نے جب رابطہ عالم اسلامی قائم کیا تو دنیا بھر سے مستند اہل علم و اہل دانش کو اس میں شامل کیا گیا جن میں پاکستان سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ بانی ارکان میں شامل تھے، جب کہ ہندوستان سے ندوۃ العلما کے سربراہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اور غالباً مولانا منظور احمد نعمانیؒ تھے۔

مولانا ظفر احمد انصاری دارالعلوم کراچی کی مجلس منتظمہ کے بانی ارکان میں سے تھے۔ انہوں نے ہی دارالعلوم کراچی کے بانی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کو اس پر آمادہ کیا تھا کہ آزادی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت فروغِ تعلیم بھی ہے‘ اس لیے آپ اپنے ادارے میں جدید عصری علوم پڑھانے کا بھی بندوبست کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں دارالعلوم کراچی پہلا دینی ادارہ ہے جس نے سب سے پہلے اپنے طلبہ کے لیے اختیاری مضمون کے طور پر انگریزی پڑھانے کے لیے استاد رکھا۔ اور آج دارالعلوم کورنگی میں نہ صرف طلبہ اور طالبات کے لیے دینی علوم کے ساتھ میٹرک سسٹم کے تحت اسکول اور کالج قائم ہیں بلکہ آکسفورڈ سسٹم کے تحت بھی ایک شان دار ادارہ قائم ہے۔ یہاں اس کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگاکہ جسٹس ریٹائرڈ مفتی محمد تقی عثمانی کی شادی جس خاندان میں ہوئی ان کا تعلق بھی الٰہ آباد سے تھا اور مفتی تقی عثمانی کی اہلیہ کے والد محترم جناب شرافت صاحب مرحوم الٰہ آباد میں انصاری صاحب کے بہت قریبی لوگوں میں سے تھے۔

60 19ء کے عشرے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سربراہی میں ’’اسلامک ریسرچ اکیڈمی‘‘ کے نام سے ادارہ قائم ہوا۔ اس کے بانی ارکان میں مولانا ظفر انصاری کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر امیر حسن صدیقی کی سربراہی میں جمعیت الفلاح کے نام سے قائم ہونے والے اسلامی مرکز کے بانی ارکان میں بھی انصاری صاحب شامل تھے، جس کے تحت ایک زمانے میں ہر سال بڑے پیمانے پر کانفرنس منعقد ہوتی تھی جو کئی کئی دن چلتی تھی، جس میں پاکستان اور بیرونِ پاکستان سے علما شریک ہوتے تھے۔

مولانا انصاری مرحوم نے قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے کے بعد ہی پاکستان میں عربی کی ترویج و اشاعت کے لیے کراچی میں عبداللہ ہارون روڈ کے عقب میں’’جمعیت العربیہ‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا تھااور اس ادارے کا پہلے صدر اس وقت کے اسٹیٹ بنک کے گورنر زاہد حسین مرحوم کو بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد اس کا دوسرا صدر حاجی مولابخش سومرو کو بنایا گیا۔ مولانا نے اس ادارے کے لیے 900 گزکا قطعہ اراضی بھی حکومت سے رعایتی قیمت پرحاصل کیا تھا جو اِس وقت بھی موجود ہے۔ اس ادارے نے ملازمت پیشہ پڑھے لکھے ہزاروں نوجوانوںکو عربی کی تعلیم کے لیے شام کے اوقات میں مواقع فراہم کیے تاکہ وہ ملازمت سے فارغ ہو کر آسانی سے تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب عرب ممالک میں ملازمت کے مواقع آئے تو اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوںکو آسانی سے ملازمت مل گئی۔

مولانا انصاری صاحب 1986ء میں سعودی عرب اور حکومت پاکستان کے اشتراک سے اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد کے ساتھ قائم ہونے والی بین الاقوامی سطح کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے بورڈ کے بھی رکن رہے۔ (واضح رہے اب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا بہت بڑا کیمپس الگ بھی قائم ہو چکا ہے۔)

یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ مولانا انصاری قادیانی مسئلے کو حل کرانے میں زندگی بھر مصروف عمل رہے۔ بھٹو مرحوم کو بھی انصاری صاحب نے ہی اس کا آئینی حل پارلیمنٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ اس کے لیے پوری قومی اسمبلی کو عدالت میں تبدیل کیا گیا اور اُس وقت کے اٹارنی جنرل پاکستان یحییٰ بختیار کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ قادیانی جماعت (احمدی جماعت) ربوہ کے سربراہ مرزا ناصر کو قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کا مؤقف پیش کرنے کا موقع فراہم کریں۔ انصاری صاحب بیماری کے باوجود اس کام میں دن رات مصروف رہے اور قومی اسمبلی میں موجود تمام دینی جماعتوں کے سربراہوں اور ملک بھر کے جدید اور قدیم علوم کے ماہر اہلِ علم کو جمع کرکے یحییٰ بختیار کے لیے سوالات مرتب کیے جو وہ قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد کے پوتے اور احمدی جماعت کے موجودہ سربراہ مرزا ناصر سے کرتے تھے۔ مرزا ناصر نے ان سوالات کے جوابات میں ہی کہا ’’مرزا غلام احمد کو ہم مسیح موعود مانتے ہیں اور جو یہ عقیدہ نہ رکھے ہم اسے مسلمان نہیں مانتے۔‘‘ اس کے بعد متفقہ طور پر قومی اسمبلی نے مرزا غلام احمد اور اس کے ماننے والوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ان کے لیے بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں الگ نشستیں مختص کردیں۔

مولانا انصاری نے جنوبی افریقہ کا بھی سفر کیا تاکہ وہاں کے مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ہونے والی عدالتی جنگ میں قانونی معاونت فراہم کریں۔پاکستان سے جناب خالد اسحاق اور جدید اور قدیم علوم کے ماہر جسٹس ریٹائرڈ مفتی محمد تقی عثمانی قابل ذکر ہیں۔

انصاری صاحب کے پاس قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد ایک گروہ ایک محضر نامے پر یہ دستخط کرانے کے لیے آیا کہ پاکستان ٹیلی ویژن اور دیگر اداروں سے قادیانیوں کو فارغ کیا جائے۔ خاص طور سے ان کا مطالبہ تھا کہ پاکستان ٹیلی ویژن میں موجود معروف شاعر عبیداللہ علیم کو قادیانی ہونے کے باعث نوکری سے نکالا جائے۔ اس پر مولانا انصاری نے یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ پاکستان کے دستور کی خلاف ورزی اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ دستور کے تحت غیر مسلم ملک کا صدر اور وزیراعظم نہیں ہوسکتا۔ باقی عہدوں پر وہ اپنی اہلیت اور قابلیت کی بنا پر فائز اور ترقی کرسکتا ہے۔
(جاری ہے)