انتخابات کا امکان اور آنے والا سیاسی منظرنامہ

معروف کالم نگار ابراہیم کنبھر نے بروز منگل 31 اکتوبر 2023ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’پہلے ہلکے پھلکے انداز سے یہ تاثر دیا گیا کہ میاں نوازشریف کو ملک کا وزیراعظم بنانے کے لیے منگوایا گیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے حوالے سے یہ تاثر تھا کہ حالیہ الیکشن کے بعد پی پی کو حکومت بنانے نہیں دی جائے گی۔ سیاست کی بدقسمتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل ہی عام رائے بنائی جاتی ہے، یعنی الیکشن سے قبل ہی الیکشن کا نتیجہ آجاتا ہے۔ اب بھی یہی صورتِ حال دیکھنے میں آرہی ہے۔ الیکشن کی حتمی تاریخ نہیں آئی ہے اس لیے عوام تاحال الجھن کا شکار ہیں کہ معلوم نہیں الیکشن ہوگا بھی کہ نہیں! لیکن الیکشن ایک حوالے سے مجبوری بھی ہیں۔ دنیا کو پاکستان کا پارلیمانی جمہوری چہرہ دکھانا مجبوری ہے۔ سینیٹ کے آئندہ الیکشن کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد لازمی ہے۔ ملک میں نگراں سیٹ اَپ کو اتنی زیادہ طوالت دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ امر طے ہوگیا ہے کہ حکومت انہی کو چلانی ہے جو گزشتہ 75 برس سے حکمرانی کرتے چلے آرہے ہیں، لیکن کیوں کہ اس میں تڑکا بہرحال الیکشن، سیاسی پارٹیوں یا جمہوریت کا ہوتا ہے اس کی وجہ سے باہر تھوڑی بہت واہ واہ ہوجاتی ہے۔

حالیہ صورتِ حال کو مدنظر رکھتے ہوئے دو تین نتائج آرام کے ساتھ اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ نتیجہ نمبر ایک یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لیے کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں رکھنی ہے، یعنی عمران خان یا ان کی پارٹی کے ایک بھی لیڈر کے لیے برداشت پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ الیکشن میں انہیں اسی طرح سے دیوار کے ساتھ لگانا ہے جس طرح سے حُبِّ عمرانی میں قبل ازیں ان کے سارے مخالفین کو 2018ء کے الیکشن میں دیوار سے لگادیا گیا تھا، عمران خان کی خواہش کے مطابق اُس وقت تمام پارٹیوں کو محدود ترین کردیا گیا، خصوصاً پشتون لیڈرز پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کردیے گئے تھے۔ اب پھر وقت نے کروٹ بدلی ہے تو عمران خان کے لیے بھی بعینہٖ صورتِ حال نے جنم لیا ہے۔ دونوں صورتیں سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں یا ان کے کارکنان کے حق میں قطعی نہیں ہیں، لیکن کیوں کہ وطنِ عزیز میں رات کے اندھیرے میں سیاسی پارٹیاں بنتی رہی ہیں اور اقتدار کی کرسیاں بھی ان کے حوالے کی جاتی رہی ہیں، روزانہ نت نئے تجربات ہوتے رہے ہیں، اس لیے یہ بات خواہ ہمیں بے شک ناگوار گزرے لیکن ہماری سیاست کو یہ سرطان عرصۂ دراز سے لگا ہوا ہے۔ اس لیے ملک میں جب سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہیں تو اس کا ایک پہلو برآمد ہوا کرتا ہے۔ کل کے دشمن آج کے حلیف، اور کل کے حلیف آج دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ جو ہمارے معتبر سیاست دان ہیں جو باہم مل بیٹھ کر دس معاہدے، دس مشورے اور ایک ہی وقت میں دس مرتبہ اتفاق کرتے ہیں، وہ ڈائیلاگ کے کمرے سے نکل کر پہلا ہی سیاسی سبق فراموش کرکے ایک دوسرے کے پائوں کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔ انہیں یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ سیاست دان کو سیاست دان سے لڑوانے والا غیر سیاسی عنصر ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پرانی پالیسی پر گامزن ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی پارٹیاں نعرہ زن پارٹیاں رہی ہیں، وہ تاحال ادارہ نہیں بن سکی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہر نئے دن وہ جمہور دشمن قوتوں سے مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے کہ انتخابی میدان میں تحریک انصاف کا صفایاکرکے نواز لیگ کو کھلا میدان فراہم کیا جائے گا تو ایسی صورتِ حال میں پھر کیا ممکن ہے؟ کچھ دن سے پی پی پی کی قیادت کے منہ سے یہ بات سننے میں آرہی ہے کہ اگر تحریک انصاف کو مائنس کرکے الیکشن کروائے گئے تو ان کے نتائج کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ نتائج قبول نہ کرنا الگ معاملہ ہے، حکومت کی تشکیل ایک الگ بات ہے۔ اگر کسی سیاسی جماعت میں یہ ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ اس سارے سیاسی نظام کو چلانے والے پسِ پردہ ہاتھوں کو عریاں اور ظاہر کرے تو اس میں انتخابی نتائج قبول نہ کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوگی۔ اس لیے یہ بیان محض سیاسی بیان ہے۔ یہ ایک آئیڈیل صورتِ حال ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو یکساں میدان فراہم کیا جائے۔ سیاست کا مقابلہ سیاست کے ساتھ کرنا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ ایک دوسری پارٹی طاقتور حلقوں کی پسندیدہ رہی ہے، ان کی سہولت کاری کے لیے دوسری پارٹیوں کو محدود اور محصور کرنے کا رجحان بھی کافی پرانا ہے۔ اگر پی پی قیادت تحریک انصاف کو میدان فراہم کرنے کی بات کرتی ہے تو اس کے پیچھے جو کہانی ہے اسے سمجھنا بھی ناگزیر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پی پی کا یہ مطالبہ درست ہے، لیکن تحریک انصاف کے لیے پی پی کا دل صرف سیاسی بنیادوں کی وجہ سے نہیں پگھل رہا ہے۔ پی پی کو ایسا پیغام ملا ہے یا ایسے واضح اشارے ملے ہیں کہ سندھ میں اگلی حکومت شاید پیپلزپارٹی کو نہ مل سکے۔ یہ بات حتمی نہیں ہے لیکن قبل ازیں ہم یہ لکھ چکے ہیںکہ 15 برس مسلسل کسی ایک پارٹی کو ایک صوبے میں حکومت دینا، مطلوبہ نتائج نہ ملنا، اپنے دوسرے وفاداروں کو صرف آسروں پر تکیہ کرائے رکھنا… ساری کڑیوں کو اگر یک جا کردیا جائے تو صورتِ حال پی پی کے لیے بہتر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پی پی سندھ کے سارے وڈیروں کو اپنے سیاسی کیمپ میں شامل کرتی چلی جارہی ہے، لیکن اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ جب سرخ جھنڈی دکھائی جائے گی تو ان وڈیروں میں سے کتنے وڈیرے پی پی کے ساتھ کھڑے رہیں گے؟ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصف زرداری تک، بلکہ اب تو تمام پارٹیوں پر یہ رنگ چڑھ چکا ہے کہ دائو وڈیروں پر لگایا جاتا ہے۔ وڈیروں، سرمایہ داروں، سیٹھوں اور بڑے پیٹ والوں کی پارٹی میں شمولیت کو مقبولیت اور کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ اس سے عوام اور سیاسی قیادت کے مابین تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ جہاں تک پی پی کی جانب سے تحریک انصاف کے حق میں آواز بلند کرنے کا سوال ہے تو سیاسی حوالے سے یہ ایک اچھی بات ہے، تاہم ایک امر قبول کرنا چاہیے کہ اگر اوپر یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ تحریک انصاف کو دیوار سے لگانا ہی لگانا ہے تو یہ حمایت کرنے پر پی پی کو بھی بدلے میں پھول نہیں پیش کیے جائیں گے۔ یہاں پر یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پی پی سیاسی حکمت عملی کے طور پر تحریک انصاف کی آواز بن رہی ہے، مبادا اس کے لیے بند دروازے پھر سے وا ہوجائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اس سے اختلافِ رائے رکھنا ہر ایک کا حق ہے۔ پی پی کے ہاں بڑی سیاسی برداشت اور تحمل بھی ہے۔ دوسرا سیاسی نتیجہ یہ برآمد ہورہا ہے کہ میاں نوازشریف پر جو جو مہربانی ہورہی ہے، وہ اُن کے سر پر دستِ شفقت رکھ کر الیکشن مہم چلانے کے لیے نہیں ہے۔ نوازشریف کی ملک میں آمد کا تعلق پاکستان کے عالمی تعلقات، پڑوسی ممالک سے واسطوں اور مستقبل کے سیاسی منظرنامے سے وابستہ اور جڑا ہوا ہے۔ میں خود اس رائے کا حامل رہا ہوں کہ 2013ء سے میاں نوازشریف کو ٹارگٹ کیا گیا اور ریاستی اداروں نے ہی انہیں اپنا ہدف بنایا تھا، اور اب اسی کا ازالہ کیا جارہا ہے۔ اب سامنے بہ ظاہر دیکھنے میں آرہا ہے کہ محض ازالہ ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ میاں نوازشریف سے چھینا گیا اقتدار مع سود انہیں واپس کرنے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔

یہاں پر یہ سوال بار بار جنم لے رہا ہے کہ اگر سندھ میں پی پی نہیں ہے تو پھر کون ہے؟ اس پر مختلف النوع آرا سامنے آرہی ہیں۔ ایک حلقہ اس خیال کا حامی ہے کہ نواز لیگ کے ساتھ کچھ وڈیروں کو کھڑا کرکے چند سیٹیں ان کی جھولی میں ڈال کر دیگر مختلف پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کراکے ان کی سندھ میں حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔ کچھ حلقے اس حوالے سے فنکشنل لیگ کا نام بھی لے رہے ہیں، لیکن یہ ساری صورتِ حال اُس وقت واضح ہوگی جب عام انتخابات قریب آئیں گے۔

اس ساری صورتِ حال کا اگر ہم طائرانہ جائزہ لیں تو سیاسی منظرنامہ پھر بھی بے یقینی کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے اب ہمیں اچھے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو جتنا مینڈیٹ لے کر آئے اُس کے مینڈیٹ کو دل سے قبول کیا جائے۔ آئیڈیل صورت حال تو اسے گردانا جائے گا کہ عام انتخابات صاف اور شفاف ہوں۔ قبل از انتخابات سیاسی پارٹیوں کو بلیک میل نہ کیا جائے، بعداز الیکشن حکومت سنبھالنے سے قبل کسی کے سامنے بھی کسی قسم کی کوئی شرائط نہ رکھی جائیں۔ عوام کے ووٹ کی توہین کے سارے دروازے یکسر بند کردیے جائیں۔ ہمارا ملک ایک وفاق ہے، اس کی وفاقی حیثیت کو دل سے قبول کرتے ہوئے اس وفاق میں شامل صوبوں کو اُن کے جائز حقوق، حصے اور وسائل دیے جائیں۔ اسی صورت میں وطنِ عزیز خوش حال، منظم اور مضبوط ہوگا۔ لیکن ہمارے ہاں اس طرح سے کچھ بھی نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس طرح سے کرنے کی کوئی نیت دکھائی دیتی ہے۔ اس لیے نوازشریف یا دیگر سیاسی رہنمائوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس نوع کے سارے تجربات بند ہونے چاہئیں۔

ریاست، سیاست کو ایک کھیل گردان کر اس پچ پر سیاسی جماعتوں سے کھیلنا بند کرے۔ ریاست کو کمزور کرنے والے سارے کے سارے دائو پیچ اور حربے بند کیے جائیں۔ اس لیے اگر ازالے کی بات کرتے ہیں تو جن جن سیاسی رہنمائوں سے ریاستی سطح پر ایسی زیادتیاں ہوئی ہیں ان کے ساتھ یہ زیادتیاں بند کرکے آئندہ کے لیے اس باب کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے۔ سیاسی پارٹیوں، رہنمائوں اور کارکنان کو مکمل آئینی اور سیاسی آزادی مہیا کیا جانا لازمی ہے۔ ہم جب وفاق کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ہی یہ ہے کہ وفاق کے شریک بھائی، شراکت دار اور ذمہ دار اس کے صوبے ہیں، صوبے اور ان کے باشندے ہی اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ اس لیے اس نظریے کو اب دفن ہونا چاہیے کہ وفاق کی مضبوطی سے صوبے مضبوط ہوسکتے ہیں۔ اینٹی کلاک وائز اس سوچ کا اب ازالہ ہونا چاہیے۔ صوبوں اور ان کے عوام کو بجائے شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھنے کے، اس امر کو اب تسلیم کیا جائے کہ صوبے اور ان کے باشندے ہی اصل میں وسائل کے حقیقی وارث اور مالک ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اب عوام پر اعتماد کیا جائے، عوام کے فیصلے کو قبول کیا جائے، اور اس فیصلے کو کسی پالیسی یا حکمت عملی کے تحت مختلف تجربات کے ذریعے سے ناکام نہ بنایا جائے۔ سو بات کی ایک بات، اور وہ یہ کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہوں یا پھرمیاں نوازشریف، جب تک انہیں مختلف حربوں سے ناکام کرنے پر مبنی سازشیں ختم نہیں ہوں گی، اُس وقت تک ہمارا یہ ملک شاہراہِ ترقی پر گامزن نہیں ہوسکے گا۔ اب تو خان صاحب کو بھی مزید سزا دینے کا کوئی جوازباقی نہیں رہاہے، امید یہ قائم کی جانی چاہیے کہ عمران خان نے ہوسِ اقتدار میں مبتلا رہ کر جو کچھ بھی کیا ہے اس کی انہیں پوری سزا مل چکی ہے۔ اب پرانے تجربات کے بجائے نئے تجربات ہونے چاہئیں، جو سب کے سب ریاست کی مضبوطی اور عوام کی خوش حالی پر مبنی ہوں۔‘‘

(نوٹ: کالم کے تمام مندرجات سے مترجم یا ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔)