چمن کے ”باب دوستی“ کو ”باب دشمنی“ میں کیوں بدلا جارہا ہے
پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں اور خاندانوں کو افغانستان منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ غیر قانونی تارکینِ وطن کے انخلا کی باتیں ہورہی ہیں مگر فی الوقت یہ پالیسی یا فیصلہ افغان باشندوں تک محدود ہے، اور افغان باشندوں میں بھی پشتو بولنے والے افراد کے گرد گھیرا تنگ ہے۔ انہیں ملک کے مختلف حصوں سے پکڑ پکڑ کر تھانوں میں بند اور ٹرکوں میں لاد کر خیبر پختون خوا کے طورخم اور بلوچستان کی چمن سرحد پر بابِ دوستی پہنچایا جارہا ہے۔ یعنی اِس وقت اس کا اطلاق کسی دوسرے تارکِ وطن پر دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ فیصلہ پاکستان و افغان حکومتوں کے درمیان تناؤ کے بعد کیا گیا ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ افغان سرزمین سے مسلح جتھے سرحد عبور کرکے فورسز پر حملہ کرتے ہیں اور افغان سرزمین ان کی پناہ گاہ ہے۔ بہرحال اس میں شک نہیں کہ پاک افغان سرحدی لائن مسلح گروہ استعمال کرتے ہیں، مگر ایسا بھی نہیں کہ انہیں موجودہ کابل حکومت کی حمایت و تعاون حاصل ہے۔ البتہ افغان حکومت کسی آپریشن اور کارروائی سے گریزاں ضرور ہے جو وہ اپنی قدرت سے باہر سمجھتی ہے۔ کسی اقدام کی صورت میں اس کے لیے سیکورٹی کے داخلی مسائل پیدا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران بھارت پاکستان کے خلاف کھل کھیل رہا تھا، تب کی پوری کی پوری حکومتیں پاکستان مخالف پالیسیوں پر گامزن رہیں اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کو شہ دیتی رہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی نقشہ کاری کابل میں ہوئی جس کے بعد نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ بنی۔ افغانستان میں قائم بھارتی سفارت خانے اور متعدد قونصل خانوں کی پوری توجہ پاکستان پر رہی۔ جبکہ امارتِ اسلامیہ کی حکمرانی میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ حکومت ہمہ وقت دنیا کے ممالک سے رابطے میں ہے۔ اس نے امن، تجارت، معیشت کی بہتری اور اچھی سفارت کاری اپنی ترجیح رکھی ہے۔ یہ عبوری حکومت نہیں۔ تب عبوری ہوتی جب دوحا معاہدے کے تحت اشرف غنی کی حکومت آگے بڑھتی اور تعاون کرتی۔ وہ حکومت تو آخر تک دوحا معاہدہ سبوتاژ کرنے کی تاڑ میں تھی۔ جب معاہدے پر دستخط ہوگئے تو انتقالِ اقتدار کے بجائے فرار کی راہ اختیار کرلی تاکہ خانہ جنگی بپا ہو۔ مگر ان کے مقاصد پورے نہ ہوئے۔
طالبان نے بہت ہی حکمت سے عنانِ اقتدار سنبھالی۔ جہاں جہاں مزاحمت تھی اس پر قابو پایا۔ اشرف غنی حکومت نے جاتے جاتے ملک بھر میں جیلوں کے دروازے کھول کر مختلف گروہوں کو فرار کا موقع دیا۔ داعش کے لوگ بڑی تعداد میں جیلوں سے فرار ہوگئے، جو بعد ازاں طالبان کے خلاف منظم ہوئے۔ بہرکیف پاکستان اور افغانستان کے درمیان اِس وقت بداعتمادی کی فضا قائم ہے۔ پاکستان سے افغان باشندوں کے جبری انخلانے اعتماد کی فضامزید مکدر بنا دی ہے۔ پاکستان کی وفاقی نگراں حکومت اور بلوچستان کی نگراںحکومت کے تلخ بیانات سامنے آرہے ہیں۔ یہ حکومتیں اپنے مینڈیٹ سے بڑھ کر فعالیت دکھارہی ہیں۔31اکتوبر افغان باشندوں کی بے دخلی کی آخری تاریخ تھی۔ بقول نگراں حکومت اب تک بلوچستان سے ہزار وںغیر رجسٹرڈ افراد، جبکہ مجموعی طور پر ملک سے اسّی ہزار سے زائد افراد جاچکے ہیں۔ نگراں حکومت کہتی ہے کہ ملک بھر میں 13لاکھ تارکینِ وطن ہیں جن میں 80فیصد افغانی ہیں۔ ڈیڈلائن کے بعد حکومت نے ہولڈنگ سینٹرقائم کیے ہیں جہاں ان افراد اور خاندانوں کو رکھا جارہا ہے۔ چمن اور پشین میں بھی اس طرح کے سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔ چمن کراسنگ پوائنٹ سمیت قلعہ سیف اللہ کے قمر الدین اور چاغی میں کراسنگ پوائنٹ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ خبر یہ بھی آئی ہے کہ70ہزار مشکوک شناختی کارڈ بلاک کردیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 70ہزار شناختی کارڈ جاری کس نے کیے ہیں؟ ظاہر ہے نادرا کی کالی بھیڑوں نے، جنہوں نے بھاری رشوت کے عوض شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔ اس طرح سب سے پہلے نادرا کے خلاف آپریشن کلین اَپ شروع کیا جانا چاہیے تھا۔ پورا سسٹم ناکارہ اور بدعنوان بن چکا ہے۔ خرابیوں کی ذمہ دار حکومتیں اور سرکاری محکمے ہیںجنہوں نے ملک کے مفاد کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔
سرحدی شہر چمن کے اندر پورے کا پورا ضلع سراپا احتجاج ہے۔ نگرانوں نے فیصلہ کیا کہ پاسپورٹ پر ہی آمدورفت کی اجازت ہو گی۔ چمن کے عوام21 اکتوبر سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ہزاروں افراد اس احتجاج میں شریک ہیں۔ جمعرات 26 اکتوبر کو عوام کا جم غفیر احتجاج کے لیے نکلا اور شہر کی شاہراہوں پر گشت کیا۔ اسے چمن کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا گیا۔ ہر جماعت اور طبقے کے افراد نے اس احتجاج میں شرکت کی۔مظاہرین نے سرحد پر آمدورفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ لگتا یہی ہے کہ یہ لوگ راضی نہ ہوسکیں گے۔ پشتون سیاسی جماعتیں پشتون خواملّی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پشتون تحفظ موومنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ،جمعیت علماءاسلام،جماعت اسلامی، یہاں تک کہ بلوچستان عوامی پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت بھی اس صورت ِحال میں نگرانوں کے فیصلے اور اقدامات کے خلاف ہے۔مولانا فضل الرحمان نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تارکینِ وطن کی بے دخلی کی آڑ میں پشتون افغان افراد اور خاندان نشانہ بنائے گئے ہیں۔ جماعت اسلامی بلوچستان نے متنبہ کیا ہے کہ چمن کے بابِ دوستی کو بابِ دشمنی میں تبدیل کرنے سے گریز کیا جائے۔
افغانوں کی بے دخلی کے دوسرے مراحل میں مقیم افراد کی جائدادیں ہتھیانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ شہریوں سے کہا جاتا ہے کہ انہیں دکانیں، فلیٹس اور مکانات کرائے پر نہ دیے جائیں۔خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کا کہا گیا ہے۔ ایسی پالیسی بنانی بھی تھی تو اسے عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت پر چھوڑتے تاکہ ہمہ پہلو حمایت حاصل ہوتی۔ بہرکیف اشارے مثبت نہیں ہیں۔ بے یقینی مزید بڑھنے کا اندیشہ پایا جاتا ہے۔ پاک افغان سرحد ی لکیر چمن میں آباد قبائل کو منقسم کرتی ہے۔ آدھا خاندان پاکستان تو آدھا افغانستان میں رہتا ہے۔ اسی طرح ایسے بھی گھر ہیں جن کاایک حصہ چمن اور دوسرا حصہ بولدک میں ہیں۔ کسی کا گھر اِدھر تو قبرستان اُدھر ہے۔ لوگوں کی سرحد پار رشتہ داریاں،کاروبار اور روزگار ہیں۔ دونوں جانب کے سرحدی شہروں کے رہائشیوں کو پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں نے شناختی کارڈ اور افغان تذکرہ کی بنیاد پر آمدورفت کی اجازت دے رکھی تھی۔ اب حکومتِ پاکستان نے 76سالوں میں پہلی بار یکم نومبر سے سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے بھی پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا ہے۔ nn