اگر شفاف الیکشن نہ ہوئے تو پاکستان اور عالمی سطح پر بھی قابلِ قبول نہیں ہوں گے
ملک میں نیا سیاسی منظرنامہ تیزی سے تشکیل پا رہا ہے۔ بدلے کی سیاست ہوگی یا تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے لیے یکساں مواقع میسر ہوں گے یہ فیصلہ نومبر کے پہلے ہفتے میں ہوجائے گا۔ ملک میں نوّے روز کے اندر اندر عام انتخابات سے متعلق دائر درخواستوں کی سپریم کورٹ میں سماعت کے پہلے روز ہی انتخابات سے متعلق سب کچھ واضح ہوجائے گا، اس کے بعد ملک میں سیاسی منظرنامے سے گرد چھٹنا شروع ہوگی اور پہلی خبر یہی ہوگی کہ کچھ بھی ہوجائے نوازشریف ملک کے وزیراعظم نہیں بن سکیں گے، ان کی سیاسی اننگ مکمل ہوچکی ہے، اب وہ مسلم لیگ(ن) میں تنظیمی اننگ کھیلتے رہیں گے، لیکن ایک گنجائش یہ ہوسکتی ہے کہ وہ ملک کے صدر بن جائیں، اس کے سوا ان کے لیے سیاست میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ دوسرا منظر یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اس گڑھے میں نہیں پھینکا جائے گا جس میں2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو پھینکا گیا تھا۔ یہ2017ء والا پاکستان نہیں، اب صورتِ حال خاصی بدل گئی ہے، اب تو ہائبرڈ پلس سسٹم آرہا ہے۔ اگر شفاف الیکشن نہ ہوئے تو پاکستان اور عالمی سطح پر بھی قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کی صورت میں نوازشریف کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہونے کے دعویدار شہبازشریف ہی وزیراعظم ہوں گے کیونکہ اب بدلے والی سیاست سے کام نہیں چلے گا۔ فی الحال تو لاڈلوں کی آنیاں جانیاں ہیں۔ ایک جیل میں ہے، دوسرا وطن واپس آیا ہے۔ ملکی سیاست میں لاڈلوں کی کبھی کمی نہیں رہی۔ ہر دور میں نئے فیصلے ہوئے اور نئی چالیں چلی گئی ہیں، لہٰذا اب بھی کچھ مہرے لاڈلے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ کچھ لاڈلوں سے اَن بن ہوگئی ہے اور کچھ فی الحال تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ وہ عوام آئین کے مطابق جن کے نام پر اقتدار ملتا ہے، انہیں ماضی میں کسی نے پوچھا نہ مستقبل میں کوئی پوچھے گا۔ ہمیشہ کی طرح عوام ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے رہیں گے۔ عوام اب بھی ہمیشہ کی طرح یہی سوچ رہے ہیں کہ اِس مرتبہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا اور ہمارا نیا حکمران کون ہوگا؟
بظاہر تو سیاسی ماحول مسلم لیگ(ن) کے لیے سازگار نظر آرہا ہے۔ نوازشریف کی وطن واپسی بھی ہوچکی ہے۔ تاہم ابھی بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب نوازشریف کو دینا ہیں۔ ان کے قریب ترین سیاسی حریف عمران خان اس وقت جیل میں ہیں۔ نظامِ انصاف میں ان دنوں وہی تیزی دکھائی دے رہی ہے جو نوازشریف کی اقتدار سے محرومی کے وقت دکھائی دی تھی۔ ملک کے سیاسی اسٹیج پر یہ کھیل کھیلا جارہا ہے۔ یہاں کرسی پر قبضہ کرنے والے کردار تبدیل ہوتے رہتے ہیں، نوازشریف کی واپسی بھی ایک منصوبے کا حصہ لگتی ہے۔ وہ چار سال بعد وی وی آئی پی پروٹوکول میں واپس آئے ہیں، اس سے سیاست میں آنے والے بدلاؤ کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مفرور قرار دیے گئے نوازشریف کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی عدالت نے ضمانت دے دی تھی۔ اپریل 2022ء میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد نوازشریف کی واپسی کی راہ ہموار ہونا شروع ہوئی تھی۔ پاکستانی سیاست کی اس بدلتی صف بندی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ حالات جس طرح تبدیل ہوئے ہیں اس کے بعد اب پی ٹی آئی اور اس کی قیادت زیر عتاب ہے۔ عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور انہیں بغاوت سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے جو انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ نوازشریف کی تقریر میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا کوئی ذکر نہیں تھا، لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد قبول کرنے پر خوش ہیں۔ان سازگار حالات کے باوجود نوازشریف کو اب بھی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ انہیں چوتھی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ جب تک ان کی سزا برقرار ہے انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے بارے میں کچھ قانونی خدشات رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے ان کی سزا کے بارے میں نظرثانی کی درخواست کا دروازہ بھی بند کردیا ہے۔ یعنی نوازشریف کو ابھی ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہے۔یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارٹی کو ملک کے تیز سیاسی اور سماجی تغیرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پارٹی پر شریف خاندان کی بڑھتی ہوئی گرفت بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بنیاد کو وسیع کرنے میں ایک رکاوٹ ہے۔ نوازشریف کی تقریر نے بھی کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ پارٹی مشکوک انتخابات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں تو آسکتی ہے، لیکن اس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔مسلم لیگ(ن) کا یہ بیانیہ فروغ پا رہا ہے کہ نوازشریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ یہ بحث اپنی جگہ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ علاج کی خاطر صرف چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے والے نوازشریف چار سال بعد وطن واپس آئے ہیں جب لیول پلیئنگ فیلڈ میسر آئی۔ اب کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر رکھنے کے فارمولے پر عمل ہوگا یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ ناراضی فطری ہے،کیونکہ سندھ کے حوالے سے بھی واضح فیصلہ ہونے جارہاہے کہ صوبے میں کرپشن کے ذمہ دار کٹہرے میں لائے جائیں گے۔ اِس مرتبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے بڑے اَپ سیٹ ہوسکتے ہیں۔
ملک میں جمہوری عمل اورایک دوسرے کو برداشت کرنے کا کلچر لانے کی کوشش ہو رہی ہے، نوازشریف کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا لیں کیونکہ عمران خان کو انتخابات سے باہر رکھا گیا تو عدم استحکام کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے گا۔ لیکن کیا عمران خان 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگیں گے؟ اگر عمران خان ایسا نہیں کرتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں معافی مل سکے گی؟ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ وہ نفرت اور گالم گلوچ کی سیاست سے باز رہیں، اگر ایسا ہوا تو مستقبل میں کوئی بہتری آنے کی توقع ہے، ورنہ تحریک انصاف کے لیے مشکلات ہی ہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو ضرور کٹہرے میں لائیں مگر اس کی آڑ میں ایک نیا ’’پروجیکٹ‘‘ لانچ کرنے سے گریز کریں، کیونکہ صرف کرداروں کا نام بدلنے سے کہانی کا انجام نہیں بدل سکتا۔ ویسے اگر ماضی سامنے رکھ کر بات کی جائے تو سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل ملک میں پہلی بار نہیں کھیلا جارہا ہے، یہ کھیل دیکھتے دیکھتے ملک کی چار پانچ نسلیں جوان ہوچکی ہیں۔ جان چھڑائو اور سیڑھی چڑھائو کا یہ کھیل ملک کو آگے نہیں جانے دے رہا۔ اب گفت وشنید ہورہی ہے کہ پنجاب کس کے پاس جائے گا اور وفاق کسے ملے گا۔ مسلم لیگ(ن) ہر قیمت پر مرکز کے ساتھ ساتھ پنجاب میں اپنا اقتدار چاہے گی۔ پنجاب کے بغیر مرکز میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت کا قائم ہونا اسے مرکز میں بھی بھرپور طاقت فراہم کرے گا، پیپلز پارٹی کو صرف سندھ پر ہی اکتفا کرنا ہوگا، بلوچستان کی حکومت انہی روایتی لوگوں کے پاس جانے کا امکان ہے۔ رہی بات کے پی کے کی، تو اس پر کچھ معاملات طے ہونا باقی ہیں۔ غرضیکہ جو ڈھانچہ 2018ء میں تشکیل پایا تھا، اب بھی کم و بیش ویسا ہی ڈھانچہ سامنے آ سکتا ہے، البتہ مرکز میں کردار مکمل طور پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ نیا تشکیل پانے والا سیاسی ڈھانچہ عوام کی مشکلات میں کمی لا سکے گا یا نہیں فی الحال اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوازشریف اپنی انتخابی مہم کے دوران ان سوالوں کا جواب دینے میں کامیاب ہوسکیں گے جن کا انہیں سامنا کرنا پڑے گا؟ انہیں جواب دینا ہوگا کہ چار ہفتوں کے لیے وطن سے گئے تھے تو پھر چار سال وہاں کیوں گزار دیے؟ لندن میں اگر وہ زیرِ علاج تھے تو پھر کس طرح سے مختلف ممالک کے دورے کرتے رہے؟ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت کی توڑپھوڑ کا جو بھی عمل جاری ہے فی الحال اس کے مطلوبہ نتائج نہیں نکل پارہے۔ اگر نوازشریف ان سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہے تو شاید سیاسی میدان میں انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ زمینی حقائق اس حد تک تبدیل ہوچکے ہیں کہ شاید یہ کوششیں بھی حسبِِ منشا نتائج نہ دلوا سکیں۔ ایک تو مہنگائی کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے، پی ڈی ایم ہی اس کی ذمہ دار ہے، اس کے جواب میں پی ڈی ایم کے سیاسی حریفوں کا بیانیہ بھی ایک بڑی اکثریت قبول کررہی ہے۔ آج بھی عمران خان کے ذکر کے بغیر پاکستانی سیاست کا ذکر ممکن نہیں۔
عمران خان کے عروج و زوال کی کہانی بھی تضادات کی ایسی گتھی ہے جو سلجھائے نہیں سلجھتی۔ اگر نوازشریف کا سیاسی بت گھڑا گیا تھا، تو عمران کو لاڈ پیار سے آسمان پہ چڑھایا گیا تھا، اُن کا سیاسی اُبھار مقتدر قوتوں کی انجینئرنگ کا کمال تھا، اور ان کی حکومت کے گرائے جانے کا ڈرامائی سین ابھی تک اپنے اثرات رکھتا ہے۔ لیکن کل جو غلط ہورہا تھا، آج اسے پھر دہرایا جانا درست نہیں۔ لہٰذا سبھی سیاست دانوں اور جماعتوں کو مساوی مواقع میسر ہوں اور صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام جماعتیں ایک جمہوری فریم ورک پر اتفاق کریں۔ موجودہ سیاسی بحران کا یہی حل ہے۔
ملک کا سیاسی منظرنامہ ایک کھلی کتاب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط گرفت میں جکڑی ہوئی سیاسی جماعتیں اپنی کمزوریوں کے سبب عوام سے رجوع کرنے کے بجائے انتخابی کامیابی کے لیے ایک مرتبہ پھر مقتدر حلقوں کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ عوام کے بجائے اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرنے کا نقصان یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں آسانی کی عادی ہوتی جا رہی ہیں اور اپنی سیاسی فتح کے لیے ڈیل چاہتی ہیں۔ ’’ڈیل کلچر‘‘ کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ الیکشن ایک رسمی کارروائی بن کر رہ جاتا ہے، اور اس کا نتیجہ الیکشن سے پہلے ہی سب کومعلوم ہوجاتا ہے۔ جو عوام کی حمایت سے اقتدار میں نہیں آئے گا وہ عوام کے لیے کام کیوں کرے گا؟ وہ اُسی کی بات مانے گا جس کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آیا ہے۔ یہاں شروع سے ہی دیکھا جارہا ہے کہ کچھ سیاست دان، سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ مل جل کر کسی کے حق میں یا کسی کی مخالفت میں معاملات طے کرلیتے ہیں، پھر اسی بنیاد پر سارا سیاسی نظام سجایا جاتا ہے۔ عوام کے نزدیک ڈیل کلچر کو تقویت دینے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاست دانوں، عدلیہ، بیوروکریسی اور میڈیا… سمیت سب نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے، جب کہ سیاسی جماعتوں کو عوام کے ساتھ ڈیل کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اس وقت حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ جب تک ساری سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملتی پاکستان میں حقیقی جمہوریت فروغ نہیں پا سکتی۔