امریکی غلام حکمرانوں کی اسرائیل نوازی حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کا ٹیلی فونی خطاب
مغرب کہہ رہا ہے کہ حماس کی 7 اکتوبر کی کارروائی نے نہ صرف اسرائیل کو فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے پر اکسایا بلکہ اس سے امن عمل کو بھی نقصان پہنچا۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں میں جتنے فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے، حتیٰ کہ انتفاضہ میں بھی نہیں۔ تاہم حماس کے حملے کو ایک الگ تھلگ کارروائی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ اس منظم ریاستی دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی کارروائی تھی جس کا ارتکاب اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے خلاف کررہا ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کو دبانے کے لیے وحشیانہ طاقت کا استعمال کیا ہے۔ فلسطینیوں کو حقِ خودارادیت کی ضمانت اقوام متحدہ کی 1947ء کی قرارداد نمبر 181 میں دی گئی ہے جس نے فلسطین کو دو ریاستوں یعنی ایک عرب ریاست اور ایک یہودی ریاست میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کشمیریوں کی طرح فلسطینی بھی آج تک اپنی سرزمین پر عزت اور وقار کے ساتھ جینے کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں، جبکہ یہ حق زیادہ تر لوگوں کو آسانی سے مل جاتا ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے قضیے کو علاقائی، نظریاتی اور جغرافیائی و سیاسی جہتوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ نظریاتی طور پر یہ سرزمین یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اہمیت رکھتی ہے۔ مسلمان مسجد اقصیٰ کا احترام کرتے ہیں، جب کہ یہودیوں کے لیے یہ سرزمین اُن کے روایتی آباو اجداد کا گھر تھی۔ جغرافیائی طور پر دیکھا جائے تو یہ برطانیہ ہی تھا جس نے فلسطین میں یہودی ریاست بنانے، یورپ سے یہودیوں کو نکال کر یہاں بسانے، اور مقامی آبادی کو بے گھر کرنے کا عمل شروع کیا۔ پچھلے 70 سالوں میں امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کو اپنی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کا محور رکھا ہے۔ تمام مسلم ممالک، یورپ، یہاں تک کہ امریکہ میں ہونے والے مظاہروں سے لگتا ہے کہ حماس کے حملے پر اسرائیل کے غیر متناسب ردعمل اور غزہ میں شہریوں پر بے دریغ بمباری نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ غزہ کو خوراک، پانی، ایندھن اور ادویہ کے بغیر ہفتوں تک محاصرے میں رکھنا، معصوم شہریوں کو ہلاک کرنا جن میں بچے بھی شامل ہیں، اسپتالوں اور عبادت گاہوں پر بمباری کرنا اور محصورینِ غزہ کے لیے انسانی امداد کو روکنا جنگی جرائم کا ارتکاب ہے۔ فلسطینیوں کے لیے تو مزاحمت فرض بن چکی ہے، لیکن فلسطینیوں کے لیے حمایت اور غزہ مارچ اسلام آباد انتظامیہ کے لیے ایک نظریاتی امتحان ثابت ہوا اور اسی لیے غزہ مارچ کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔
اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف ڈاکٹروں نے اتوار کے روز اسلام آباد میں غزہ مارچ کا انعقاد کیا، جس سے حماس کے راہنما اسماعیل ہنیہ نے بھی خطاب کیا۔ غزہ مارچ میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف اسپتالوں اور اداروں سے خواتین سمیت ڈاکٹروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ کا اہتمام پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما) نے کیا تھا جس کا آغاز پمز اسپتال مین گیٹ سے ہوا، اور ایمرجنسی سے ہوتے ہوئے یہ مارچ میٹرو اسٹیشن پر اختتام پذیر ہوا۔ مارچ کے شرکا نے اپنے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ جماعت اسلامی اسلام آباد نے اتوار کو اسلام آباد کے اتاترک ایونیو پر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف اور فلسطین کے حق میں ’غزہ مارچ‘ کا اعلان کیا تھا اور امریکی سفارت خانے تک جانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا تو اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے نے نگران حکومت سے رابطہ کیا۔ امریکی سمجھتے تھے کہ غزہ مارچ کے شرکاء سفارت خانے کو نقصان پہنچائیں گے۔ اس کے بعد ہی مارچ روکنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ نے طاقت کا استعمال کیا، لاٹھیاں برسائیں اور پوسٹرز شاہراہوں سے اتارے گئے۔ اس طرح وفاقی دارالحکومت میں غزہ ملین مارچ کی تیاریوں پر ہلہ بول دیا گیا۔ جماعت اسلامی کی ریلی اور جلسہ روکنے کے لیے پولیس نے جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا اور تاجر راہنما، مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کاشف چودھری سمیت درجنوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کی حراست میں کاشف چودھری کو دل کا دورہ پڑا، جس پر انہیں طبی امداد کے لیے پہلے پولی کلینک لایا گیا جہاں سے انہیں شفاء انٹرنیشل اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی گئی۔ یہ کارروائی نگران وزیرداخلہ سرفرازبگٹی کی ہدایت پر کی گئی۔
تفصیلات کے مطابق جماعت اسلامی اسلام آباد نے غزہ ریلی کا اعلان کیا تھا۔ یہ ریلی اتوار کو سری نگر ہائی وے پر ہونی تھی اور اس پروگرام کی تیاری کے لیے جماعت اسلامی کے کارکن اسٹیج بنانے کے لیے جمع تھے، جنہیں پولیس نے روکا اور اسٹیج کا سارا سامان اٹھاکر اپنی تحویل میں لے لیا، جس کے بعد جماعت اسلامی اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا اور مرکزی تنظیم تاجران کے صدر کاشف چودھری وہاں پہنچے، لیکن ان کے پہنچتے ہی پولیس نے جلسے کے لیے اسٹیج بنانے سے روک دیا۔ پولیس نے سامان قبضے میں لیتے ہوئے نصراللہ رندھاوا، کاشف چودھری اور جماعت اسلامی کے کئی کارکنا ن کو گرفتارکرلیا۔ اس واقعے پر شہر میں غم و غصہ پھیل گیا اور جماعت اسلامی کے کارکنوں اور تاجروں نے سری نگر ہائی وے پر دھرنا دے دیا۔ امیرجماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹرطارق سلیم اور صوبائی سیکرٹر ی جنرل اقبال خان نے غزہ مارچ کے استقبالیہ کیمپ اور تیاریوں پر وفاقی پولیس کے حملے، قیادت وکارکنان پر تشدد اور گرفتاریوں کو شرمناک قرار دیا۔ امیر جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی سید عارف شیرازی اور جنرل سیکرٹری عتیق احمد عباسی نے اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے یکجہتی غزہ مارچ کے کیمپ اکھاڑنے کی مذمت کی۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہاکہ پوری پاکستانی قوم اسرائیلی مظالم کے خلاف شدید غم وغصے کی کیفیت میں ہے، جماعت اسلامی نے پُرامن غزہ مارچ کی صورت میں قوم کو احتجاج کا پلیٹ فارم دیا جسے حکمرانوں نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ ہزاروں خواتین اور معصوم بچے غزہ میں شہید ہوچکے ہیں، غنڈہ ریاست اسرائیل نے 22لاکھ انسانوں کے لیے سانس لینا بھی مشکل کردیا ہے، خوراک اور طبی سہولیات پہنچنے میں مصر سمیت اسلامی ممالک کے بزدل حکمران رکاوٹ ہیں، جماعت اسلامی اس ظلم پر مسلسل احتجاج جاری رکھے گی اور غز ہ کے متاثرین تک امدادی سامان پہنچانے کے لیے ہرممکن کوشش جاری رہے گی۔ اسلام آباد پولیس جس وقت غزہ مارچ کے کارکنوں پر لاٹھیاں برسا رہی تھی عین اسی وقت طیب اردوان ترکیہ میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے لاکھوں افراد کی ریلی کی قیادت کررہے تھے۔ بہرحال جماعت اسلامی کی شدید مزاحمت کے بعد تمام گرفتار کارکنان اور راہنماؤں کو اسلام آباد پولیس نے رہا کردیا۔ ترجمان جماعت اسلامی راشد اولکھ نے بتایا کہ وہ اتوار کو بڑا مارچ کرنا چاہتے تھے جس کے انتظامات کے لیے جماعت کے ضلعی امیر نصراللہ رندھاوا اور کارکنوں نے تیاریوں کا آغاز کیا تھا، وہ پنڈال میں کرسیاں اور دیگر سامان لے کر پہنچے تو انتظامیہ نے دھاوا بول دیا۔ پولیس نے جماعت اسلامی کے ضلعی امیر نصراللہ رندھاوا، نائب امیر طاہر فاروق، کاشف چودھری اور 10 سے زیادہ کارکنان کو گرفتار کرلیا اورکیمپ اکھاڑ دیا، بلکہ سامان ضبط کرکے پولیس ساتھ لے گئی۔
ترجمان اسلام آباد پولیس تقی جواد کے مطابق دفعہ 144 کے نفاذ کی وجہ سے شہر میں جلسے جلوس کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن یہ غزہ مارچ ہوا جو بہت ہی بھرپور تھا۔ اس میں خواتین، بزرگوں اور بچوں سمیت لاکھوں افراد شریک تھے۔ مارچ سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کلیدی خطاب کیا اور ردعمل میں کہا کہ غزہ مارچ کی تیاریاں روکنا اور اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا اور تاجر راہنما کاشف چوھدری کی گرفتاری انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ نگران حکومت اور ادارے کس کو خوش کرنا چاہتے ہیں؟ امریکہ کے بعد کیا اب اسرائیل نوازی بھی ان کے لیے کوئی قابلِ شرم بات نہیں رہی؟ جماعت کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم نے بھی ردعمل دیا کہ ’غزہ لہو لہو حکومتِ پاکستان خاموش‘، حکومتِ پاکستان کاتازہ ترین اقدام کہ اسلام آباد میں غزہ مارچ کی تیاریوں پر پولیس نے حملہ کرتے ہوئے نصراللہ رندھاوا سمیت بیسیوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ نائب امیر میاں اسلم نے کہا کہ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے غزہ مارچ کی تیاریوں پر ریاستی ادارے نے دھاوا بول کر کارکنان اور قیادت کو سامان سمیت اغوا کیا۔ یہ دہشت گردی، نگران حکومت کی امریکہ و اسرائیل نوازی اور بدترین فاشزم ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایکس پر پیغام میں سوال کیا ہے کہ کیا نگران حکومت امریکہ اور اسرائیل کو خوش کر رہی ہے؟ یہ عوام کے آزادیِ اظہارِ رائے کے دستوری حق پر ڈاکا اور حکومتی فاشزم ہے،جماعت اسلامی کا غزہ مارچ ہر صورت ہوگا، حکومت فوری طور پر گرفتار شدگان کو رہا کرے اور معافی مانگے۔
ایک پاکستانی خیراتی ادارے نے غزہ میں مقیم لوگوں کے لیے امدادی اشیاء بشمول ادویہ اور ڈبہ بند خوراک بھیجنے کے لیے دو ہفتوں کے دوران ایک ارب روپے سے زائد یعنی 3.62 ملین ڈالر جمع کر لیے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے نائب صدر عبدالشکور نے بتایا کہ ہم نے غزہ کے لوگوں کو امدادی اشیاء فراہم کرنے کے لیے دو ہفتوں کے اندر پاکستانیوں سے ایک ارب روپے اکٹھے کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ فلسطینیوں کی مدد کے لیے دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں اور ہمارے فنڈز روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہے ہیں، اب تک امدادی اشیاء بشمول 400,000 ڈالر کی ادویہ امداد کے طور پر فراہم کی جاچکی ہیں، 45 ملین روپے ($162,527) مالیت کی ادویہ اور ڈبہ بند خوراک بھی ہلال احمر کو اپنے نیٹ ورک کے ذریعے غزہ میں پہنچانے کے لیے حوالے کی ہے۔ فاؤنڈیشن نے ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو غزہ لے جانے اور وہاں کے رہائشیوں کا علاج کرنے کے لیے رجسٹر کرنا شروع کر دیا ہے. اس سلسلے میں اب تک 1500 سے زیادہ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکس علاج کے لیے غزہ جانے کے لیے تیار ہیں۔ ڈاکٹروں، سرجنوں اور پیرامیڈیکس کی ٹیموں کو غزہ بھیجا جائے گا۔
انتظامیہ کی مزاحمت کے باوجود اسلام آباد میں میلوں لمبا غزہ مارچ انتظامیہ کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی تھا جس میں علمائے کرام، بچوں، خواتین، جوانوں، تاجروں، صحافیوں، ڈاکٹروں، دکان داروں اور سماجی تنظیموں کے کارکنوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ مارچ سے حماس کے راہنما اسماعیل ہنیہ نے بھی ٹیلی فونک خطاب کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا کہ ہم غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اگلا ملین مارچ 19 نومبر کو لاہور میں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں اسکول اور اسپتال نشانہ بنائے جارہے ہیں، جب تک ظلم ختم نہیں ہوتا، اسرائیل کی دہشت گردی ختم نہیں ہوتی تب تک یہ تحریک جاری رہے گی، ہم غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں، دنیا بھر کے باضمیر مسلمانوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اہلِ فلسطین کی حمایت کی۔ افسوس ہے اِس وقت بھی مسلمان حکمران امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ حکمرانوں کا کام دوائی یا کھانا پہنچانا نہیں بلکہ وہاں کے عوام کو بچانا ہے۔ مسلمان حکمرانوں نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی۔ چند دنوں میں 7 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ترکیہ کے صدر نے اسرائیل کو زبردست پیغام دیا، امریکہ کی سپورٹ کے باوجود حماس نے اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملایا، حماس کے لوگوں نے امریکہ کے تکبر کے باوجود اسرائیل کو قبرستان بنایا۔ ہم امریکہ اور امریکی صدر کی اسرائیلی حمایت کے خلاف ہیں۔ اسلام آباد میں ہمارے کارکنوں پر تشدد کیا گیا، پوچھتا ہوں ہماری پکڑ دھکڑ کرکے کس کو خوش کرنا چاہتے ہو؟ سراج الحق نے کہا کہ یہاں ہمارے اکٹھے ہونے کا مقصد غزہ کے مسلمانوں سے یکجہتی ہے، امریکی نائب سفیر کی ایک کال پر ہمارے کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سراج الحق نے کہا ہے کہ حماس نے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ایمان کی طاقت زیادہ مضبوط ہے۔ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے تو ہم بھی فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، جب تک اسرائیلی دہشت گردی ختم نہیں ہوتی ہم تحریک جاری رکھیں گے۔ ہم نے امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کا اعلان کیا، غزہ میں جمعہ کے دن اذان دی گئی تو بمباری کی وجہ سے کوئی نہیں آسکا، مسجد میں شہیدوں کے خون کے سوا کوئی چیز نہیں تھی، یہ عربوں کا نہیں ہر مسلمان کا مسئلہ ہے، افسوس ہے کہ مسلم حکمرانوں نے کوئی فرض ادا نہیں کیا۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ 76 سالوں سے فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیلیوں نے قبضہ کیا ہوا ہے- اسپتالوں، اسکولوں، سول آبادی پر بمباری کی گئی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے امریکہ کی طرف دیکھنا شروع کیا ہے، ہمارے حکمرانوں میں دم خم نہیں ہے
حکمران اللہ کی غلامی یا امریکی غلامی دونوں میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ بدمعاش امریکہ کے لیے افغانستان کو قبرستان بنایا گیا۔ غزہ میں کھانا، دوائی، پانی اور کپڑے پہنچانے کا کام الخدمت ترکی کے ساتھ مل کر، کررہی ہے، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت ہر صورت جاری رکھیں گے۔
ریلی میں صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے ( ڈیموکریٹس) کے عہدیدار اور کارکن، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما)کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر افتخار برنی، صدر پیما اسلام آباد بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر آصف نواز، سابق صدر پیما خواتین ونگ ڈاکٹر نوید بٹ بھی شریک ہوئے۔ ڈاکٹر افتخار برنی نے غزہ کی صورت حال کو انتہائی تشویش ناک قرار دیا اور کہا کہ عالمی برادری کو اس پر خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ غزہ میں نہتے شہریوں اور معصوم بچوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ غزہ کے اسپتالوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس وقت انسانیت خود خطرے میں ہے۔تحریک بیداریِ امت کے قائد علامہ جواد حسین نے ایک بڑے قافلے کے ہمراہ اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے غزہ مارچ میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ آج کا کربلا غزہ و فلسطین ہے اور اسرائیلی صہیونیوں سے حسینی برسرِپیکار ہیں، تو مجمع میں موجود ہزاروں لوگ لبیک یا حسین لبیک یا غزہ کے فلک شگاف نعرے لگاتے رہے۔