غزہ… لرزتا، دہکتا آگ کا گولا

فلسطینی ”نکبہ“ دوم کا حصہ بننے کو تیار نہیں
ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے، یہیں خاک اپنی ملائیں گے

جمعہ 27 اکتوبر کی شام سے اسرائیل نے غزہ پر خوفناک برّی حملے کا آغاز کردیا۔ اس سے پہلے بدھ اور جمعرات کو داخلے کی محدود کارروائی کی گئی جسے اہلِ غزہ نے پسپا کردیا۔ اس شب خون میں اسرائیل کے کئی ٹینک اور بکتربند گاڑیاں تباہ ہوئیں اور ایک فوجی مارا گیا۔ برّی حملے سے پہلے یہودی علما نے ہنگامی صورتِ حال کا حیلہ اختیار کرتے ہوئے سبت کی پابندیاں معطل کردیں۔

حملے کا آغاز غزہ کی پوری پٹی پر فاسفورس بموں کی بارش سے ہوا۔ سفید فاسفورس سے پھوٹنے والی چنگاریوں کی حدت 800 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتی ہے، چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں سارا غزہ دہک اٹھا۔ اقوام متحدہ نے سفید فاسفورس کو ممنوعہ ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کیا ہے، تاہم امریکہ نے اسے افغانستان میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ اسی کے ساتھ بمباروں اور ڈرونوں نے پٹی کے ایک ایک انچ کو نشانے پر رکھ لیا۔ تینوں جانب سے توپ خانے اور ٹینکوں نے مہلک ترین گولے برسائے اور بحر روم سے اسرائیلی بحریہ نے خشکی پر مار کرنے والے میزائیل داغے۔ یہ کارروائی تادم تحریر (30 اکتوبر) جاری ہے۔ غزہ کی سرحد پر کھڑے فاکس نیوز کے ایک صحافی نے کہا ”ایسا لگ رہا ہے کہ گویا سارا غزہ شعلوں، اور زمین زلزلے کی لپیٹ میں ہے“۔ غزہ میں پھٹنے والے بم و میزائیل اور بارودی گولوں کے دھماکوں سے شام، صحرائے سینا اور لبنان کے بڑے علاقے گونج رہے ہیں، لیکن مسلم اکثریتی ممالک سمیت ”مہذب“ دنیا کے کانوں میں خوف و مفادات کا سیسہ اس قدر گہرائی تک اترچکا ہے کہ انھیں کچھ سنائی نہیں دے رہا، بلکہ امریکی شعبہ قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے اسرائیل کی برّی مہم کے لیے مکمل تعاون کا عزم اور کامیابی کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے واشنگٹن میں آسٹریلوی وزیراعظم کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا ”غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں مجھے یقین نہیں ہے کہ فلسطینی سچ بول رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ (غزہ میں) بے گناہ مارے گئے ہیں اور یہ جنگ چھیڑنے کی قیمت ہے۔“

برّی حملے کا اعلان اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی نے کیا۔ قومی یکجہتی کے لیے اُن کی اخباری کانفرنس میں حزبِ اختلاف کے رہنما اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بینی گینٹز (Benny Gantz)بھی موجود تھے۔ اس موقع پر وزیردفاع یاوو گیلینٹ (Yoav Gallant) نے تکبر سے چُور لہجے میں کہا ”ہم نے سرزمینِ غزہ پر لرزہ طاری کردیا ہے۔“ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بی بی نے کہا کہ ہم حماس کے خلاف نہیں بلکہ وحشت و سفاکی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں جس سے جدید تہذیب کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ انھوں نے حماس کے خلاف جنگ کو ”جنگِ آزادی“ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ برّی جنگ طویل، تکلیف دہ اور مشکل ہوسکتی ہے۔ یہ جنگ ہم یقیناً جیتیں گے لیکن قوم کو قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

برّی حملے کے 48گھنٹے مکمل ہونے پر معروف عسکری تجزیہ نگار زوران کوسووچ (Zoran Kosovac) نے کہا Israel’s round attacks yield lots of bang, little success یعنی ”اسرائیلی زمینی حملہ: دھماکہ زوردار لیکن کامیابی کا نام و نشان نہیں۔“ (حوالہ: الجزیرہ)

حملوں کے آغاز ہی سے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اسے اگر بی بی کی اعلان کردہ ”جنگِ آزادی“ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فلسطین کے مکمل خاتمے کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے فلسطین اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پناہ گزیں کیمپوں تک محدود ہے لیکن اسرائیلی قیادت اس رسمی اور نامی حیثیت کو بھی ختم کردینے پر تُلی نظر آرہی ہے۔

7 اکتوبر کو فضائی حملے کے آغاز پر شہری آبادی کی جنوبی سمت نقل مکانی کے لیے اسرائیلی وزیردفاع نے اقوام متحدہ کو دو دن کی مہلت دی تھی، لیکن اہلِ غزہ نے یہ حکم ماننے سے صاف انکار کردیا۔ شمالی غزہ کی ایک زخمی خاتون ام محتشم العلامی نے امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا ”میرے پاس کھونے کے لیے اب جان کے سوا کچھ نہیں بچا۔ ہم ایک انچ اِدھر اُدھر نہیں جائیں گے۔ اگر ہمارے سارے مرد مارے گئے تو ہم عورتیں لڑیں گی۔ میں زخمی ہوں لیکن خوف زدہ نہیں۔ اگر کچھ نہ رہا تو ہم اپنے ناخن چبھوکر دشمن کو مار بھگائیں گے۔“

اسرائیل کی خواہش ہے کہ جنوب کی جانب دھکیلتے ہوئے تمام کی تمام فلسطینی آبادی کو مصر کے زیرانتظام صحرائے سینا کی طرف ہنکا دیا جائے۔ برما میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ قتلِ عام کے بعد جو سخت اراکان زندہ رہ گئے انھیں رگیدکر بنگلہ دیش پہنچادیا گیا۔

غزہ والوں کی جنوب کی جانب منتقلی کے خلاف شدید مزاحمت کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ النکبہ یا قومی سانحہ نامی یہ ڈکیتی اتنی مشہور ہے کہ اہلِ غزہ ہر سال 15 مئی کو ”ذکری النکبہ“ (آفت کا یاد) مناتے ہیں۔ اس عظیم سانحے پر چند سطور سے قارئین کو یہ معاملہ سمجھنے میں مدد ملے گی۔ ظلمِ عظیم کی داستان پرانی ہے۔ اختصار کے لیے ہم یہ ذکر ارضِ مقدس پر تاجِ برطانیہ کے دورِ نامسعود سے شروع کرتے ہیں۔

29 ستمبر 1947ء کو اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطا کردیے۔ جس کے بعد برطانیہ نے دوقومی نظریے کے مطابق فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا۔ تقسیم میں ویسا ہی ”انصاف“ کیا گیا جو تاجِ برطانیہ کا طرہ امتیاز ہے، یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ریاست کی 42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرار پایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد 5 لاکھ اور عرب آبادی 4 لاکھ 38ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ ایک لاکھ آبادی والے بیت المقدس میں مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔

تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشن آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کیے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عمل درآمد اور اس کے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اس طرح ادا کی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کرکے انھیں محصور کردیا، جبکہ اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ ان حملوں میں ہر ہفتے 100 کے قریب افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق برطانوی فوج کو مئی 1948ء تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی، لیکن برطانوی فوجیوں نے مارچ سے ہی اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیا۔ عرب حلقوں کے مطابق، جاتے ہوئے برطانوی فوج نے اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کردیا تھا۔

عربوں کے شبہ کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948ء کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی، حالانکہ معاہدے کے تحت مشترکہ اثاثہ ہونے کی بنا پر بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات… کسی شخص کو چھری بھی لے کر جانے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ تصادم میں سیکڑوں فلسطینی مارے گئے جن میں ان کے کمانڈر اور مفتی اعظم فلسطین امین الدین حسینی کے بھتیجے عبدالقادر حسینی بھی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیمِ فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا، لیکن برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اُس وقت ہیری ٹرومین امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

ریاست کے اعلان سے فلسطینیوں میں شدید اشتعال پھیلا اور جگہ جگہ خونریز تصادم ہوئے۔ اس دوران جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کو بھون کر رکھ دیا۔ مظاہروں کو کچل دینے کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا، وہ بھی اس طرح کہ بحرروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں 12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ اُس وقت غزہ پر مصر کی عمل داری تھی۔

قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں سے مجموعی طور پر 2 ہزار ہیکٹرز (Hectares)اراضی چھینی گئی۔ ایک ہیکٹر 10ہزار مربع میٹر کے برابر ہے یعنی 2 کروڑ مربع میٹر۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948ء کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ فلسطینیوں کی ان کے گھروں سے جبری بے دخلی کے بعد 1967ء اور 1973ءکی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے مزید عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا۔

ارضِ فلسطین سے عربوں کو اردن، مصر، شام اور لبنان کی جانب دھکیلنا ہی اسرائیلی ”جدوجہدِ آزادی“ کا ہدف تھا۔ اب 7 اکتوبر کو فضائی حملوں کے آغاز پر شہری آبادی کی جنوب منتقلی پر اصرار اور غزہ میں ٹینک داخل کرتے وقت اس وحشت کی جدوجہدِ آزادی سے تشبیہ کے بعد اہلِ غزہ کو یقین ہوگیا ہے کہ موجودہ جنگی کارروائی نکبہ دوم کا نقطہ آغاز ہے۔

بلاشبہ اسرائیل اور مغرب کی مشترکہ قوتِ قاہرہ کا مقابلہ نہتے فلسطینیوں کے بس کی بات نہیں لگتی، لیکن اہلِ غزہ کے حوصلے اب تک بلند نظر آرہے ہیں۔ ایک خاتون کا ذکر ہم نے اوپر کیا۔ ایک ہفتہ پہلے غزہ سے ایک بصری تراشا جاری ہوا جس میں آٹھ نو سال کی بچیاں ایک دوسرے کے ہاتھوں اور پیروں پر انمٹ سیاہی سے نام لکھ رہی تھیں، جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ تو ایک دس سالہ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا”تاکہ بمباری کے بعد ملبے سے بازیاب ہونے والے ہمارے جسم کے ٹکڑوں کی شناخت ہوسکے“۔ یہ منظر دیکھ کر آنکھ بھر آنی چاہیے تھی لیکن کسی اور کا کیا ذکر، خود ہماری آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نہ ٹپکا کہ ہم بھی اسی بے حس مسلم برادری کا حصہ ہیں۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹوئٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔