سیاسی مفاہمت کے امکانات و خدشات

انتخابات کے نتیجے میں قومی بحران مزید بڑھتا ہے تو یہ سیاسی ہی نہیں، معاشی بنیادوں کو بھی مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

پاکستان کی مجموعی سیاست مفاہمت اور مزاحمت یا سیاسی ٹکرائو کے درمیان کھڑی ہوئی ہے۔ فریقین مفاہمت سے زیادہ اپنی سیاسی اَنا اور ضد کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہر فریق دوسرے فریق پر اپنی مرضی کے فیصلے لاگو کرنا چاہتا ہے۔ جب سیاسی یا غیر سیاسی فریقوں کے درمیان سیاسی لچک یا ایک دوسرے کو قبول کرکے کچھ لو اور کچھ دو کی حکمت عملی سامنے نہیں آتی تو اس کا نتیجہ ایک بڑے سیاسی اور ریاستی انتشار کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان بھی اسی بحران کا شکار ہے اورہم عملاً بند گلی میں کھڑے ہیں۔ اگرچہ ہر کوئی باہر نکلنا چاہتا ہے مگر اس کا جو طریقہ کار اُس کی اپنی سوچ اور فکر میں غالب ہے وہی مسائل کے حل میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جب بھی سیاسی معاملات غیر سیاسی انداز میں حل کرنے کی حکمت ِعملی اختیار کی جائے گی اس کے نتائج خراب ہوں گے اور بلاوجہ ٹکرائو کا ماحول پیدا ہوگا۔ جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے وہ کسی ایک فریق کا پیدا کردہ نہیں بلکہ یہ تمام سیاسی و غیر سیاسی فریقین کی حکمت عملیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم مشکل حالات میں کھڑے ہیں۔ اس وقت قومی سطح پر سیاست اور جمہوریت کا مستقبل سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ عملی طور پر جمہوریت کہیں گم ہوکر رہ گئی ہے اور سیاست اور جمہوریت کے مقابلے میں غیر سیاسی قوتوں کا غلبہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ سیاست، جمہوریت، میڈیا، سول سوسائٹی، عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت تمام ادارے عملی طور پر کمزور سطح پر کھڑے ہیں، جمہوری راستہ تواتر کے ساتھ محدود ہوتا جارہا ہے اورجمہوری قوتوں کے ہاتھوں سے سیاسی اور جمہوری گیم کے کارڈ بہت حد تک نکل گئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ خود سیاسی جماعتوں کے داخلی مسائل، دیگر جماعتوں کے ساتھ ان کے بگڑتے تعلقات، جوڑتوڑ یا اقتدار کی مجبوریاں ہیں جن کے باعث سیاسی جماعتیں خود سیاسی دشمنی کے کھیل کا حصہ بن کر سیاست اور جمہوریت کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ لیکن اب سیاسی جماعتیں اس بحران سے کیسے نکل سکیں گی، یہ خود سوالیہ نشان ہے۔

اس وقت سیاسی جماعتوں میں ایک بار پھر قومی مفاہمت پر زور دیا جارہا ہے۔ بالخصوص اس وقت قومی سیاسی منظرنامے میں پی ٹی آئی سخت عتاب کا شکار ہے۔ اسے عملی طور پر بند کردیا گیا ہے اور وہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کرنے کی پوزیشن میں نہیں، یا اسے اس بات کی اجازت ہی نہیں مل رہی۔ عدالتی اجازت ناموں کے باوجود پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں پسِ پردہ طاقتوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ پی ٹی آئی کو اوّل تو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہی نہ دی جائے، اور دوئم اگر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو پھر اس جماعت کو عملی طور پر ہاتھ پائوں باندھ کر سیاسی و انتخابی میدان میں اتارا جائے گا تاکہ یہ جماعت مقبولیت کے باوجود اپنی سیاسی برتری ثابت نہ کرسکے۔ عمران خان کے مقابلے میں ان کے سیاسی مخالف نوازشریف کو ریاستی حمایت کے ساتھ سیاسی میدان میں اتارا جارہا ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ فیصلہ کن قوتوں نے حتمی فیصلہ کرلیا ہے کہ 2024ء کے انتخابات کا تاج شریف خاندان کو ہی پہنایا جائے گا۔ اس کھیل کے لیے انتخابات کا ایک مصنوعی ڈراما رچایا جائے گا تاکہ سیاسی طور پر سرخرو ہوا جاسکے۔

نوازشریف کے ساتھ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا سلوک بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے نئی مشکلات پیدا کررہا ہے، کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ہم بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہمیشہ سے پیش پیش رہے ہیں توہمیں کیوں کم حصہ دیا جارہا ہے؟ جبکہ ہمارے مقابلے میں نوازشریف کے ساتھ بہت زیادہ لاڈپیار والا سلوک کیا جارہا ہے۔ نوازشریف کے اندر سیاسی ہوا بھرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اُن کو عمران خان کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے اور پنجاب کے بڑے انتخابی معرکے میں عمران خان کو پسپا کرکے نوازشریف کے لیے سیاسی حالات کو بہتر بنایا جائے۔ ایسے میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کا ردعمل خاصا سخت ہے۔ اوّل ان کو اس بات کا گلہ ہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو بڑا سیاسی کردار ادا کرنے سے صرف روکا ہی نہیں گیا ہے بلکہ جو لوگ پیپلزپارٹی کا حصہ بننا چاہتے تھے ان پر بھی دبائو ڈال کر مجبور کیا گیا کہ وہ یا تو پیپلزپارٹی سے دور رہیں یا جہانگیر ترین کی سیاسی جماعت میں شامل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) پر دبائو بڑھانے کے لیے پی ٹی آئی کی طرف اپنا جھکائو بڑھایا ہے۔ پیپلزپارٹی کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی سیاسی میدان میں رکھا جائے، اور اگر اُس کے بغیر انتخابات کا کھیل کھیلا گیا تو ہم اس کی مزاحمت بھی کریں گے اور اس عمل سے انتخابات کی حیثیت متاثر ہوگی جو ہمیں قبول نہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی نوازشریف کی سولو فلائٹ سے خوش نہیں، وہ بھی اپنا حصہ بڑھانے کے لیے وکٹ کے دونوں طرف ہی کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اصل مسئلہ پی ٹی آئی کی انتخابی عمل میں شمولیت سے جڑا ہوا ہے، اور دیکھنا ہوگا کہ ریاستی نظام پی ٹی آئی کو کس حد تک انتخابی عمل میں شریک ہونے کی اجازت دے گا۔ اور اگر اسے منصفانہ بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی گئی تو پھر ان انتخابات کی حیثیت کیا ہوگی؟ اور کیا اس کا ردعمل قومی سیاست میں مزید انتشار کی صورت میں دیکھنا پڑے گا؟ کیونکہ اگر انتخابات کے نتیجے میں قومی بحران مزید بڑھتا ہے تو یہ سیاسی ہی نہیں، معاشی بنیادوں کو بھی مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔

اس بات کا احساس اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقوں میں بھی پایا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کو قومی سیاسی دھارے سے دبائو کی بنیاد پر علیحدہ کرنے سے ہماری سیاسی مشکلات مزید بڑھیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی یہ خیال موجود ہے اور اس کو عملی شکل بھی دی جارہی ہے کہ عمران خان سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت کا عمل آگے بڑھے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، اعجازالحق، محمد علی درانی کی جو بھی کوششیں تھیں وہ ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں دے سکیں، کیونکہ جو مفاہمتی فارمولا ان لوگوں کے پاس ہے وہ عمران خان کو قبول نہیں، اورجو عمران خان چاہتے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے عمران خان کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہی حتمی ہے، اس لیے عملی طور پر نئے عام انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ ان کو نااہل بھی کیا جاسکتا ہے، اور انہیں جیل میں رکھ کر ہی انتخابی دربار سجایا جائے گا۔ اسی طرح ان کی جماعت کو سخت حالات میں انتخابات کی طرف لایا جائے گا اور پی ٹی آئی آزادانہ طور پر انتخابی مہم نہیں چلا سکے گی۔

کچھ دن قبل پی ٹی آئی کے دو راہنمائوں اسد قیصر اور علی محمد خان کی مولانا فضل الرحمن سے ہونے والی ملاقات سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پی ٹی آئی میں یہ احساس پیدا ہوگیا ہے کہ موجودہ برے حالات سے باہر نکلنے کا راستہ تمام جماعتوں کے ساتھ بہتر تعلقات یا اُن سے بات چیت کے دروازے کھولنے میں ہے۔ اگرچہ اسد قیصر اورعلی محمد خان کے بقول یہ ملاقات محض ایک تعزیتی ملاقات تھی، اس کو سیاسی رنگ دینا مناسب نہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی اتحاد جے یو آئی سے ہوگا۔ لیکن میڈیا میں یہ تاثر اجاگر کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے مشکلات کی وجہ سے ہی جے یو آئی سے رابطہ کیا ہے اوراس ملاقات کا مقصد سیاسی حالات کو اپنے حق میں کرنا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کوئی، ملاقات کا سیاسی رنگ بنانا چاہتا ہے تو پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ اس کو بھی انتخابات میں آزادانہ بنیادوں پر حصہ لینے دیا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اُس کے اس حق کو قبول کریں۔ انتخابی اتحاد کے امکانات بہت کم ہیں اورایسا انتخابی اتحاد خود پی ٹی آئی کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں ہوگا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان براہِ راست 9 مئی کے واقعات پر فوج اور قوم سے معافی مانگ لیں اور یقین دلائیں کہ وہ مستقبل میں کوئی ایسا عمل نہیں کریں گے تو ان کے لیے سیاسی راستہ کھل سکتا ہے۔ لیکن عمران خان اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے ابھی تک خود کو کمزور ثابت نہیں کیا۔ عمران خان نے ان تمام خدشات کو بھی شکست دی ہے کہ وہ جیل میں نہیں رہ سکیں گے اور خود ہی کوئی ڈیل کرکے باہر جانے کو ترجیح دیں گے۔ اس لیے عمران خان کا ڈٹے رہنا بھی اسٹیبلشمنٹ کے لیے مشکلات کا سبب بن رہا ہے اور اسے لگتا ہے کہ عمران خان آسانی سے قابو نہیں آسکیں گے۔

بنیادی طور پر مفاہمت کی باتیں اس لیے بھی نتائج نہیں دے رہیں کہ اوّل عمران خان کی مخالف جماعتیں کیوں چاہیں گی کہ عمران خان کو اس مشکل وقت میں دیوار سے لگانے کے بجائے انہیں سیاسی سہارا دیا جائے! کیونکہ اے این پی اور جے یو آئی کے لیے عمران خان کے پی کے میں بڑا خطرہ ہیں، جب کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے لیے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ اس لیے ان تمام جماعتوں کا سیاسی مفاد عمران خان کو دیوار سے لگانے میں ہی ہوگا۔ دوسری جانب اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر ہیں اور اسٹیبلشمنٹ اُن کو کوئی سیاسی راستہ نہیں دینا چاہتی تو پھر یہ عمران خان مخالف جماعتیں کیونکر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو پیدا کرکے پی ٹی آئی سے اتحاد کرنے، اس سے بہتر تعلقات بنانے یا اسے سیاسی راستہ دینے کی بات کریں گی؟ ایسا لگتا ہے کہ جو سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دینے کی بات کررہی ہیں وہ عملی طور پر اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈال کر اپنے حق میں مزید کچھ فیصلے چاہتی ہیں جو اِس وقت ان کو نہیں مل رہے۔اسی طرح مفاہمت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شرائط کے ساتھ مذاکرات کا آپشن ہے۔ مفاہمت کا جو بھی کھیل نظر آرہا ہے اس میں مائنس ون فارمولا زیر بحث ہے۔ یعنی عمران خان اپنے ہی خلاف فیصلہ کریں اور خود کو فوری طور پر عملی سیاست سے الگ کرلیں اورسیاسی معاملات پارٹی میں ایسے فرد کو سونپ دیں جسے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہو۔یہ پیکیج فی الحال عمران خان کوقبول نہیں، اوراسی وجہ سے مفاہمت کی بات آگے نہیں بڑھ پارہی۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ کوئی نیاکھیل نہیں، ماضی میں جب بھی مائنس ون فارمولے کا کھیل کھیلا گیا اس نے ہماری سیاست کو خراب کیا، اورا س کے نتیجے میں جمہوریت کا سفر آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار اس نکتے کو اجاگر کیا جارہا ہے کہ مائنس ون یا مائنس ٹو کے بجائے ایک بڑے سیاسی اورجمہوری فریم ورک میں قومی سیاسی مفاہمت کی طرف پیش رفت کی جائے۔ حقیقی اور صاف ستھری قومی مفاہمت جس کی بنیاد آئین، قانون، سیاست اورجمہوریت کو ہی مضبوط بنانا ہو تو ملک آگے بڑھ سکے گا۔ ہمیں سیاسی آنکھ مچولی کا یہ کھیل ختم کرنا ہوگا اورمحض اپنی خواہش کی بنیاد پر سیاسی مہم جوئی کسی بھی سطح پر قومی مفاد میں نہیں ہوگی۔کیونکہ اس کھیل کا شدید سیاسی ردعمل ہمیں قومی سیاست میں دیکھنے کو ملے گا جو قومی سیاسی معاملات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنے گا۔