کشمیری مسلمانوں کے احتجاج کا خوف ,بھارت کی اسرائیل پرستی

بھارتی حکومت نے ایک بار پھر سری نگر کی جامع مسجد کو سیل کرنے کے ساتھ ساتھ میر واعظ عمر فاروق کو نظربند کردیا

اسرائیل فلسطینی عوام پر آتش و آہن کی بارش کیے ہوئے ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح کشمیری عوام میں بھی غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کشمیری عوام کو جب اور جہاں موقع ملتا ہے اسرائیل کی وحشت اور ظلم و ستم کی مذمت کرتے ہیں، مگر بھارت چونکہ اسرائیل کا تزویراتی شراکت دار ہے اس لیے بھارت اسرائیل دوستی کے تناظر میں وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ اسرائیل کے خلاف کہیں آواز بلند ہو۔ کشمیری چونکہ ایک حساس قوم ہیں جن کے دل ہمہ وقت مسلم اُمہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں، اس لیے وہ اسرائیل کے مظالم کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنا چاہتے ہیں، اور اس آواز کو دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے ایک بار پھر سری نگر کی جامع مسجد کو سیل کرنے کے ساتھ ساتھ میر واعظ عمر فاروق کو نظربند کردیا۔ بھارتیوں کو خوف تھا کہ نمازِ جمعہ کے بعد جامع مسجد کے ہزاروں نمازی اسرائیل کی مذمت میں نعرہ زن ہوں گے، اس لیے بھارتی حکام نے اس اجتماع کو روکنے کے لیے جامع مسجد کو ہی مقفل کردیا اور میر واعظ عمر فاروق کو جنہیں چار سال بعد رہائی ملی تھی، دوبارہ نظربند کردیا۔ بھارت کو خوف ہے کہ کشمیر میں فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں عوام کے بھڑکے ہوئے جذبات کسی بڑی احتجاجی تحریک میں ڈھل سکتے ہیں۔ کشمیریوں کے دلوں میں 5 اگست 2019ء کے حالات کی آگ پہلے ہی دہک رہی ہے، اب اس میں فلسطینی مسلمانوں کا دکھ تیل کا کام دے سکتا ہے اور یوں حالات بھارت کے قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔

کشمیر میں بڑے پیمانے پر عوام کو احتجاج سے روکنے کے لیے ہونے والے اقدامات کے جائزے کے لیے بھارتی کے سیکورٹی اداروں کا ایک خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوا۔ کے ایم ایس کے مطابق اس اجلاس میں پولیس حکام نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ کشمیر میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج بھارت مخالف لہر میں بھی بدل سکتا ہے۔ دی وائر کے مطابق بھارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں اسرائیل کی حمایت میں سرکاری اہتمام سے مظاہرے کروائے جارہے ہیں، جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر پابندی ہے۔

انتہا پسند ہندوئوں نے جن میں ریٹائرڈ فوجیوں کی بڑی تعداد شامل ہے، اسرائیل کے سفارت خانے تک مارچ کیا اور سفارت خانے سے مطالبہ کیا کہ ان کو اسرائیل پہنچانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف لڑائی میں شریک ہوسکیں۔ نئی دہلی میں اسرائیلی سفیر نیور گلون نے تصدیق کی ہے کہ انہیں بہت سی درخواستیں مل رہی ہیں جن میں خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں عملی شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ہندو دانشور نے الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہودیوں کی نسل کُشی کرنے والے ایڈولف ہٹلر کے مداح اب صہیونیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ ہندو انتہاپسند ہر متشدد قوت کے حامی ہوتے ہیں، پہلے ہٹلر تشدد کرتا تھا اُس کے حامی تھے، اب اسرائیل یہی کام کررہا ہے تو اب یہ انتہا پسند اُس کی حمایت کررہے ہیں۔ ایک ہندو بھارتی دانشور کا کہنا تھا کہ نریندر مودی اپنے مسلمان مخالف ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے اسرائیل کی تعریفیں کررہا ہے۔ یوکرین میں اس نے کہا تھا کہ یہ جنگوں کا زمانہ نہیں مگر فلسطین کے معاملے میں وہ یہ جملہ بھی نہیں کہہ رہا اور جنگ بندی کی بات تک نہیں کی جارہی، اور جنگ بندی کا مطالبہ نہ کرکے بھارت امریکہ کو پیغام دے رہا ہے کہ اس کا مؤقف امریکہ سے قریب تر ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹکا میں اٹھاون سالہ مسلمان شہری عالم نواز کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ اُس نے فلسطین کی حمایت میں ’’فلسطین زندہ باد‘‘ کی عبارت پر مبنی پوسٹ لگائی اور اپنی واٹس ایپ ڈی پی پر فلسطین کا جھنڈا لگایا۔

بھارت کی طرف سے سخت پابندیوں کے باوجود کرگل، لیہہ اور وادی کے مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے احتجاجی مظاہرے منعقد ہورہے ہیں۔ چند دن قبل سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری کا تعلق بھی مشرق وسطیٰ کے حالات سے معلوم ہورہا ہے۔ سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری ظفر وال سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال گولہ باری اور کواڈ کاپٹر کے لیے سیزفائر لائن کی خلاف ورزی نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور حالات کی سنگینی کو ایک بار پھر ظاہر کردیا ہے۔ ظفر وال سیکٹر میں بھارتی فوج کے کواڈ کاپٹر نے سیزفائر لائن عبور کرنے کی ناکام کوشش کی جبکہ اس کے ساتھ ہی بلااشتعال گولہ باری کی گئی، جس کے جواب میں پاک فوج نے بھی گولہ باری کرکے بھارتی گنوں کو خاموش کردیا۔

ایک ایسے وقت میں جب غزہ کا محاذ گرم ہے اور دنیا کی نظریں غزہ کی قتل گاہ پر مرکوز ہیں اور اسرائیل کا ظلم و ستم دنیا کا موضوع بنا ہوا ہے، بھارت نے دنیا کی توجہ کشمیر کی کنٹرول لائن کی جانب موڑکر عملی طور پر اسرائیل کی مدد کی ہی کوشش کی ہے۔ پاک فوج کی طرف سے بھارتی گولہ باری کا مسکت جواب اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان خراب معاشی صورتِ حال اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود بھارت کے ساتھ اس معاملے میں کوئی رو رعایت نہیں برتے گا اور بھارت کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔

پاکستان اور بھارت کے معاملات اور کشمیر کی صورتِ حال جس رخ پر جارہی ہے اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ آنے والے حالات اچھے نہیں۔ مودی کے عزائم خطرناک ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی شناخت پر حملے کے بعد اُس کی خوں خوار نگاہیں آزادکشمیر پر لگی ہیں۔ مودی کو انتخابات میں ایک ایسے کارڈ کی ضرورت ہے جس کو بنیاد بناکر وہ اپنے ووٹرز کے لیے ٹارزن بن سکے۔مودی کی سیاسی بقا کے لیے بھارتی فوج آزاد کشمیر کو زخم زخم کرنا چاہتی ہے۔کنٹرول لائن پر بظاہر امن ہے مگر اس کے قریبی علاقوں کے عوام اس وقت انتہائی کربناک حالات سے گزر رہے ہیں۔انسان،مویشی،کھیت کھلیان،مکان اور دکان غر ضیکہ کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ ان علاقوں کے عوام نے برسہا برس تک بھارتی فوج کے زخم سہے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھاجب کسی گائوں میںکوئی لاشہ نہ اُٹھا ہو۔بھارتی فوجی تاک کر انسانوں پر گولیاں برساتی تھی۔گولیوں کی زد میں آنے والے اکثر لوگ معصوم اور نہتے ہوتے تھے، ان میں کوئی درانداز نہیں ہوتا تھا،کوئی اسلحہ بردار نہیں ہوتا تھا،کسی کے ہاتھ میں گرنیڈ اور بندوق نہیں ہوتی تھی۔یہ آزادکشمیر کا کوئی عام شہری ہوتا تھا جو غم ِ روزگار میں گھر سے نکلا ہوتا تھا اور بھارتی فوج کی نشانہ وار گولی جس کا کام تمام کرتی تھی، اور یوں ایک اور گھر اورخاندان میں المیہ کہانی کا آغاز ہورہا تھا۔یہ صورتِ حال کنٹرول لائن پر 2004ءکی جنگ بندی کے بعد بھی وقفے وقفے سے پیدا ہوتی رہی۔

جن علاقوں میں بظاہر امن ہے وہا ں بھی ہر دم خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں اور کچھ ہوجانے کا دھڑکا عوام کو غیر یقینی کے عذاب میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ یہ خوف اُس وقت حقیقت بن کر سامنے آیا جب وادی نیلم کے بالائی علاقے میں کنٹرول لائن کے مچھل سیکٹر میں پانچ مقامی نوجوان جڑی بوٹیاں تلاش کرنے گھر سے نکلے اور پھر لاپتا ہوگئے۔ جس روز یہ نوجوان گھروں سے جنگل کی طرف نکلے اسی دن کنٹرول لائن کے مچھل سیکٹر کی طرف سے فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ اسی روز شام کو بھارتی فوجی حکام نے میڈیا پر یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول عبور کرنے کی کوشش کرنے والے پانچ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے۔ بھارتی فوج نے ان مارے جانے والے افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی مگر گمان غالب ہے کہ یہ وادی نیلم کے وہی نوجوان ہیں جو جڑی بوٹیوں کی تلاش میں کنٹرول لائن سے لاپتا ہوگئے ہیں۔ اس سے قبل بھی بھارتی فوج اسی علاقے میں مویشی چَرانے والے چار شہریوں کو اُٹھا کر لے گئی تھی، بعد میں ان کا کوئی پتا نہیں چلا۔ نریندر مودی کو انتخابات کا چیلنج درپیش ہے اور وہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہر طرح کے دائو پیچ استعمال کررہا ہے، مگر یہ اٹکھیلیاں خطے کے امن کو تباہ بھی کرسکتی ہیں۔