مغربی دنیا میں سائنسی تحقیق کی سمت

مغرب کے سائنس دانوں میں زیر بحث سنجیدہ سوالات ہیں

امریکہ کے سابق صدر رونالڈ ریگن اور جارج بش نے امریکہ کے اسکولوں میں دوبارہ مذہبی تعلیم متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ امریکہ کے سابق صدر مسٹر بل کلنٹن نے بھی امریکی اسکولوں میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا۔ مغربی دنیا کے کئی اور ملکوں کے سربراہان اور سیاسی راہنما بھی اسی نوعیت کی باتیں کررہے ہیں۔ اخبارات میں اس طرح کی خبریں پڑھ کر ہم میں سے بہت سے لوگ خوش ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لیجیے مغربی دنیا کے حکمران اور ممتاز رہنما بھی بالآخر مذہب کی اہمیت کے قائل ہوگئے ہیں۔ جن لوگوں کو تخیل کے گھوڑے دوڑانے کی سہولت میسر ہے وہ اس سلسلے میں اس سے بھی آگے چلے جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ مغربی دنیا کے حکمران اور ممتاز راہنما اگر آج مذہب کی اہمیت کے قائل ہورہے ہیں تو بیس، پچیس سال میں اسلام کی اہمیت کے قائل بھی ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی علامہ جارج برنارڈ شا پہلے ہی پیشن گوئی کرچکے ہیں کہ مغربی دنیا بیسویں صدی کے اختتام یا اکیسویں صدی کے آغاز میں اسلام یا اسلام جیسا کوئی مذہب قبول کرلے گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ نیک خواہش کیا ہوسکتی ہے! مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا اگر نیک خواہشات کے مطابق بدلا کرتی، یا نیک خواہشات کے مطابق چلا کرتی تو اس کی حالت وہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ دنیا کے چلنے اور بدلنے کی اپنی منطق ہے، اس کا اپنا ڈھرا ہے جو ہماری نیک خواہشات کو آداب عرض کیے بغیر دنیا کو چلاتا اور بدلتا رہتا ہے۔

بات یہ ہے کہ مغربی دنیا کے حکمران مذہب کی اہمیت کے نہیں بلکہ اس کی مخصوص قسم کی ’’افادیت‘‘ کے قائل ہورہے ہیں۔ مغربی دنیا کے پالیسی ساز حضرات اور ان کے انتظامی شعبوں کے اہلکار مسلسل اس بات کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ وہ منشیات کے عادی افراد کو اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی منشیات چھوڑنے پر مجبور نہیں کرپائے۔ وہ دنیاکی مؤثر ترین پولیس رکھنے کے باوجود بھی جرائم پرقابو پانے میں ناکام ہیں۔ مگر وہ دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی کوئی نوجوان یا بے راہ رو شہری اسلام یا کوئی اور مذہب قبول کرکے اس کی تعلیمات پر عمل کرنے لگتا ہے تو منشیات کا استعمال بھی ترک کردیتا ہے، جرائم کی دنیا سے بھی منہ موڑ لیتا ہے اور شراب پینا بھی چھوڑ دیتا ہے۔ گویا ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔ چنانچہ وہاں یہ خیال پیدا ہوچکا ہے کہ اگر مذہب ’’سماجی تنظیم‘‘ کے سلسلے میں مثبت کردار ادا کرسکتا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے، اور اس کے حوالے سے مذہب کی ایک افادیت ہے۔ گویا اُن کے نزدیک مذہب فی نفسہٖ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں لیکن چونکہ وہ سماجی تنظیم کے کام میں مدد دے سکتا ہے اِس لیے اس کی افادیت کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سماجی تنظیم کے قیام میں تو اور بھی بہت سی چیزیں مدد دیتی ہیں۔ مثلاً پولیس، فوج اور ذرائع ابلاغ وغیرہ… تو کیا اُن کے نزدیک مذہب کی اہمیت بھی انہی اداروں کے برابر ہے؟ جی ہاں! اس سے کم تو ممکن ہے مگر زیادہ نہیں۔ مغرب کی افادیت پسندی اس سے آگے نہیں جاتی، اور ان کا یہ رجحان زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہے بلکہ ہر شعبے کی قوتِ محرکہ ہے، یہاں تک کہ سائنس کی بھی۔

سائنس کا ذکرِ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا نے جس چیز کو مذہب اور خدا کا درجہ دیا ہے وہ سائنس ہے۔ صرف سائنس نہیں، آزاد سائنس۔ تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر آگے بڑھنے والی سائنس۔ تجربہ اور مشاہدہ سائنس کی آزادی کی علامتیں ہیں۔ ان کے نزدیک جو چیز سائنسی بنیادوں پر پوری نہیں اترتی وہ مسترد کردیے جانے کے لائق ہے، اور اگر یہ نہیں تو کم سے کم وہ مشتبہ تو ہے ہی۔ مگر سائنس کی آزادی کا دعویٰ بیشتر صورتوں میں ایک خوشنما جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ اُن کے اس آزاد گھوڑے کے منہ میں بھی افادیت پرستی کی لگام ڈالی جا چکی ہے اور اس کی پیٹھ پر سرمایہ دار سوار ہوچکا ہے۔ افادیت کا ایک وسیع تر تصور یہ ہے کہ وہ چیز جو انسانوں کے زیادہ سے زیادہ مفاد میں ہو۔ مگر مغرب میں سائنسی تحقیق زیادہ سے زیادہ انسانوں کے فائدے کے بجائے سرمایہ داروں کے زیادہ سے زیادہ فائدے کی نذر ہوگئی ہے۔ بیشتر صورتوں میں ایک انتہائی درجے کی ’’تجارتی سائنس‘‘ ہے کوئی آزاد علمی کاوش نہیں، جو فطرت کے سربستہ رازوں کو افشا کرنے کے لیے بروئے کار نہیں آرہی بلکہ سرمایہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کا نفسیاتی مسئلہ حل کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ مغرب میں عملی سائنس کی تحقیق اسی سمت میں سفر سے عبارت ہے اور اس سمت کی تبدیلی کا دور دور تک امکان نہیں۔ عملی سائنس کے اس سمت میں سفر کے انسانیت کے لیے کتنے ہولناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، ہمیں کیا خود مغربی دنیا کے عام افراد کو بھی اس کا اندازہ نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں عملی یا تجرباتی سائنس پر سرمایہ داروں کے قبضے کی نوعیت کیا ہے؟ اِس وقت مغربی دنیا میں 80 فیصد سائنسی تحقیق بڑی بڑی کارپوریشنوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے بڑے صنعت کاروں کے سرمائے سے ہورہی ہے۔ بظاہر یہ سائنس کی عظیم سرپرستی اور انسانیت کی عظیم تر خدمت ہے، مگر اس خوش نما لیبل کے نیچے صرف زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی خواہش اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے، اور یہ خواہش تحقیق کی سمت اور اس کے نتائج پر براہِ راست اثرانداز ہورہی ہے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ فرض کیجیے ایک تجربے پر کام کے دوران ایک درجن ممکنات (Probabilities) سامنے آئے۔ ان میں سے دو امکانات ایسے ہیں جو مزید تحقیق کے بعد سائنسی علم میں اضافے اور انسانیت کی بہتر خدمت کا سبب بن سکتے ہیں، جب کہ تین امکانات ایسے سامنے آئے ہیں جو بہت جلد کسی نہ کسی مصنوعہ (Product) کی صورت میں مارکیٹ میں آسکتے ہیں۔ عام طور پر سرمایہ فراہم کرنے والے حضرات مزید تحقیق کی اجازت نہیں دیتے، کیوں کہ اس میں سرمائے اور وقت دونوں کا زیاں ہوتا ہے، اور ممکن ہے کہ اس تحقیق کے بعد بھی اُن کے منافع کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکے۔ چنانچہ وہ محقق کو تجارتی امکانات بروئے کار لانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بلکہ ترغیب کیا دیتے ہیں، مجبور کرتے ہیں۔ چنانچہ محققین کی دادِ تحقیق صرف تجارتی اعتبار سے منافع بخش تحقیق تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ کسی ایک شعبے کی صورتِ حال نہیں ہے بلکہ تمام شعبوں کی یہی کیفیت ہے۔

یہ اس تحقیق کی سمت کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو وہ منصوبے ہیں جن کے مطابق آئندہ تحقیق ہوگی یا ہوچکی ہے۔ امریکی سائنسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق آئندہ پندرہ سال میں حیاتیات (Biology) اہمیت کے اعتبار سے کیمیا (Chemistry) کی جگہ لے لے گی۔ اس سلسلے میں سب سے حیرت انگیز (ہولناک) پیش رفت کی توقع جینیات (Genetics) کے شعبے میں متوقع ہے۔ وہاں کے سائنسی حلقوں میں اس وقت اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ ہمیں محنت کشوں میں کام کرنے کی ضرورت کے اعتبار سے حیاتیاتی تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا نہیں؟ مثلاً کیا ہمیں ایسے پائلٹ تیار کرنے چاہئیں جو عام پائلٹوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے React کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، یا یہ کہ ہمیں مستقل طور پر ایک ہی طرح کا کام کرنے والے محنت کشوں کی ذہنی ساخت کو ڈیزائن کرنا چاہیے یا نہیں؟ کیا ہمیں گاڑیوں کے اسپیئر پارٹس کی طرح اپنے لیے جسمانی اعضاء جیسے گردے، پھیپھڑے، جگر اور دل وغیرہ تیار کرنے چاہئیں؟ کیا ہمیں انسانوں کی ایک بہتر نسل تیار کرنی چاہیے؟ یہاں تک کہ وہاں اس امکان تک پر غور ہورہا ہے کہ کیا ہمیں غذا کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انسان کے نظامِ ہاضمہ کو حیوانات کے نظام ہضم کی طرح ڈیزائن کرنا چاہیے تاکہ انسان بھی گھاس پھوس پر گزارہ کرسکیں۔ یقین کیجیے یہ فکشن یا لطیفہ نہیں ہے۔ یہ مغرب کے سائنس دانوں میں زیر بحث سنجیدہ سوالات ہیں، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ان تمام کے امکانات بروئے کار آنے کا امکان موجود ہے، کیوں کہ یہ تجارتی طور پر سودمند ہیں۔ وہاں Clone فوج کے تصور تک پر بحث ہورہی ہے۔ Clone ایک انسان کے خلیوں کے ذریعے ایک جیسے بے شمار انسان پیدا کرنے کے تصور سے عبارت ہے۔ اگرچہ وہاں قانونی طور پر اس تجربے پر پابندی ہے مگر بعض اطلاعات کے مطابق غیر قانونی طریقے سے اس تجربے پر مسلسل کام ہورہا ہے۔

مغربی دنیا میں سائنسی تحقیق کی ہر سمت اور اس کے مختلف پہلو اپنی جگہ… مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس تحقیق سے جو ہم سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہورہی ہے اور جو پچاس سال کی تاخیر سے ہمِ تک پہنچے گی، ہمارا کیا تعلق ہے اور ہمارے لیے اس میں کیا پیغام مضمر ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سارے نظام مغرب سے ہی آئے ہیں۔ سیاسی نظام جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں اور جسے ہم مشرف بہ اسلام کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ معاشی نظام جسے ہم سود سے پاک کرنے اور اسلام کے معاشی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مسلسل تگ و دو کررہے ہیں۔ تعلیمی نظام جسے ہم اسلامیات کے نصاب کی شمولیت کے بعد اسلامی، اور مطالعہ پاکستان کے مضمون کی شمولیت کے بعد قومی سمجھتے ہیں۔ علم سے فلم تک ہر نظام مغرب ہی سے آیا ہے۔ سائنسی نظام بھی وہیں سے آیا ہے اور وہیں سے آئے گا۔ ہر نظام اپنے پورے ایجنڈے کے ساتھ آتا ہے۔آپ اس ایجنڈے میں تھوڑی بہت ترمیم و اضافہ کرسکتے ہیں مگر اس کے بنیادی نکات کو نہیں بدل سکتے۔ جس طرح انسان کا خمیر جس مٹی سے اٹھتا ہے بہت بدلنے کے باوجود بھی اس کی بو باس سے دامن نہیں چھڑا سکتا، اسی طرح نظام کا معاملہ بھی ہوتا ہے۔

مغرب نے کمرشل آرٹ کو پیدا کیا اور اب کمرشل سائنس کو پروان چڑھا رہا ہے۔ ہمارے یہاں جو کمرشل آرٹ آیا ہے تو اس کے تمام تقاضے ہمارے یہاں بھی وہی ہیں جو مغرب میں تھے۔ مغرب کی کمرشل سائنس بھی ہمارے یہاں آئے گی تو اس کے تقاضے بھی وہی ہوں گے جو مغرب میں ہیں۔ ہمارے یہاں بھی خیر سے سرمایہ دار پائے جاتے ہیں جو مغرب کے سرمایہ داروں سے ہزار گنا زیادہ منافع کے بھوکے ہیں۔ اُن سے کہیں زیادہ بے ایمان اور اُن سے کہیں زیادہ منافق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سائنسی تحقیق کے یہ پہلو جب ہم تک پہنچیں گے (اگر پہنچے) تو ان کے سلسلے میں ہمارا رویہ کیا ہوگا؟ اس نوع کی تحقیق کے بارے میں ہمارا مذہب کیا کہتا ہے؟ اور اگر کچھ کہتا ہے تو اس بات کے کتنے امکانات موجود ہیں کہ ہمارے سرمایہ دار اس کی پاس داری کریں گے؟ اسلامی اصولوں کی پاس داری کے سلسلے میں ہمارے سرمایہ داروں کا سابق ریکارڈ کیا کہتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

ایسا نہیں ہے کہ مغربی دنیا میں سائنسی تحقیق کی اس طرز اور اس کی اس سمت پر اعتراضات نہیں ہورہے۔

اہلِ فکر و نظر کا ایک مؤثر طبقہ اس کے خلاف منظم مہم چلا رہا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ دلیل کی قوت سرمایہ دار کے تجارتی مفاد کی قوت کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ یہ ایک اور کروڑ کا مقابلہ ہے جس میں ایک کی شکست یقینی نظر آرہی ہے۔ یہ ایک مرحلہ وار شکست ہے اور اس کے ابتدائی مرحلے طے ہوچکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو خوش گمانی ہے کہ ایک دن اس سلسلے میں ’’اخلاقی اصول‘‘ کو تسلیم کرلیا جائے گا۔ لیکن اس کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا، اور اگر کسی اخلاقی اصول کو تسلیم کیا گیا تو شاید اس کی نوعیت ویسی ہی ہوگی جیسی اہمیت مسٹر جارج بش اور مسٹر کلنٹن کے لیے مذہب کی ہے۔

ہمارے لیے یہ سوالات بڑے Futuristic ہیں، مگر بہرحال ہم مغربی تحقیق کی یہ طرز خواہ درآمد کریں یا اسے خود اپنے یہاں پیدا کریں، ہمیں ایک نہ ایک دن ان سوالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر ہم ان پر قبل از وقت غور کرلیں تو کیا برا ہے؟ ویسے ہماری عملی زندگی اس طرح کے سوالات کے جو جوابات فراہم کررہی ہے وہ ہمیں معلوم ہیں۔ آپ کو بھی معلوم ہوں گے۔