ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بلاک یا تحالف کسی محوری طاقت کے گرد بنتے ہیں، تو ہمارے سامنے نارتھ امریکہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (NAFTA) کی مثال ہے، جس میں مرکزی قوت امریکہ ہے۔ کونسل فارمیوچل اکنامک ایسوسی ایشن (COMECON) میں یہی مقام روس کا ہے، اور سائوتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کو آپریشن (SAARC) میں اس پوزیشن پر ہندوستان براجمان ہے۔ ان سبھی بلاکوں کی تہ میں اصل کارفرما خواہش قوت و اقتدار کی توسیع ہے۔ امریکی چاہتے ہیں کہ پورے شمالی اور جنوبی امریکہ پر وہ غالب رہیں۔ روسی مشرقی یورپ پر اپنے ماضی کے اختیار و اقتدار کا تسلسل چاہتے ہیں۔ ہندوستانی چاہتے ہیں کہ اگر وہ افسانوی اساطیری ہند۔ مہا بھارت۔ تخلیق نہ بھی کرپائیں تو کم از کم برطانوی ہند ہی دوبارہ وجود میں آجائے۔
کسی طاقت ور محور پر قائم ان بلاکوں کے برعکس چند اور تجارتی بلاک ہیں۔ مثلاً آسیان (ASEAN۔ دی ایسوسی ایشن آف سائوتھ نیشنز) اور تنظیم برائے معاشی تعاون و تعمیر(OECD) جو اپنے رکن ملکوں کو طاقتور ہمسایہ ممالک کے اثرات سے بچانے کے لیے وجود میں آئے، یعنی ایشیا میں جاپان سے اور یورپ میں جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے۔ لہٰذا علاقائی تحالف یا گروپنگ کوئی بے معنی تشکیل نہیں ہوتی۔ اس کی رکنیت کا فیصلہ کرتے ہوئے کچھ اور عوامل کے ساتھ ساتھ، دو اہم امور کو پیش نظر رکھنا چاہیے:
-1 شناخت کا عمل: کیا ہمارے قومی وجود کا تعین نظریہ کرے گا، یا یہ کہ ہم کس علاقے میں کہاں واقع ہیں اور کس قوم اور ملک سے کتنے قریب ہیں، جبکہ وہ ملک اور وہ قوم ہمارے وجود کے ہی منکر ہوں؟
-2 یہ علاقائی بلاک مستقبل میں کیا شکل اختیار کریں گے؟ اگر کوئی بلاک یا ہیکل ہمیں اندر کھینچ کر جذب کرلے، تو ہمارا کیا بنے گا!
چنانچہ یہ علاقائی گروپ محض تجارت اور اشیا کے مبادلے کا نام نہیں، اس کی ایک اپنی منطقی حرکیت بھی ہے، جس پر مستزاد بڑی محوری طاقت کے خوفناک جغرافیائی ارادے ہیں، جن کا حلیف بننے والی چھوٹی طاقتوں کو اندازہ لگانا ہوگا کہ آخری حساب میں نفع نقصان کا میزانیہ کیا بننے جارہا ہے؟
ایک قوم جو کسی کے ساتھ مل کر تجارتی بلاک بنانا چاہتی ہے، وہ پہلے اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کا تحالف اس سے ملتی جلتی قوموں سے ہورہا ہے، تاکہ اگر کبھی مائل بہ مرکز (Centripetal) بہائو اسے اپنے اندر کھینچ بھی لے، جس کا سیاسی ڈھانچہ اس سے مختلف نہ ہو، تو اس کا یہ ادغام اس کی موت نہیں ہوگا بلکہ ایک حیات بخش وجودیت کا پیغام ہوگا۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کا جغرافیہ مغرب کی طرف پھیلتا اور وسیع ہوتا ہے، اور یہ ملک بلا انقطاع مسلم ممالک سے جڑا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں اسے علاقائی گہرائی (Depth) بھی ملتی ہے اور دوست مسلم اقوام سے رابطہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
ہم مغرب اور وسطی ایشیا میں مسلم اقوام سے مل کر بلاک بنائیں تو یہ ہمارے لیے محض بقا سے بھی زیادہ حیات بخش اقدام ہوگا۔ جبکہ سارک میں رہ کر ہم ہندوستان کی سیکولر غیر مسلم گود میں ایسے ہی بے بس ہوں گے، جیسے کسی سربند گنبد میں محصور کوئی انسان۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سارک کے متعلق خود ہندوستانی سوچ بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کہ وہ اسے کیسے دیکھتی ہے۔ ہندوستانی، سارک کو 1947ء سے پہلے کے برطانوی ہند کا متبادل سمجھتے ہیں، ایک ایسا سانچا جس میں ڈھل کر بنگلہ دیش، پاکستان اور سری لنکا ایک کنفیڈریشن کے اندر نئی شکل اختیار کریں گے۔ یہ ثقافتی رابطے اور تجارتی تعلقات اس کنفیڈریشن کا نقطہ آغاز ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ موجودہ یک قطبی دنیا جس پر امریکہ اور اس کے اتحادی حاوی ہیں، مسلمانوں کے مناسبِ حال نہیں۔ مغرب نے بوسنیا کو عددی کھیل سے دوچار کرکے ایک مضحکہ خیز اور ظالمانہ سیاسی دروبست میں پھنسالیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ بوسنیا کی مسلمان آبادی صاحبِ اختیار ہونے کے بجائے بالکل بے دست و پا ہوگئی۔ لیبیا ایک عرصے سے محاصرے کی کیفیت میں رہا۔ یہی حال ایران اور سوڈان کا ہے (اور آخرکار سوڈان کو تقسیم کرکے دم لیا)۔ عراق کا حشر سب کے سامنے ہے، کل کو پاکستان یا کسی اور مسلمان ملک کی باری آسکتی ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں یکجائی کی کوئی صورت پیدا کرنی ہوگی، قبل اس کے کہ ان کے ہر ٹکڑے کو یکہ و تنہا کرکے اس کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جائے۔
(”سیکولرزم، مباحث اور مغالطے“-طارق جان)
مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔