کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ جی ہاں فلسطین میں بھی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے اور کوئی ایک نہیں بلکہ تاریخ کے کئی ابواب کے اوراق ہمیں دعوت نظارہ دیتے محسوس ہوتے ہیں، اسلام کی دعوت کا اولین دور تھا، کفار داعی اعظمؐ کی دعوت کا جواب دلیل سے دینے سے قاصر تھے، چنانچہ انہوں نے جبر کا راستہ اختیار کیا، رسول رحمتؐ اور ان کے اہل خاندان کو ایک گھاٹی، جس کا نام ہی اس محاصرہ کی وجہ سے شعب ابی طالب پڑ گیا، میں محصور کر دیا گیا اور محصورین کا رابطہ پوری دنیا سے منقطع کر دیا گیا، ان کے لیے خوراک اور دیگر ضروریات کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ محصورین جسم اور جان کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے درختوں کے پتے اور سوکھا چمڑہ پانی میں بھگو کر کھانے پر مجبور ہو گئے، مگر ظالموں کو رحم آنا تھا نہ آیا۔ آج غزہ میں کیا مجبور بے بس اور محصور مسلمانوں کو یہی کیفیت درپیش نہیں، جن کا کھانا، پانی حتیٰ کہ ادویات تک کوبند کر دیا گیا ہے اور دور حاضر کی ’مہذب دنیا‘ ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم، یہ سب ظلم اور جبر ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ دنیا میں امن کے ٹھیکیدار اور انسانی حقوق کے علم بردار کھلم کھلا ظالم و جابر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں، اور کسی شرم و حیا کے بغیر اسے ہر طرح کی مدد فراہم کر رہے ہیں…!!!
تاریخ کا ایک ورق اور الٹیے تو غزوۂ احزاب کا منظر ہمارے سامنے آ جاتا ہے، جب عالم عرب کی اس وقت کی تمام باطل طاقتیں اور قبائل اسلام کی چھوٹی سی مگر ابھرتی ہوئی ریاست مدینہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے متحد ہو کر مدینہ پر چڑھ دوڑی تھیں اور اہل حق کو جان جوکھوں میں ڈال کے مدینہ کے گرد خندق کھود کر اپنی حفاظت کی تدبیر اختیار کرنا پڑی تھی، آج بھی غزہ خشکی کا ایک ایسا خطہ ہے جو اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک سینڈوچ کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ اسرائیل نے سالہا سال سے اس کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ’دی ہیومن رائٹس واچ‘ نے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کا نام دیا ہے، اسرائیل کی فوج 2007ء سے اس کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کو غزہ میں آمدوروفت کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ غزہ سے باہر کے تمام راستے حتیٰ کہ ملحقہ ساحلی پٹی بھی جبری اسرائیلی تسلط میں ہے، اس وقت حالات کے جبر کے تحت غزہ دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے، تیئس لاکھ آبادی کے اس خطہ میں تقریباً دس لاکھ بچے ہیں جن کی عمریں پندرہ برس سے کم ہیں اور یہ مجموعی آبادی کا چالیس فیصد ہیں، کل آبادی کا اسی فیصد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ یہاں بے روز گاری بھی عروج پر ہے۔ برسوں سے اسرائیلی ظلم و ستم کا شکار یہ خطہ آج کل بدترین حالات سے دو چار ہے اور وہاں غزوہ احزاب کا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت لشکر کفار کے جنگجو تیروں کی بارش محصورین مدینہ پر کرتے تھے تو آج کل اسرائیلی جنگی طیارے اور توپخانہ صبح شام گولہ بارود کی برسات میں مصروف ہیں، جس سے بچے، بوڑھے اور عورتین محفوظ ہیں نہ مساجد اور ہسپتال… غزہ کے محصور اور محدود خطے کے پاس اپنے دفاع کے لیے فوج ہے، نہ ٹینک اور نہ بمبار طیارے… مگر حماس کے مجاہدین اس بے سرو سامانی کے باوجود جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں غزوۂ احزاب میں بھی باطل کی تمام طاقتیں متحد ہو کر مدینہ کی ریاست کو مٹانے کے لیے حملہ آور تھیں اور آج بھی امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی دیگر تمام قوتیں اسرائیل کی سرپرستی اور حماس کو کچلنے کے دعوے کر رہی ہیں ایک فرق… نمایاں فرق … تب اور اب میں شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد نہایت قلیل تھی جو مال و اسباب اور آلات حرب کے معاملہ میں بھی تہی دامنی کی شکار تھی مگر آج دنیا میں دو ارب کے قریب مسلمان آباد ہیں، ان کے پاس مال و اسباب کی بھی کوئی کمی نہیں اور آلات حرب کے حوالے سے بھی ہر طرح کے جہاز اور میزائل حتیٰ کہ ایٹم بم بھی دستیاب ہے چالیس سے زائد ملکوں کی ایک اسلامی فوج، بھی چند برس قبل تشکیل دی گئی تھی، عرب لیگ بھی ہے اور اسلامی تعاون تنظیم بھی… مگر وائے ناکامی۔ یہ سب خاموش تماشائی بنے اپنے بھائیوں کو شہید ہوتے، میتیں اٹھاتے، بھوک سے ترپتے ادویات، پانی اور خوراک کو ترستے دیکھ رہے ہیں مگر کچھ کرنے پر تیار نہیں۔ زبان ہلانے سے قبل بھی سو بار سوچتے ہیں کہ کہیں ’آقاؤں‘ کو ناگوار نہ گزرے… رسول رحیم و کریم نے ’’وہن‘‘ کی جس بیماری کا تذکرہ فرمایا تھا، آج کے مسلمان خصوصاً ان کے حکمران یقینا اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں…!!!
ایک تیسرا منظر تاریخ کے اوراق میں کربلا کا بھی ہے، جب نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسینؓ اپنے بچوں اور عورتوں سمیت کل بہتر نفوس کے ساتھ حق کا علم لے کر میدان کارزار میں نکلے تھے اور یہ نعرہ مستانہ بلند کیا تھا کہ: ؎
سر تیرا کٹ کے جا لگے نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی تو بیعت نہ کر قبول
حماس کے بے سر و سامان مجاہدین آج امام حسینؓکی اس سنت کو زندہ کیے ہوئے ہیں، اپنوں اور پرایوں کی بے وفائی اور ہر طرح کی جفا کے باوجود میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں ، بچوں اور عورتوں کے لاشے کندھوں پر اٹھائے تکبیر کے نعرے بلند کر رہے ہیں اور لازوال قربانیوں کی داستانیں رقم کر رہے ہیں کہ:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
عالمی امن و انصاف کی علم بردار قوتوں کے ظالمانہ طرز عمل اور مسلمان حکمرانوں کے مصلحت آمیز رویوں سے مایوس ہونے کے بجائے، حماس کے مجاہدین اس یقین سے سرشار جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں کہ: ؎
کیا غم ہے جو ساری خدائی بھی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، اسرائیل کا انجام بھی انشاء اللہ قریب ہے وہ دن دور نہیں جب فلسطینی مظلوم، مجبور اور محصور مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی دعائیں سنی جائیں گی۔ معصو م بچوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔ ظالم کیفر کردار کو پہنچیں گے۔ حق اور انصاف کا بول بالا ہو گا۔ ان شاء اللہ…!!!
حامد ریاض ڈوگر