دیارِ مغرب کے مسلمان خطبات و نگارشات

اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ بنیادی طور پر ایک تھنک ٹینک ہے، جس کا مقصد پاکستان اور عالمِ اسلام میں مکالمے اور بات چیت کے ذریعے معاشرے کو درپیش سلگتے ہوئے مسائل کا حل پیش کرنا ہے۔ انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، تکثیریت، معاشرتی و ثقافتی تنوع، جمہوریت، مسلم معاشرے، مغرب اور دورِ جدید کے دیگر ایسے اہم عنوانات پر تحقیق اور ان کے حوالے سے مکالمہ اس ادارے کے اہم موضوعات ہیں۔ بین المذاہب و بین المسالک، مذاہب کے درمیان باہمی تعلقات کا فروغ، تشدد اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اقدامات اور حکمتِ عملی بھی اس ادارے کے دائرۂ موضوعات میں شامل ہیں۔

’’دیارِ مغرب کے مسلمان‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے مصنف علامہ ابوعمار زاہد الراشدی مدظلہ العالی ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے درمیان مولانا زاہد الراشدی جیسے جلیل القدر عالم و فقیہ موجود ہیں جو درج بالا سوالات پر نہ صرف یہ کہ علمی پہلو سے غور و فکر کرتے ہیں بلکہ ان مسائل و سوالات کا جامع حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب مولانا زاہد الراشدی کی اُن نگارشات و مضامین کا مجموعہ ہے جو آپ کے مغربی ممالک کے اسفار کے دوران پیش آنے والے مشاہدات و تاثرات پر مبنی ہیں۔ اسلوبِ تحریر اتنا سادہ اور دل نشین ہے کہ قاری ان تحریروں کو پڑھتے ہوئے ایک خوش گوار حیرت سے دوچار رہتا ہے اور کہیں بھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔ دین اور کلچر کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی صاحب نے نہایت دل نشین انداز اختیار کیا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’میرے نزدیک مغربی دنیا اور غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں اہلِ علم و دانش کی علمی تگ و تاز کا تیسرا دائرہ دین اور کلچر کے درمیان فرق کو سمجھنے اور اسے حکیمانہ اسلوب کے ساتھ سمجھانے کا ہے۔ دین و مذہب کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے جب کہ کلچر علاقائی تعلقات، ضروریات اور باہمی مفادات کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور اس میں علاقائی ماحول، آب و ہوا اور موسمی صورتِ حال کا دخل ہوتا ہے۔ اسلام خود کو نہ کسی علاقائی کلچر کا تابع اور پابند بناتا ہے، نہ ہی وہ اس کلچر کی مکمل نفی کرتا ہے۔ اس بارے میں اسلام کا طرزِ عمل’’صحیح بات جہاں سے ملے، لے لو‘‘ کا ہے۔‘‘

ڈاکٹر حسن الامین لکھتے ہیں: ’’آپ ایک معتدل مزاج عالم دین ہیں۔ آپ کا شمار گنتی کے اُن چند رجالِ کار عالمِ دین میں ہوتا ہے جو اصلاً روایتی مکتب ِفکر کے ترجمان و نمائندہ ہونے کے باوجود معاصر موضوعات اور جدید مسائل و سوالات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ آپ مغرب میں مسلمانوں کے دینی تشخص کے حوالے سے توجہ مبذول کراتے ہوئے ایک نوجوان کی مشکل کو زیر بحث لاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میں برطانیہ کے سفر کے دوران ایک روز لندن سے بذریعہ ٹرین مانچسٹر جارہا تھا۔ ایک نوجوان میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور پوچھا کہ کیا آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہاکہ لوگ یہی کہتے ہیں۔ اس نے کہاکہ آپ اجتہاد کرسکتے ہیں؟ میں نے کہاکہ آپ کی پرابلم کیا ہے؟ اس نے کہاکہ اگر آپ کے پاس اجتہاد کی اتھارٹی ہے تو میں اپنی ایک مشکل آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہاکہ اتھارٹی کی بات چھوڑو، مسئلہ بتائو۔ اگرمیری سمجھ میں آگیا تو کوئی نہ کوئی حل بتادوں گا۔ کہنے لگا کہ میں بحمداللہ مسلمان ہوں اور نماز پابندی سے پڑھتا ہوں، لیکن یہاں مجھے یہ مشکل درپیش ہے کہ ملازمت کے اوقاتِ کار کی وجہ سے ظہر اور عصر کی نماز کے لیے وقت نہیں ملتا جس کا حل میں نے یہ نکالا ہے کہ ظہر کی نماز صبح فجر کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں اور عصر کی نماز شام کو مغرب کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔ اس نوجوان کے ذہن میں اجتہاد کا مطلب ’’صوابدیدی اختیار‘‘ تھاکہ جس طرح مسیحیت میں پاپائے روم کو دینی احکام کی تعبیر و تشریح میں صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں، شاید مسلمان علما کے پاس بھی اس طرز کا کوئی صوابدیدی اختیار ہوتا ہوگا، اس لیے اگر اس اتھارٹی کے حامل کوئی مولانا صاحب مجھے اجازت دے دیں تو میرا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

میں اُسے اس مختصر ملاقات میں یہ تو نہیں سمجھا سکا تھا کہ اجتہاد کسی صوابدیدی اختیار کا نہیں، بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں کسی مسئلے کا حل نکالنے کے لیے علمی کاوش کا نام ہے اور اس کے کچھ اصول و قواعد ہیں جن کے دائرے میں رہ کر ہی اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ اس قسم کی بحث اُس کے سر کے اوپر سے گزر جائے گی اور میں اُسے مزید کنفیوژ کردوں گا۔ اس لیے میں نے اسی کی ذہنی سطح پر اُس سے بات کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور یہ کہاکہ برخوردار! میں اس مسئلے میں ففٹی ففٹی اجتہاد کرسکتا ہوں۔ اس طرح کہ عصر کی جو نماز آپ مغرب کے ساتھ پڑھتے ہیں، مجبوری کے درجے میں اس کی اجازت دے سکتا ہوں کہ قضا ہوگی لیکن نماز ہوجائے گی، مگر ظہر کی نماز پیشگی فجر کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس لیے میرا مشورہ ہے کہ اگر اس درجے کی مجبوری ہے تو عصر کے ساتھ ظہر کی نماز بھی مغرب کے وقت میں پڑھ لیا کرو کہ دونوں نمازیں قضا کی صورت میں ہوں گی، لیکن نماز ہوجائے گی، اور اس کے ساتھ ساتھ کوشش کرتے رہو کہ تمہیں دفتری اوقات کے دوران نماز پڑھنے کی اجازت مل جائے یا کوئی ایسی متبادل ملازمت مل جائے کہ تم یہ نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کرسکو۔

یہ مغربی دنیا کے ماحول میں ایک ایسے مسلم نوجوان کی پرابلم تھی جو نماز پابندی سے پڑھنا چاہتا تھا اور اس سلسلے میں درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہا تھا، ورنہ عام طور پر اس طرح کی مشکل دیکھ کر بہت سے لوگ نماز ہی ترک کردیتے ہیں، اور صرف نماز کا مسئلہ نہیں بلکہ عبادات و فرائض، حلال و حرام اور تعلقات و معاملات کے بیسیوں پہلو ایسے ہیں جن میں روزمرہ ضروریات کے ساتھ شرعی احکام کو ملحوظ رکھنا مشکل دکھائی دیتا ہے، تو مشکل کا حل تلاش کرنے کی تگ و دو کے بجائے سرے سے شرعی احکام کی پابندی چھوڑ دی جاتی ہے، اور یہی رویہ بتدریج دین سے انحراف اور ایک دو نسلوں کے بعد اسلام سے لاتعلقی کی باعث بن جاتا ہے۔ مجھے برطانیہ، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں جاتے ہوئے ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ کم و بیش ہر سال جانے کا اتفاق ہوتا ہے، ہفتوں وہاں رہتا ہوں، مختلف شہروں میں گھومتا پھرتا ہوں، دینی اجتماعات اور مسلمان بھائیوں کی تقریبات میں شریک ہوتا ہوں، دینی مدارس کے مشاورتی اجتماعات میں بھی شرکت کرتا ہوں، اور اس طرح مجھے مسلمانوں کے حالات و واقعات سے براہِ راست واقفیت کا موقع ملتا رہتا ہے۔ صحیح دینی راہ نمائی میسر نہ ہونے اور دین سے لاتعلق ہوتے چلے جانے کے نتائج خاص طور پر امریکہ میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

نگارشات یہ ہیں:

’’مغرب کے مسلمانوں کا دینی تشخص: چند اہم پہلو‘‘، ’’مغرب میں مقیم مسلمانوں کے لیے دینی لائحہ عمل‘‘، ’’مغربی ممالک میں مسلمانوں کی نئی نسل کا مستقبل‘‘، ’’شرعی قوانین اور برطانیہ کا قانونی نظام‘‘، ’’شریعہ بورڈ آف امریکہ‘‘، ’’برطانوی مسلمان اور مسٹر ڈیوڈ کیمرون کے خیالات‘‘، ’’جبری شادیاں اور برطانیہ کی مسلم کمیونٹی‘‘، ’’مغربی معاشرے میں دعوت و مکالمہ کے امکانات‘‘، ’’مغربی ممالک میں اصلاحِ معاشرہ اور مسلمانوں کی ذمہ داری‘‘، ’’برطانیہ میں مسلم فرقہ واریت کے اثرات‘‘، ’’مسلمانوں کے باہمی اختلافات: ایک نومسلم کے تاثرات‘‘، ’’امریکہ میں رویتِ ہلال کا مسئلہ‘‘، ’’برطانیہ میں مساجد کا نظام: چند اصلاح طلب پہلو‘‘، ’’مغربی ممالک میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم‘‘، ’’مغربی معاشرے میں دینی تعلیم‘‘، ’’دینی مدارس کا تعلیمی نصاب: چند ناگزیر جدید تقاضے‘‘، ’’مسلمان ملکوں پر مغربی طاقتوں کی فوج کشی‘‘، ’’مغربی ممالک کی پالیسیاں اور مسلمانوں کا ردعمل‘‘، ’’نائن الیون: لندن میں علما کا مشترکہ اعلامیہ‘‘، ’’نائن الیون کے برطانوی مسلمانوں پر اثرات‘‘، ’’فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت‘‘، ’’مسلم خواتین، حجاب اور ردعمل‘‘، ’’امریکی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردارکشی‘‘، ’’اسلام اور شہری حقوق و فرائض غیر مسلم معاشرے کے تناظر میں‘‘

خطبات: ’’امریکہ میں لکڑ ہضم، پتھر ہضم معاشرہ‘‘، ’’امریکہ میں مقیم مسلمانوں سے چند گزارشات‘‘، ’’مسلم پرسنل لا اور موجودہ عالمی صورتِ حال‘‘، ’’بچیوں کی تعلیم اور نصابِ تعلیم‘‘، ’’عصرِ حاضر کے چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں‘‘، ’’فکری بیداری کے مختلف دائرے اور ہماری ذمہ داری‘‘، ’’دورِ جدید کے فکری تقاضے اور علمائے کرام‘‘، ’’انسانی حقوق کا چارٹر اور مسلماوں کے تحفظات‘‘، ’’نفاذِ شریعت اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمان‘‘

مولانا زاہد الراشدی نے اپنی کتاب میں دیگر اپنے ہم عصر اہلِ علم کو بھی اس جانب متوجہ کیا ہے کہ وہ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات کا خالصتاً علمی اور تہذیبی بنیادوں پر جائزہ لیں۔ قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں ان کا حل تلاش کریں اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی علمی و فکری راہ نمائی کریں۔

یہ مضامین و خطابات کسی ایک موضوع پر مرتب و مربوط انداز میں خیالات کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کے بارے میں مختلف النوع مسائل و مشکلات اور مغرب کے حوالے سے عالمِ اسلام کو درپیش چیلنجز کے بارے میں مختلف مواقع اور مقامات پر کی گئی گفتگو اور تحریر کیے گئے تاثرات و احساسات کا مجموعہ ہیں۔ مغرب میں مقیم مسلمانوں کو غیر معمولی صبر اور دوراندیشی کی ضرورت ہے، مگر اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے متعلق غلط فہمیوں، تعصبات اور شکوک کو دور کرسکیں۔ مغربی معاشرہ جن مسائل سے دوچار ہے ان کے حل کے لیے بھی کوشاں رہنا چاہیے، کیوں کہ اب وہ بھی اسی معاشرے کا لازمی جزو ہیں۔
مصنف کی یہ نگارشات بہت ہی پُراثر اور نہایت ہی اچھے خیالات کی عکاسی کرتی ہیں جن کو عمل میں لاکر مغرب کے مسلمان ایک مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں جن کی انہیں ضرورت بھی ہے۔
پیلے گلیزڈ کاغذ پر کتاب بہت ہی خوب صورت اور اچھی طبع ہوئی ہے، قیمت بھی نہایت مناسب ہے۔