فریضہ اقامتِ دین کے لیے دن رات ایک کرنے والے، اپنے قلم سے تحریک کی جدوجہد کو آگے بڑھانے… خبروں ہی نہیں، رپورٹس اور مضامین کے ذریعے بھی اس جادئہ حق کے لیے سرگرم عمل کنور محمد صدیق ایک اچھے، مخلص اور مستقل مزاج ساتھی تھے جو اپنے رب کے حضور چلے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
کنور محمد صدیق جماعت اسلامی ملتان کے مخلص اور مستقل مزاجی سے کام کرنے والے ساتھی اور شعبہ نشر و اشاعت ملتان کی جان تھے۔ نشر و اشاعت کی ذمہ داری کی ادائیگی کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا اور پہچان بنایا، اور ایک وقت آیا کہ وہ اور نشرواشاعت لازم و ملزوم ٹھیرے۔ وہ سندھ کے ضلع سانگھڑ سے ملتان منتقل ہوئے تھے۔ ویسے وہ تحصیل میلسی ضلع وہاڑی کے ایک گاؤں فتح پور سے آبائی تعلق رکھتے تھے، لیکن ملتان ان کی پہچان بن گیا۔
فریضہ اقامتِ دین کے باکمال کارکن اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک کنور محمد صدیق ٹنڈوآدم ضلع سانگھڑ میں رہے۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔ اسلامی جمعیت طلبہ ضلع سانگھڑ کے ناظم رہے۔ متحرک، فعال اور بیدار مغز ساتھی تھے۔ اپنی محنت، جانفشانی اور جدوجہد سے آگے بڑھے۔ رکن جماعت بھی ادھر ہی بنے اور پھر کونسلر بھی منتخب ہوئے تھے۔ کونسلر منتخب ہونے کے بعد کاموں کے سلسلے میں خصوصی جدوجہد کی، اداروں کے ساتھ مؤثر رابطہ رکھا، لیکن پھر کچھ عرصے بعد ملتان آگئے۔
وہ زیادہ تر وقت دفتر جماعتِ اسلامی میں گزارتے، جہاں خبر بناتے اور اسے جاری کرتے۔ فیکس کرنے کے بعد ایک بار وہ موٹر سائیکل پر اخبارات کے دفاتر ضرور جاتے اور کنفرم کرتے کہ خبر پہنچ گئی ہے۔ اس طرح خبر کی اشاعت یقینی ہوجاتی۔ اگلے روز تمام اخبارات ملاحظہ کرتے اور فون کرکے نمائندگان کو فیڈبیک دیتے بھی اور لیتے بھی۔ یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب راؤ ظفر اقبال امیر ضلع ملتان تھے اور کنور محمد صدیق ضلعی ناظم نشرواشاعت۔ ان دنوں وہ دوپہر سے قبل دفتر آجاتے، تمام اخبارات دیکھتے، موضوع کا انتخاب کرتے، امیر ضلع سے مشورہ کرتے، خبر بناتے اور شام تک جاری کردیتے۔
اس کے بعد وہ مرکزی کوآرڈی نیٹر نشرواشاعت مقرر ہوئے اور پھر مرکز کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کے کوآرڈی نیٹر بھی بن گئے۔ اس کام کو انہوں نے کئی سال تک نبھایا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے آدمی تھے، جب تک اپنا کام مکمل نہ کرلیتے اِدھر اُدھر نہ ہوتے۔ انہوں نے صحافت کی کوئی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی تھی البتہ محنت، جستجو اور لگن سے وہ سب کچھ سیکھ لیا جو ایک پیشہ ور صحافی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ خبر بنانے اور اس میں جان ڈالنے کے فن میں بھی طاق ہوگئے تھے۔
جب بھی مرکز یا صوبے سے امیر جماعت یا امیرصوبہ آتے کنور صدیق صاحب کے جوہر کھلتے۔ قاضی حسین احمد، سید منور حسن، لیاقت بلوچ، حافظ محمد ادریس، ڈاکٹر وسیم اختر یا کوئی دوسرے ذمہ داران آتے تو وہ پریس کانفرنس رکھتے اور کامیاب پریس کانفرنس کرواتے۔ خبر بناتے جس میں تمام نکات جن پر گفتگو ہوئی ہوتی۔ شامل کرتے۔ اخبارات اور چینلز کو بھیجتے اور شائع بھی اچھے انداز میں کروا لیتے۔ اور پھر اخبارات اور چینلز کا جائزہ لیتے، جائزے سے ذمہ داران کو بھی آگاہ کرتے اور خود بھی رابطہ کاری کرتے۔
اسلامی جمعیت طلبہ اور اس کے ذمہ داران دورے پر آتے تو ان کا تعاون مثالی ہوتا۔ وہ خبر بناتے اور چھپوانے میں بھرپور تعاون کرتے تھے، اور کارکنان جمعیت کی رہنمائی کا سامان کرتے۔
ان کی صحافتی خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی، انہوں نے اپنا وقت تحریک کے لیے وقف کیا، اپنے قلم سے ملتان ہی نہیں جنوبی پنجاب میں تحریک کی آبیاری کی۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ان کی نمایاں کارکردگی نے جماعت اسلامی ملتان اور جنوبی پنجاب کے لیے جگہ پیدا کی۔ جماعت اسلامی کی کوئی سرگرمی ہوتی یا ملّی یکجہتی کونسل کی… ان کا تحرک دیکھنے والا ہوتا۔ اور رابطہ کاری میں انہوں نے نئے نقوش رقم کیے ہیں۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ آنے والوں کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔
جامع العلوم ملتان میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس میں قائدین و کارکنانِ جماعت کی کثیر تعداد، ٹی وی چینلز اور اخباری نمائندگان اور معززینِ شہر نے شرکت کی۔ ڈاکٹر صفدر ہاشمی نے اس موقع پر تذکیر فرمائی اور نماز جنازہ کی امامت مولانا عبدالرزاق مہتم جامع العلوم نے کی۔ نمازِ جنازہ میں امیرجنوبی پنجاب راؤ محمد ظفر، قیم صوبہ صہیب عمار صدیقی، مرکزی ناظم نشرواشاعت قیصر شریف، نائب قیم ڈاکٹر عرفان اللہ ملک، سابق امیر ضلع میاں منیر بودلہ، راؤ محمد ظفراقبال اور صدر تنظیم اساتذہ پروفیسر الطاف لنگڑیال، کنور صدیق کے بھائی راؤ محمد رفیق اور بیٹے کامران راؤ اور ریحان راؤ بھی موجود تھے۔
کنور صاحب اچھی متحرک زندگی گزار کر اپنے رب کے پاس چلے گئے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور اعلیٰ علیین سے نوازے، آمین۔