فیفا ہر برس ترقی پذیر ممالک کو ایک گرانٹ پیسوں کی صورت میں عطا کرتا ہے، اگر ان پیسوں کا درست استعمال کیا جائے تو پاکستان کی فٹ بال ٹیم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا
پاکستان فٹ بال کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان نے اسلام آباد کے جناح اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے فیفا ورلڈ کپ کوالیفائنگ رائونڈ کے میچ میں کمبوڈیا کو ایک صفر سے شکست دے دی۔75برس بعد پاکستان نے فیفا ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راونڈ کے دوسرے مرحلے کے لیے کوالیفائی کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔گزشتہ روز پاکستان اورکمبوڈیا کے درمیان فیفا ورلڈ کپ 2026ء کے کوالیفائی میچز کھیلے گئے تھے۔ پہلا میچ 12اکتوبر کو کمبوڈیا میں کھیلا گیا جس کا کوئی نتیجہ نہیں مل سکا۔ اس کے بعد پاکستان نے 8 برس بعد 17اکتوبر کو جناح اسٹیڈیم میں میچ کھیلا جس میں اس نے کمبوڈیا کو شکست دے دی۔ میچ کا واحد گول 19سالہ پاکستانی کھلاڑی ہارون حامد نے 67 ویں منٹ میں کرکے پاکستان کے لیے شاندار کامیابی کو ممکن بنایا۔ اس سے قبل پاکستان آج تک فیفا ورلڈ کپ کوالیفائنگ رائونڈ میں نہیں پہنچ سکا تھا۔ واضح رہے کہ پاکستان 1989ء سے فیفا ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ میچز کھیل رہا ہے۔ اب پہلی بار پاکستان کوالیفائنگ رائونڈ کے دوسرے مرحلے کے میچز کھیلے گا۔
1947ء میں قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی بنیاد رکھی تھی اور وہ اس کے پہلے سرپرستِ اعلیٰ تھے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ فٹ بال جیسا کھیل جو ساری دنیا میں بے حد مقبول ہے پاکستان اس کی عالمی رینکنگ میں 197ویں نمبر پر ہے کیونکہ پاکستان فٹ بال ہمیشہ سے ہی سیاست کی نذر رہی ہے۔ اب پاکستان فیفا ورلڈ کپ کے دوسرے مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔ فیفا ورلڈ کپ اور اے ایف سی ایشین کپ جو 2027ء سعودی عرب میں ہوگا اس کے مشترکہ کوالیفائرز کے دوسرے رائونڈ کے تین میچز کی پاکستان کو میزبانی کرنی ہے۔21نومبر کو تاجکستان، اگلے برس 21 مارچ کو اردن، اور 6جون کو سعودی عرب سے میچ شیڈول کا حصہ ہیں۔ ویسے پاکستان میں ابھی تک کوئی ایسا اسٹیڈیم موجود نہیں جو فیفا کے عالمی معیار پر پورا اترسکے۔ لیکن اگر پاکستان اسپورٹس بورڈ عملی کوشش کرے تو اسلام آباد کا جناح اسٹیڈیم ان میچز کی میزبانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کراچی، لاہور اور باقی علاقوں میں ایسے فٹ بال اسٹیڈیم ہی نہیں جو عالمی میچز کی میزبانی کے فیفا اور اے ایف سی کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔ صرف جناح اسٹیڈیم ہی ایسا ہے جہاں ان مقابلوں کا انعقاد ممکن ہوسکتا ہے مگر وہ بھی دن کی روشنی میں، کیونکہ یہاں بھی لائٹ کے بے پناہ مسائل ہیں۔ اس اسٹیڈیم کو اَپ گریڈ کرنے کی ذمہ داری بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔
فیفا ورلڈ کپ 2026ء میں کینیڈا، امریکہ اور میکسیکو میں کھیلا جائے گا، جس کے کوالیفائنگ رائونڈ کا آغاز ہوگیا ہے۔ پاکستان بھی اب ان کوالیفائنگ میچز کا حصہ بن گیا ہے۔ پاکستان کا گروپ جی ہے جس میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، اردن اور تاجکستان شامل ہیں۔ پاکستان کو ان ممالک کی میزبانی بھی کرنی ہے اور ان سب کے ساتھ کھیلنا بھی ہے۔ فیفا کوالیفائنگ رائونڈ میں کُل 9گروپ ہیں، ہر گروپ میں 4 ٹیمیں ہیں، اور ہر گروپ سے 2 ٹیمیں آگے پہنچیں گی۔ پاکستان میں فٹ بال کے شائقین اس بات پر بہت زیادہ خوش ہیں کہ بہت عرصے بعد پاکستان فٹ بال ٹیم کے میچز دیکھنے کو ملیں گے۔ اس سے قبل فیفا نے پاکستان فٹ بال ٹیم پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس لیے جو پیش رفت ہوئی ہے اور ہم کوالیفائنگ رائونڈ کا حصہ بنے ہیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا پاکستان فٹ بال ٹیم کے کوچ اسٹیفن کے سر جاتا ہے جو میچ سے 12دن قبل ہی ٹیم کے کوچ مقرر ہوئے ہیں، اور اُن کی شمولیت نے ہماری فٹ بال ٹیم کے معاملات کو بہت بہتر بنادیا ہے۔ اسٹیفن اس سے قبل بھارت کے کوچ رہ چکے ہیں اور انہوں نے بھارت کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اور ان ہی کی بدولت بھارت عالمی درجہ بندی میں 174 سے 96 نمبر پر آگیا۔ ایک انٹرویو میں پاکستانی کوچ نے کہا کہ پاکستان میں فٹ بال کی جو حالت ہے اس طرح کی حالت میں نے 19ویں صدی میں بھی نہیں دیکھی۔ پاکستان میں فٹ بال کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہے اور ہمارے پاس کوئی لیگ بھی موجود نہیں۔ ہمارے کھلاڑی ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور دوسرے ممالک کے فٹ بال کلبس کے ساتھ منسلک ہوجاتے ہیں۔
پاکستان کے بہت سے کھلاڑی ناروے اور ڈنمارک میں کھیلتے ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں فٹ بال کی کوئی لیگ موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں ابھی جب کمبوڈیا کے ساتھ میچ ہوا تو پاکستانی عوام نے فٹ بال فیڈریشن کو یہ پیغام دیا کہ وہ فٹ بال سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ دی نیوز کے مطابق اسلام آباد میں تقریباً 13ہزار افراد یہ میچ دیکھنے آئے تھے۔ اگر اسی اسٹیڈیم کی مکمل مرمت کی جائے اور پاکستانی فٹ بال پر توجہ دی جائے تو یہ کھیل بھی ترقی کرے گا اور پاکستان کے اسپورٹس میں نئی جہتوں کو فروغ دینے کا سبب بنے گا۔ اب پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن اسٹیڈیم کو اَپ گریڈ کرے، تاکہ جب 21نومبر کو تاجکستان کی ٹیم پاکستان کے خلاف میچ کھیلنے آئے تو ہم اس میچ کی اچھی طرح میزبانی کرسکیں۔ اگر پاکستان فٹ بال ٹیم اپنے گروپ میں دوسرے نمبر پر آئی تو پاکستان فیفا ورلڈ کپ کوالیفائنگ رائونڈ تین میں چلا جائے گا اور ایشین کپ میں جگہ بھی پکی ہوجائے گی، ورنہ پاکستان کو ایشین کپ کھیلنے کے لیے مزید کوالیفائنگ میچز کھیلنے پڑیں گے۔
اگر پاکستانی ٹیم کی بات کی جائے تو اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے گروپ میں دوسرے نمبر پر آسکتی ہے۔ پاکستانی ٹیم میں کپتان عیسیٰ سلمان اور عبداللہ اقبال کی جوڑی شاندار کھیل کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اگر مقامی کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو عالمگیر خان غازی اور شہک دوست بھی بہت اچھا کھیل رہے ہیں۔ ٹیم میں سب سے تجربہ کار کھلاڑی گول کیپر یوسف بٹ ہیں جنہوں نے کمبوڈیا کے خلاف شاندار کھیل پیش کیا۔
بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری فٹ بال ٹیم میں صرف لوکل کھلاڑی ہی ہونے چاہئیں۔ ایسا ممکن نہیں۔ پاکستان فٹ بال ٹیم میں پاکستانی نژاد کھلاڑی بھی کھیل رہے ہیں کیونکہ پاکستان کے پاس نہ تو کوئی لیگ ہے اور نہ ہی ٹیم میں شامل ہونے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے۔ پاکستان کو اگر فٹ بال میں ترقی کرنی ہے تو پاکستان میں سب سے پہلے فٹ بال لیگ کی ضرورت ہے، اس کے بعد ایک اچھے اسٹیڈیم کی، اور پھر ہمیں اپنی فٹ بال اور فیڈریشن کو سیاست سے پاک کرنا ہوگافیفا ہر برس ترقی پذیر ممالک کو ایک گرانٹ پیسوں کی صورت میں عطا کرتا ہے، اگر ان پیسوں کا درست استعمال کیا جائے تو پاکستان کی فٹ بال ٹیم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ پیسہ کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے اورکھلاڑیوں کو میچ فیس بھی ادا نہیں کی جاتی۔ اسی وجہ سے ماضی میں پاکستان کو فیفا کی جانب سے پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ مگر اب حالات پہلے سے بہتر ہیں۔ پاکستان میں فٹ بال کا بے حد ٹیلنٹ موجود ہے، کیونکہ ہر برس پاکستان کے کئی کھلاڑی باہر کے ممالک کے کلبوں سے منسلک ہوجاتے ہیں اور باہر جاکر اپنا مستقبل بناتے ہیں۔ پاکستان فٹ بال ٹیم کے سابق کپتان صدام عمان میں موجود ہیں اور وہیں فٹ بال کلب میں کھیلتے ہیں۔ پاکستان میں فٹ بال کے بہت زیادہ شائقین موجود ہیں جو پاکستان کو عالمی مقابلوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کو چاہیے کہ ایسے کھلاڑیوں کی قدرکرتے ہوئے ان کو بنیادی سہولیات فراہم کرے اور جلد سے جلد لیگ شروع کرنے کا اہتمام کرے تاکہ کھلاڑی میچ بھی کھیل سکیں اورملک کا نام بھی روشن کرسکیں۔