نئی دنیاؤں کی تلاش

کسی بھی ملک سے ذہانت اور فنی لیاقت کا انخلا مجموعی طور پر کوئی بہت اچھی بات نہیں

عہدِ شباب بھی کیا کیا قیامتیں ڈھاتا ہے۔ ایک طرف عملی زندگی کی ابتدا کا مرحلہ ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنے لیے سوچنے کی منزل بھی۔ انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے اور بہت کچھ منوانے پر بھی تُلا رہتا ہے۔ ایسی حالت میں جاگتی آنکھوں کے خواب بہت کچھ بگاڑتے بھی ہیں اور سنوارتے بھی ہیں۔

ہم میں سے آج جو لوگ ادھیڑ عمر یا بڑھاپے کی منزل میں ہیں وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ عہدِ شباب کے مختلف مراحل سے گزرنا کیا ہوتا ہے۔ یہ حسین دور مرتے دم تک دل و نظر کو اسیر بنائے رکھتا ہے۔ ڈھلتی ہوئی عمر میں اندازہ ہوتا ہے کہ عہدِ جوانی میں فلاں کام نہ کرتے تو اچھا تھا، فلاں معاملے میں زیادہ باعمل رہتے تو بہتر ہوتا۔ بہرکیف، گزرے ہوئے زمانوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور سیکھنا ہی چاہیے۔ عہدِ شباب کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر اپنے آپ کو ڈھلتی عمر کے تقاضے نبھانے کے لیے تیار کرنا ہم سب کے لیے اہم ہے۔ بڑھاپے میں ذوق و شوقِ عمل کا سرد پڑ جانا فطری امر ہے، مگر خیر یہ زمانہ بھی مکمل بے ثمر نہیں ہوتا۔ انسان بڑھاپے میں پوری زندگی کا تجزیہ کرکے نئی نسل کو بہت سے معاملات میں راہ دکھا سکتا ہے۔

عہدِ شباب انسان کو بہت سے خواب دکھاتا ہے۔ ایسے میں ہر خواب انتہائی دل کش دکھائی دیتا ہے۔ قدم قدم پر محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ہمارے لیے بانہیں پسارے ہوئے ہے، بس تھوڑے سے ذوق و شوقِ عمل کی کمی ہے جو پوری کرلی جائے تو بات کا بننا کچھ مشکل نہیں۔ اور ایسا ہے بھی۔

امکانات کی تلاش انسانی فطرت اور مزاج کا حصہ ہے۔ کم و بیش ہر مزاج کا انسان نئی دنیاؤں کی تلاش میں رہنا پسند کرتا ہے۔ جو انتہائی بے عمل ہیں وہ بھی خواب تو دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ نئی دنیاؤں کے بارے میں سوچنا، اُن میں آباد ہونے کے خواب دیکھنا اِس قدر فطری ہے کہ اِس پر کسی بھی درجے میں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اور نئی نسل کے لیے یہ معاملہ انتہائی فطری ہے۔ جب عملی زندگی کی ابتدا ہورہی ہوتی ہے تب ہر انسان بہت سے خواب دیکھتا ہے، بہت کچھ بننے کے بارے میں سوچتا ہے۔ اِس مرحلے میں ذہن کا واضح ہونا لازم ہے۔ ابہام سے زندگی کا توازن بگڑتا ہے۔

پس ماندہ معاشروں کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ حالات کا جبر عمومی طور پر ہر انسان کو اور خصوصی طور پر نئی نسل کو اپنی زمین اور اپنے ماحول سے بیزاری اختیار کرنے پر اُکساتا رہتا ہے۔ اپنے ملک کے خراب حالات سے بد دِل ہونے اور کہیں اور جاکر نئی زندگی تلاش کرنے، نئی دنیا پیدا کرنے کی خواہش دن بہ دن توانا ہوتی جاتی ہے۔ دیگر بہت سے پس ماندہ معاشروں کی طرح پاکستان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمارے ہاں بھی غالب اکثریت اپنی زمین اور اپنے ماحول سے شدید بیزاری کی حامل دکھائی دے رہی ہے۔ لوگ اُنہیں رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں جو کہیں اور آباد ہوچکے ہیں۔ مغربی دنیا پسندیدہ ترین منزل ہے۔ کوئی امریکہ میں آباد ہونا چاہتا ہے اور کوئی کینیڈا میں۔ یورپ میں آباد ہونے کی گنجائش اب زیادہ نہیں رہی، پھر بھی وہاں آباد ہونے کی تمنا رکھنے والوں کی تعداد کم نہیں۔ مغرب پسندیدہ ترین منزل اِس لیے ہے کہ وہاں بہت کچھ آسانی سے میسر ہے اور معاشرے خاصے آزاد ہیں۔ شخصی آزادی کی سطح بہت بلند ہے اور لوگ بنیادی سہولتوں کے حوالے سے متفکر رہنے کی پابندی سے آزاد ہیں۔

ایک بڑی الجھن یہ ہے کہ اپنے ملک سے بیزاری پر مبنی روش کے ساتھ کہیں اور آباد ہونے کا خواب دیکھنے والے تمام چھوٹے بڑے زمینی حقائق کو یکسر نظرانداز کردیتے ہیں۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہر معاشرے کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں، چند پابندیاں بھی ہوتی ہیں۔ کہیں بھی مستقل سکونت اختیار کرتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ وہاں آپ کی حیثیت اجنبی کی سی ہی رہے گی اور بہت کوشش کرنے پر بھی آپ پہلے درجے کے شہری نہیں بن سکیں گے۔ جو سہولتیں باقی سب کو ملتی ہیں وہی آپ کو بھی ملیں گی، مگر آپ کا اُس زمین سے وہ تعلق کبھی اُستوار نہیں ہوسکے گا جو اپنی زمین سے ہے۔ ایسے میں آپ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہیں گے کہ آپ بہرحال اجنبی ہیں، باہر سے آئے ہوئے ہیں۔

ایک زمانے سے پاکستانیوں میں بیرونِ ملک آباد ہونے کا رجحان انتہائی قوی ہے۔ ویسے تو خیر یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں شروع ہوا تھا جب لوگوں نے بہتر امکانات کی تلاش میں خلیجی ریاستوں کا رخ کرنا شروع کیا تھا۔ اِن ریاستوں میں تب پنپنے کی بہت گنجائش موجود تھی۔ لوگ عراق، لیبیا، اردن وغیرہ بھی جاتے تھے۔ تب مغرب میں آباد ہونے اور بہتر معاشی امکانات تلاش کرنے کی دوڑ ابتدائی مراحل میں تھی۔ مشرقِ بعید کے ممالک پر بھی لوگوں کی توجہ کم تھی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک آباد ہونے کا رجحان قوی سے قوی تر ہوتا چلا گیا۔

آج یہ رجحان واضح ذہنی مرض میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ایسے نوجوانوں کی تعداد اچھی خاصی ہے جو بیرونِ ملک اپنے لیے بہتر امکانات کی تلاش میں ملک کو بھول جانے کے درپے ہیں۔ اگر ملک میں چند اچھے مواقع مل بھی رہے ہوں تو وہ زیادہ متوجہ نہیں ہوتے، یہاں کام کے ماحول کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے۔ ترقی یافتہ دنیا کو پس ماندہ ممالک کے ذہین ترین اور قابل و محنتی افراد کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور یورپ کی ترقی میں پس ماندہ ممالک کے بہترین اذہان کا کردار کسی بھی اعتبار سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان دونوں خطوں کی شاندار ترقی کے لیے پس ماندہ معاشروں نے اپنے قابل ترین اذہان کی قربانی دی ہے اور اِس کے بدلے میں اُنہیں کچھ زیادہ ملا نہیں ہے۔ پس ماندہ ممالک کے قابل ترین افراد جو کچھ بھی حاصل کرتے ہیں وہ خالص انفرادی سطح پر ہوتا ہے۔ اُس میں اُن کے ممالک کا کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ آج لاکھوں پاکستانی بھی بیرونِ ملک کام کررہے ہیں اور اُن میں بہت سے ایسے ہیں جو اہلِ خانہ سمیت وہاں آباد ہیں۔ یہ سب کچھ اُن کے لیے انفرادی یا نجی سطح پر بہت سودمند ہے، لیکن ملک کو کچھ خاص حاصل نہیں ہو پارہا۔ کسی کی ذاتی کامیابی سے قومی خزانہ مستحکم نہیں ہوتا اور وہ قومی مفادات کے لیے بھی کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتا۔

ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت، بنگلا دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ، ویت نام اور چند دوسرے افرادی قوت برآمد کرنے والے ممالک کے برعکس پاکستان میں افرادی قوت کی برآمد کا کوئی باضابطہ سرکاری نظام موجود نہیں۔ جس پاکستانی کو ملک سے باہر جاکر قسمت آزمانے کا شوق چَرائے وہ اپنے طور پر تمام انتظامات کرکے جاتا ہے۔ بیرونِ ملک ملازمت کے بہترین اور پُرکشش مواقع تلاش کرکے دینے کے معاملے میں حکومتی مشینری کی کارکردگی تقریباً صفر رہی ہے۔ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر بظاہر کسی کو اس بات سے کچھ خاص غرض نہیں کہ کون کون باہر جاکر قسمت آزمانا چاہتا ہے۔ اگر کسی کو شوق ہے تو اپنے طور پر جو کچھ بھی کرسکتا ہے کرے، حکومت کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ اوورسیز ایمپلائمنٹ کا شعبہ ہمارے ہاں اب تک ایسا کچھ نہیں کرسکا ہے جس پر ہمیں فخر ہو۔

افرادی قوت کی برآمد ایسا شعبہ ہے جس کی عمدہ کارکردگی کسی بھی پس ماندہ ملک کو بہتر زندگی کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ بھارت، بنگلادیش اور سری لنکا کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ بعید کے متعدد ممالک نے افرادی قوت کی برآمد کا شعبہ مضبوط بناکر اپنی معاشی بنیادوں کو قابلِ رشک حد تک مستحکم کیا ہے۔ لاکھوں پاکستانیوں نے بھی بیرونِ ملک معاشی امکانات تلاش کرکے اپنے لیے بہتر زندگی کی راہ ہموار کی ہے۔ اِس کے نتیجے میں ملک بھی کسی حد تک خوش حال ہوا ہے۔ بیرونِ ملک سے بھیجی جانے والی رقوم یعنی ترسیلاتِ زر کی بدولت ملک کے متعدد علاقوں میں معاشی بحالی کا کام آسان ہوا ہے۔

کسی بھی ملک سے ذہانت اور فنی لیاقت کا انخلا مجموعی طور پر کوئی بہت اچھی بات نہیں۔ ہر ملک کو معاشی بحالی کی خاطر یا پھر ترقی کی رفتار متوازن رکھنے کے لیے معیاری افرادی قوت درکار ہوتی ہے۔ اگر قابل ترین لوگ کسی نہ کسی طور ملک سے نکلتے رہیں تو افرادی قوت کا خسارہ بڑھتا جاتا ہے۔ ملک ترقی یافتہ ہو یا پس ماندہ یا پھر ترقی پذیر، افرادی قوت کا ایک خاص تناسب ہر حال میں درکار ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ قابل ترین افراد بہتر معاشی امکانات کے لیے بیرونِ ملک کا رخ کرتے رہتے ہیں اور ملک میں افرادی قوت کا خسارہ بڑھتا جاتا ہے۔ آج پاکستان کو ہر شعبے میں قابل ترین افراد کی شدید کمی کا سامنا ہے اور اِس کمی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بعض شعبوں میں قابل ترین افراد کی کمی خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ قابل ترین ڈاکٹرز، انجینئرز اور آئی ٹی ماہرین بیرونِ ملک بہتر معاشی امکانات تلاش کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ یوں ملک سے ذہانت کا انخلا جاری رہتا ہے اور صورتِ حال زیادہ سے زیادہ پریشان کن ہوتی جاتی ہے۔

پاکستان سے برین ڈرین یعنی ذہانت و لیاقت کے انخلا نے خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ ایک طرف اِس کے نتیجے میں معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف بہت سے معاشرتی مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں۔ وطن سے بیزاری کا تناسب بڑھتا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ سوہانِ روح ہے۔ وطن سے بیزاری؟ یہ ایک تلخ تر حقیقت ہے۔ پنجاب کے بعض علاقوں میں وطن سے نکل کر کہیں اور، خوش حال خطے یا ملک میں آباد ہونے کا جنون انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ حد یہ ہے کہ جو لوگ ملک میں بھی زیادہ بُری حالت میں نہیں وہ بھی اپنا سب کچھ داؤ پر لگاکر کسی نہ کسی طور کسی یورپی ملک میں آباد ہونے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اِس سلسلے میں وہ عواقب کا بھی نہیں سوچتے۔ لیبیا اور شمالی افریقا کے دیگر ممالک سے کشتی کے ذریعے غیر قانونی طور پر یورپ کے کسی ملک تک رسائی کی کوشش عام بات ہے جس کے حوالے سے افسوس ناک واقعات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ چند ماہ قبل بھی ایسا ہی ایک بڑا سانحہ رونما ہوا جب لیبیا سے روانہ ہونے والی کشتی (جو تارکینِ وطن سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی) یونان کے پانیوں میں ڈوب گئی۔ کہا جارہا ہے کہ کشتی کو یونان کے ساحلی محافظوں نے ڈوبنے دیا۔ اس سانحے میں 112 پاکستانی بھی (جن میں بعض اہلِ خانہ کے ساتھ تھے) جان سے گئے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے افراد میں کامیابی کا تناسب صرف 10 فیصد ہے۔ اس کے باوجود مغربی دنیا میں آباد ہونے کی کشش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ سوال صرف بہتر معاشی امکانات تلاش کرنے کا نہیں بلکہ ملک سے بیزاری کا ہے۔ یہ بیماری جڑ اور زور پکڑتی جارہی ہے۔ لازم ہے کہ اس ذہنی بیماری کا علاج سوچا جائے۔ لاکھوں افراد وسائل اور مواقع نہ ہونے پر بھی مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں آباد ہونے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ جب تک یہ خواب آنکھوں میں سجا رہتا ہے تب تک انسان اپنی سرزمین پر ڈھنگ سے کام کرنے کا ذہن نہیں بنا پاتا۔

پاکستان جیسے ممالک کو افرادی قوت کی باضابطہ، قانونی انداز کی برآمد کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ غیر قانونی طور پر ملک سے نکلنے کے رجحان کا خاتمہ ہو۔ نفسی امور کے ماہرین سے مشاورت کے ذریعے حکومتی سطح پر لوگوں کی ذہنی تربیت کے پروگرام چلائے جاسکتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کسی نہ کسی طور ملک سے نکلنے کی کوشش کرنے کے بجائے ڈھنگ سے افرادی قوت برآمد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ جو لوگ اپنے وطن میں بہت کچھ کرسکتے ہیں وہ خوا مخواہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر کہیں جانے کے بجائے وطن ہی میں رہتے ہوئے ڈھنگ سے جئیں اور باہر جانے کے لیے قانونی طریقے اختیار کریں، علم و فن کا دائرہ وسیع کریں اور اِس طور جائیں کہ اُن کی اپنی زندگی بھی پُرسکون رہے اور ملک کو بھی کچھ حاصل ہو۔

ترقی یافتہ دنیا میں صرف اُن کی قدر ہے جو تعلیم و تربیت یافتہ ہوں اور قانونی طریقے سے آباد ہونے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ غیر قانونی طور پر آباد ہونے والوں سے بہ طریقِ احسن کام لیا نہیں جاسکتا۔ اُنہیں تمام حقوق بھی نہیں مل سکتے۔ ایسے میں لازم ہے کہ بیرونِ ملک آباد ہونے کی خواہش کو ڈھنگ سے پروان چڑھایا جائے اور وہ سب کچھ کیا جائے تو کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں قیام اور وہاں معاشی سرگرمی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بناسکتا ہو۔