نگراں حکومت کے رویّے دیرپا حکمرانی کا تاثر دے رہے ہیں
بلوچستان نیشنل پارٹی اور مقتدرہ کے مراسم تلخ ہوگئے ہیں۔ اس کی وجہ وڈھ میں شفیق الرحمان مینگل پر دستِ شفقت ہے۔ شفیق الرحمان سردار اخترمینگل سے متصادم ہیں۔ حالیہ دنوں کشیدگی اس قدر بڑھ گئی کہ جانبین بھاری اسلحہ کے ساتھ مورچہ زن ہوگئے۔ نواب اسلم رئیسانی، مولانا محمد خان شیرانی اور کئی دوسرے سرکردہ لوگ صلح کروانے درمیان میں کودے، لیکن کشیدگی پھر بھی رہی۔ وقتاً فوقتاً فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا، کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ہر قسم کی ٹریفک گھنٹوں بند ہوجاتی، وڈھ بازار دو ماہ تک مکمل بند رہا، انتظامیہ یا حکومتی رٹ کہیں نظر نہ آئی۔ سردار اختر مینگل کہتے ہیں کہ ان سے مورچے خالی کرا لیے مگر مخالفین یعنی شفیق الرحمان مینگل کے لوگ بدستور مورچہ زن ہیں۔
شفیق الرحمان مینگل نیک نام آدمی نہیں ہیں۔ وہ کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے آگے کھڑے ہیں جبکہ حب الوطنی کا پرچار کرتے ہیں۔ تضاد یہ کہ خود کالعدم مذہبی گروہوں سے مراسم کی داستان رکھتے ہیں۔ ماضیِ قریب میں خضدار میں صحافیوں سمیت دیگر افراد کی ٹارگٹ کلنگ، کوئٹہ اور صوبے کے مختلف علاقوں سے تاوان کی غرض سے ڈاکٹروں اور تاجروں کے اغوا، اور سندھ میں کئی سنگین واقعات پر ان پر انگلیاں اٹھائی جاچکی ہیں۔ اگرچہ محبوب ہیں مگر جرائم کی طویل فہرست رکھتے ہیں۔ آج کل تو نگراں وزیراعظم اور نگراں وفاقی وزیر داخلہ انہیں باصفت بیان کرتے رہتے ہیں۔
سردار اختر مینگل پانچ سالہ مدتِ حکومت میں اسٹیبلشمنٹ سے کسی نہ کسی طرح بغل گیر تھے تو معاملات سہل جارہے تھے۔ حکومتیں ختم ہوئیں تو رنجشیں پھر سے بڑھ گئیں۔ سردار اختر مینگل صوبے میں نواز لیگ، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ حکومت کے خلاف استعمال ہوئے۔ دوبارہ جب ضرورت پڑی تو جام حکومت کے خلاف صفِ اوّل میں کھڑے ہوئے۔ تحریک انصاف کے قیام کی کاریگری میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے چار ارکان بہترین ثابت ہوئے۔ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے میں انہوں نے بقدر جثہ ساتھ دیا۔ اب اگر اس سے انکاری ہیں تو ٹھوس اور واضح دلیل دینی ہوگی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کے لیے سوائے جماعت اسلامی کے، پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں بشمول تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے ووٹ دیا تو بی این پی بھی ان کے شانہ بشانہ تھی۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کے مزاج کے ساتھ اختر مینگل نے بھی مزاج بدلتے ہوئے عمران خان حکومت گرانے میں یاروں کا ساتھ دیا۔ وہ پی ڈی ایم میں گئے اور میاں شہبازشریف کے اتحادی بن گئے۔ اب آفت ایسی آئی ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا احتجاج تک گوارا نہیں۔ صوبے کی نگراں حکومت نے کمال کردیا کہ 11اکتوبرکو دفعہ 144کے تحت شہر کے پانچ مقامات پر جلسے اور جلوس پر پابندی عائد کردی۔ ان میں زرغون روڈ پر گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے قریب ریڈ زون، صوبائی اسمبلی اور ہائی کورٹ کے باہر انسکمب روڈ اور گلستان روڈ شامل ہیں۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ احتجاج کے لیے عدالت روڈ پر واقع کوئٹہ پریس کلب کا رخ کیا جائے، مگر 15اکتوبر کو جب بی این پی کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے خواتین اور بچوں کا وڈھ کی صورت حال کے خلاف احتجاج تھا تو میڈیا کے دوست بتاتے ہیں کہ اس علامتی احتجاج کو کوریج نہ دینے کے لیے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے کوئٹہ پریس کلب اور میڈیا کے دفاتر کو فون کیے گئے۔ جب مظاہرہ ہوا تو بی این پی کے ضلعی صدر غلام نبی مری، سابق ایم پی اے شکیلہ نوید دہوار، خواتین رہنماؤں منورہ بلوچ اور شمائلہ اسماعیل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اس قانون کے نفاذ میں بھی امتیاز برتا جارہا ہے۔ 11اکتوبر کو زمیندار ایکشن کمیٹی نے کیسکو کے خلاف عین ریڈ زون میں دھرنا دیا۔ کئی گھنٹوں تک شاہراہ بند رہی مگر دفعہ144کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہ بنا، بلکہ اگلے روز مظاہرین کی وزیراعلیٰ سے ملاقات ہوئی اور دو روز بعد نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے ان کے ہمراہ کیسکو کے خلاف پریس کانفرنس کرڈالی۔ یعنی اس دفعہ کا استعمال فقط بلوچستان نیشنل پارٹی کے خلاف کیا گیا۔ 22اکتوبر کو سردار اختر مینگل کی قیادت میں وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ ادھر بلوچستان حکومت کے ڈپٹی کمشنر، محکمہ تعلقاتِ عامہ دفتر اور سیکورٹی ادارے مسلسل میڈیا دفاتر کو کوریج نہ دینے کی ہدایت کرتے رہے، یہاں تک کہ مارچ کے شرکاء کوئٹہ پہنچ گئے۔ کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں جلسہ تھا۔ رپورٹرز اور کیمرہ مینوں تک کو اسٹیڈیم کے اندر چھوڑا نہ گیا۔ معلوم نہیں ان پر اس قدر خوف کیوں طاری ہے، حالاں کہ یہ ایک سیاسی عمل تھا جو گزر جاتا، مگر ان کے عمل سے بی این پی کے تنِ مُردہ میں پھر سے خون دوڑا ہے، وگرنہ بی این پی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی، خود اس کی صفوں سے انگلیاں اٹھائی گئیں۔خاص طور پر جام کمال کو ہٹانے کے بعد قدوس بزنجو کی حکومت میں بی این پی غیر اعلانیہ طور پر حکومت کاحصہ رہی۔ اس فرینڈلی اپوزیشن کے کردار کے بعد بی این پی اہمیت کھوچکی تھی۔ اب سردار اختر مینگل نے30اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کردیا ہے۔ بی این پی کا ہاتھ پیر مارنا سرِدست وڈھ کی کشیدگی کی وجہ سے ہے۔ محمود خان اچکزئی بولنا چاہ رہے ہیں مگر بول نہیں پارہے۔ کبھی بولتے بھی ہیں تو الفاظ ملفوف ہوتے ہیں۔ نیشنل پارٹی محاذ آرائی کی سیاست ترک کرچکی ہے۔ میاں نوازشریف کی جس سیاسی بیانیے کے ساتھ واپسی ہوئی ہے اس کے بعد بلوچستان میں سیاسی مزاحمت سر نہ اٹھاسکے گی۔
نگراں حکومت کے رویّے دیرپا حکمرانی کا تاثر دے رہے ہیں۔ یہ نگراں چاہے اوپر سے ہوں یا نیچے سے، پوری طرح اپنا مستقبل سنوارنے میں مگن ہیں۔ 16اکتوبر کو محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی نے نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں کہا گیا کہ صوبے کی پچھلی حکومت کے آخری تین ماہ میں سرکاری محکموں میں میرٹ سے ماوراء تعیناتیوں کی تحقیقات کی جائیں گی۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ چیئرمین سی ایم آئی ٹی ہوں گے۔ خزانہ اور ایس اینڈ جی اے ڈی کے سیکریٹریز، ڈی جی ٹریژری، ڈی جی اینٹی کرپشن کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے نمائندے شامل ہوں گے۔ احتساب اور بدعنوانی کے خلاف کارروائی ایک مسلسل عمل ہوتا ہے لیکن یہاں مقصد احتساب نہیں کچھ اور لگتا ہے، وگرنہ حالیہ پانچ سالہ حکومت کا پورا دور نوکریوں کی فروخت اور کرپشن کی بدترین مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ بلوچستان میں مجوزہ عام انتخابات سے قبل سول بیوروکریسی کے تبادلے چیف سیکریٹری اور صوبائی حکومت کے بجائے کوئی اور کررہا ہے
سول سرکاری مشنری پستی میں جاچکی ہے۔ انتظامی عہدوں کی طنابیں بھی کوئی اور تھامے ہوئے ہے۔ باپ پارٹی کے کئی سابق ارکانِ اسمبلی اور وزراء نے نوازشریف کے استقبال کے لیے کوئٹہ اور صوبے کے دیگر مقامات سے گاڑیاں اور لوگ جلسے میں شرکت کے لیے لاہور بھیجے۔ کئی لوگ نون لیگ میں شامل ہونے جارہے ہیں۔ وہ لوگ بھی دوبارہ نون لیگ کی کشتی میں سوار ہورہے ہیں جنہوں نے نوازشریف حکومت کے خلاف اور پھر بلوچستان میں نون لیگ، پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی کی حکومت گرانے میں غیبی ہاتھ کا پورا پورا ساتھ دیا، یعنی باپ پارٹی نون لیگ میں تبدیل ہونے جارہی ہے۔ نوازشریف نے وطن واپسی پر مینارِ پاکستان جلسے کی اپنی تقریر میں انتخابات کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا، نہ عام انتخابات آئینی مدت میں کرانے کا مطالبہ کیا۔ حالاں کہ اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد اُن کا پورا بیانیہ ”ووٹ کو عزت دو“ کا رہا۔ ان کے اتحادی مولانا فضل الرحمان کا اشارہ تو بہت ہی صاف ہے کہ معیشت کی درستی عام انتخابات سے زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ہر وقت 1973ء کے آئین کی رٹ لگانے والے مولانا فضل الرحمان بھی اس مائنڈ سیٹ کی رائے پر جارہے ہیں جو انتخابات کا التوا کے خواہش مند ہے۔ غرض بلوچستان سے بھی اصولی اور فکری سیاست فنا ہوچکی ہے۔