لداخ ہل کونسل کے انتخابات

کشمیر میں مودی کی فلاسفی کی شکست کا آغاز؟

بھارتیہ جنتا پارٹی کو لداخ ہل کونسل کے انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لداخ ہل کونسل کی 26 نشستوں میں سے 12 نیشنل کانفرنس اور 10 کانگریس نے جیت لی ہیں، جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو صرف 2 نشستوں پر کامیانی ملی ہے۔ نیشنل کانفرنس اورکانگریس مودی کے مقابلے کے لیے بنائے جانے والے سیاسی اتحاد ’’انڈیا‘‘ میں شامل ہیں، اور یہ اتحاد اب مودی کو سیاسی اور انتخابی میدان میں چیلنج کررہا ہے۔ لداخ ہل کونسل کے انتخابی نتائج کو ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم کے خلاف لداخ کے عوام کا فیصلہ قرار دیا گیا، اور یہ مودی کے ان دعووں کی صریح نفی ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام نے ریاست کے دو ٹکڑے کرنے کے فیصلے کو خوش دلی سے تسلیم کیا ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سیاسی تنظیموں نے نریندر مودی کی پالیسیوں کے خلاف بھی جموں سے احتجاجی مظاہروں کا آغاز کیا ہے۔ اس بات کا اعلان مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ کشمیر میں آئین معطل ہے اور جموں وکشمیر کے عوام کے جمہوری حقوق پر حملہ کیا جارہا ہے۔ اس لیے ریاست کی تمام جماعتوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف پُرامن مظاہروں کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سیاسی اتحاد کے سربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ہیں، اور یہ مودی کے خلاف بھارت میں قائم ہونے والے اتحاد ’’انڈیا‘‘ کی ہی توسیعی شکل ہے۔

جموں کے ہندوئوں کو کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے میں نئی صبح کی جو امیدیں دلائی گئی تھیں وہ ایک ایک کرکے سراب ثابت ہوچکی ہیں اور جموں کے ہندوئوں میں ملازمتوں اور تعلیمی شعبوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ انہیں خوف ہے کہ وادی کشمیر میں تو امن وامان کی صورتِ حال کی وجہ سے شاید بھارتی سرمایہ کار اپنا سرمایہ لگانے اور زمینیں خریدنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں گے مگر جموں میں وہ کسی روک ٹوک کے بغیر زمین و جائداد خرید لیں گے۔ اسی خدشے کے پیش نظر جموں میں بھی نریندر مودی کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی لہریں اُٹھ رہی ہیں اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے سیاست دان بھی اس کا حصہ بن رہے ہیں۔ 5 اگست 2019ء کے حالات کو بھانپتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے سیاست دانوں نے پیپلزالائنس فار گپکار ڈیکلریشن کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا تھا مگر بھارتی حکومت نے اس اتحاد کی قیادت کو نظربند کرکے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی۔ اب مقبوضہ کشمیر کے سیاست دان جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی شامل ہیں، اس اتحاد کا حصہ ہیں۔

بھارت نے 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی شناخت چند تاریخی جھوٹ بول کر چھینی تھی، جن میں ایک یہ بھی تھا کہ کشمیر کو بھارت کے قومی دھارے میں اس لیے شامل کرنا ضروری تھا کہ یہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے، بھارت کی حکومت عوامی زندگی کو انقلابات سے آشنا کرنے کے لیے جو منصوبے بناتی ہے کشمیر کی الگ حیثیت اور قوانین اس کی راہ میں ایک رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں، دفعہ 35-Aکے تحت بھارت عوامی فلاح اور ترقی کے منصوبوں کو کشمیر میں نافذ نہیں کرسکتا۔ اس دعوے کا سودا بھارت نے صرف مغربی ملکوں کو نہیں بیچا بلکہ عرب ممالک کو بھی یہی بات باور کرائی کہ اس کے تمام اقدامات کا مقصد کشمیر میں سرمایہ کاری کا راستہ ہموار کرنا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں کشمیری عوام کا معیارِ زندگی بلند ہوسکے۔ اس لیے بھارت کی طرف سے کشمیرکی شناخت چھینے جانے پر بہت سے مسلمان ممالک بھی خاموش رہے، اُن کا خیال تھا کہ بھارت واقعی نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ کشمیریوں کی ترقی چاہتا ہے۔ کشمیر کی شناخت چھنے ہوئے چار سال کا عرصہ ہوگیا اور اب بھارت کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں، حتیٰ کہ ان چار برسوں میں کشمیر میں مزاحمت کی کوئی لہر بھی نہیںاُٹھی۔ عوامی بے چینی کی آگ تو اب بھی سینوں میں دبی ہوئی ہے مگر یہ آگ کسی منظم احتجاج کی صورت میں باہر نہیں آئی۔ بھارت کے اس قدم کو سیاسی طور پر کوئی چیلنج درپیش نہیں رہا۔ عدالت کی طرف سے سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ نے بھارتی حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درجنوں رٹ پٹیشنز کو ہاتھ لگانے میں چار سال لگادئیے اور اس عرصے میں بھارت نے کشمیر کا آئینی حلیہ پوری طرح بگاڑ دیا تھا۔ نہ صرف مرکزی قوانین نافذ کیے جا چکے تھے بلکہ ان پر بڑی حد تک عمل درآمد بھی ہوچکا تھا۔ چار سال بعد اب بھارت کے دعووں کو زمین پر پرکھنے کا وقت آگیا ہے تو کشمیر ترقی اور خوش حالی کی دوڑ میں آگے جانے کے بجائے مزید پیچھے چلا گیا ہے۔ بھارت نے ان چار برسوں میں کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور مسلمانوں کو حقوق اور مراعات سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ بھارت اس مقصد میں کامیاب ہو تو گیا مگر تعمیر وترقی اس کا مقصد نہیں تھا، اس لیے یہ زمین پر نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں کشمیر سے ایسی رپورٹیں سامنے آرہی ہیں جو نریندر مودی کے دعووں کی قلعی کھول رہی ہیں۔ جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر سری نگر کے تاریخی لال چوک کی شکل بدل کر اور چند مرکزی سڑکوں کو بہتر بنا کر دنیا کو ترقی کا سراب تو دکھایا گیا مگر کشمیری عوام کے لیے یہ دعوے جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے 61 فیصد سرکاری اور 45 فیصد پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بجلی کی سہولت نہیں۔ اس طرح 14240 سرکاری تعلیمی ادارے بجلی کی سہولت سے محروم ہیں، جبکہ صرف 8933 سرکاری اداروں میں بجلی کی سہولت موجود ہے۔ 14929 سرکاری اسکولوں میں لائبریریاں ہی نہیں۔ یہ کشمیر میں تعلیم کی وہ ترقی ہے جس کے دعوے بھارت دنیا بھر میں کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں ترقی اور تعلیم کا فروغ بھارت کی دلچسپی کا سامان نہیں رہا۔ بھارت کو صرف کشمیر کی زمین سے دلچسپی رہی ہے، اس کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر رہا ہے۔ اور اب یہ بغض سامنے آرہا ہے، کیونکہ بھارت کے انتہا پسند برملا کہتے ہیں کہ کشمیریوں نے بھارت کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور اُن کے دلوں میں پاکستان ہی دھڑکتا رہتا ہے۔