نواز شریف کی واپسی

اسٹابلشمنٹ کی سیاست کے نئے کردار اور پرانا کھیل

نوازشریف کی سیاسی واپسی کا اسٹیج بڑی دھوم سے سجایا گیا ہے۔ ان کی واپسی کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوئی بلکہ وہ خصوصی بنیاد پر پاکستان لائے گئے ہیں۔ فطری بات ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کے لیے ایک بڑی سیاسی قیادت درکار تھی۔ 2018ء میں یہ کھیل نوازشریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت کے لیے کھیلا گیا تھا، اور اب 2023ء میں عمران خان کی مخالفت اور نوازشریف کی حمایت کے لیے کھیلا جارہا ہے ۔ کچھ نہیں بدلا بس کردار بدلے ہیں، کہانی وہی پرانی ہے، اور اسی بنیاد پر ہماری قومی سیاست کو آگے چلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نوازشریف کی واپسی میں یقینی طور پر ڈیل کا پہلو نمایاں ہے جس کی جھلک ان کے استقبال کے انتظامی معاملات سمیت اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت کی معاونت کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کھیل سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نوازشریف کی واپسی اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے جڑی ہوئی ہے۔ البتہ یہ بات ابھی زیر بحث ہے کہ ان کی واپسی کے پیچھے اصل وجہ ان کو چوتھی بار وزیراعظم بنانا ہے یا ان کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو دوبارہ زندہ کرنا اور عمران خان کا سیاسی توڑ کرنا ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بقول سیاسی پنڈتوں کے نوازشریف کی واپسی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اب جب کہ نوازشریف واپس آگئے ہیں تو مسلم لیگ (ن) بھی خاصی متحرک نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف کی موجودگی مسلم لیگ (ن) کے تنِ مُردہ میں نئی جان ڈال سکے گی؟ کیونکہ لاہور میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے جلسے میں ہمیں سب کچھ نظر آیا اور لوگوں کی تعداد بھی بہتر تھی، مگر جلسے میں جو زندہ دلی اور جوش نظر آنا چاہیے تھا، وہ نظر نہیں آسکا۔ لاہور جو کبھی مسلم لیگ (ن) کا سیاسی گھر اور دل سمجھا جاتا تھا، یہاں بھی گرم جوشی اس جلسے کے تناظر میں دیکھنے کو نہیں مل سکی۔ اس کی ایک وجہ تو صاف ہے کہ پچھلے 16ماہ کی شہبازشریف حکومت کی کارکردگی خود مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک بڑا سیاسی بوجھ بن گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ نوازشریف نے بھی 16ماہ کی حکومت کو پیچھے چھوڑ کر آگے کی بات کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا مسئلہ بیانیہ ہے۔ ایک طرف عوام کو یہ یقین دلانا کہ نوازشریف کی واپسی ہی ان کے سیاسی و معاشی مسائل کا حل ہے، تو دوسری طرف اس تاثر کی نفی کرنا کہ نوازشریف کی واپسی بغیر کسی ڈیل یا سمجھوتے کے ہوئی ہے ۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ان کی واپسی میں اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری موجود ہے، اور سہولت کاری کا یہ بوجھ ان کی سیاسی مہم میں ان کا پیچھا کرے گا اور شہبازشریف حکومت کی کارکردگی پر بھی نوازشریف کو کئی سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ اپنے نئے سیاسی کرداروں کا انتخاب کررہی ہے۔ اس انتخاب کے بعد انتخابات کا سیاسی دربار بھی سجادیا جائے گا، اور ایک ایسی مخلوط حکومت بنانے کا کھیل نظر آرہا ہے جہاں طاقت کا مرکزحکومت نہیں بلکہ اصل قوتیں ہی ہوں گی۔ ابھی یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ نوازشریف اور شہبازشریف میں سے کون اقتدار کا حصہ بنے گا۔ شہبازشریف کے حامی شہبازشریف کو اور نوازشریف کے حامی نوازشریف کو وزیراعظم کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کی لاٹری کس کے حق میں نکلتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دیگر جماعتوں کی مدد یا اتحادی جماعتوں کی صورت میں حکومت تشکیل دی جائے گی۔ یہ حکومت مائنس ون ہوگی اور عمران خان کے لیے سیاسی راستے بند کردیے گئے ہیں یا بند کیے جارہے ہیں۔ عمران خان کی جماعت کو بھی مکمل آزادی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یعنی پی ٹی آئی کے ہاتھ پیر باندھ کر انتخابات، اور انتخابی نتائج کے بعد حکومت کی تشکیل ظاہر کرتی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کھیل پہلے کی طرف آج بھی جاری ہے۔ یہ فیصلہ کہ حکومت کس کی بنے گی ووٹرز نہیں کریں گے، بلکہ کہیں اور ہی یہ طے ہوگا، اور عوام اس میں محض ایک دکھاوا ہوں گے۔ البتہ اس کھیل کا ایک مرکزی نکتہ پنجاب کا سیاسی میدان ہے۔ پانی پت کی جو جنگ ہمیں پنجاب میں دیکھنے کو ملے گی وہ اہم ہے،کیونکہ پنجاب کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ طاقت کا مرکز سیاسی طور پر کس کے پاس ہوگا۔ نوازشریف خود کو جہاں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں وہیں ان کی کوشش ہوگی کہ اگر قرعہ فال ان کے نام نہیں نکلتا تو کم ازکم ان کی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزیراعلیٰ کے طور پر قبول کرلیا جائے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کھیل میں کیا ماضی کی طرح مرکز اور پنجاب بیک وقت مسلم لیگ (ن) کو ہی ملیں گے، یا یہاں کچھ اور ماڈل بناکر نوازشریف کو بھی کمزور رکھا جائے گا۔ پنجاب کی سیاست پر آصف علی زرداری اندر سے خاصے نالاں ہیں اور ان کو اس بات پر اسٹیبلشمنٹ سے گلہ ہے کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں کوئی محفوظ راستہ نہیں دیا جارہا اور ان کے مقابلے میں نوازشریف کی مکمل طور پر سیاسی سرپرستی کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ سے نالاں ہیں، وہیں ان کی جماعت میں مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے بھی تحفظات بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ نوازشریف نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو ساتھ ملا کر سیاست کریں گے، لیکن کیا ایسا کچھ ممکن ہوسکے گا؟ یا پیپلزپارٹی کوئی نیا کھیل سجائے گی؟ نوازشریف عملی طور پر پنجاب کی سیاست سے کسی بھی صورت دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں، اور اگر اُن کو لگا کہ اُن کی جماعت کے مقابلے میں کسی اور کو پنجاب کا اقتدار دینے کا کوئی بھی منصوبہ زیرغور ہے تو وہ پھر کس حد تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑیں رہیںگے یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سیاسی ڈیل کے بعد نوازشریف کے سیاسی آپشن کم ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کی جانب سے جو بھی سیاسی سہولت مل رہی ہے اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان موجود دوری ہے۔ نوازشریف اس بات پر بھی خوش ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ہر صورت دیوار سے لگانا چاہتی ہے۔ سائفر کے معاملے پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائد ہونا نوازشریف کے حق میں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سائفر کو بنیاد بناکر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی نااہلی کا منصوبہ آخری مراحل میں ہے۔

دوسری جانب پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمٰن بھی خاصے پریشان نظر آتے ہیں۔ ان کی پریشانی کی بڑی وجہ عمران خان کی آج بھی سیاسی مقبولیت ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو لگتا ہے کہ جب بھی انتخابات ہوئے تو کے پی کے میں اُن کے مقابلے میں عمران خان ہی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو اس بات پر بھی دکھ ہے کہ شریف خاندان نے ایک بار پھر اپنی ذات کو سامنے رکھ کر ڈیل کی سیاست کی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن سمجھتے تھے کہ اس ڈیل میں کے پی کے کی سطح پر ایسا کوئی سیاسی بندوبست سامنے آئے گا جو ان کو براہِ راست سیاسی فائدہ دے سکے گا۔ مولانا فضل الرحمٰن کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے مقابلے میں پرویز خٹک کو بھی کھڑا کردیا ہے۔ حالانکہ وہ چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو جے یو آئی میں شامل کیا جاتا تاکہ ان کی سیاست کو مضبوطی مل سکتی۔ مگر لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی کھل کھیلنے نہ دینے کی حکمت عملی ہمارے اوپر کے لوگوں میں موجود ہے۔ سب سے بڑی خبر یا پریشانی نئی نویلی جماعتوں جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین پرویز خٹک کی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ ہمیں عمران خان کی مخالفت میں سیاسی میدان میں تو اتار دیا گیا ہے مگر ہمارے لیے جو سیاسی دربار سجانا تھا وہ ابھی تک نہیں سجایا گیا، بلکہ ہمارے مقابلے میں اس وقت بھی توجہ کا مرکز نوازشریف ہی ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے بہت سے قریبی لوگوں کا موقف ہے کہ انہیں بلاوجہ اس جماعت کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے جبکہ حالت یہ ہے کہ ان کے پاس سوائے عمران خان کی مخالفت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی کیفیت خیبر پختون خوا کی سطح پر پرویز خٹک کی بھی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ تنہا خیبر پختون خوا کی سطح پر عمران خان کی مقبولیت کو کم نہیں کرسکیں گے۔ ایم کیو ایم بھی کراچی اور حیدرآباد کی سطح پر اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ اسٹیبلشمنٹ سے مانگ رہی ہے اور چاہتی ہے کہ کراچی کے اقتدار کا سہرا اسی کے سر پر دوبارہ سجایا جائے۔ کے پی کے میں ہی ایک بحران اے این پی کو بھی ہے، وہ کوشش کررہی ہے کہ نوازشریف کے ساتھ مل کر کچھ معاملات طے کرکے وہ آگے بڑھے اور کچھ حصہ اسے وفاقی اور صوبائی سطح پر مل سکے۔

اس کھیل میں تین اورکردار ہیں جن کو سیاسی مہم جوئی میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اول عدلیہ، دوئم الیکشن کمیشن، سوئم نگران حکومتیں۔ کیونکہ اگر انتخابات کا عمل ہونا ہے، سیاسی دربار سجانا ہے اور مرضی کے نتائج حاصل کرنے ہیں تو ان ہی اداروں یا نگرانوں کی مدد سے انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کو متنازع بنایا جائے گا۔ کیونکہ اگر لیول پلیئنگ فیلڈ یہی ہے جو کہ مسلم لیگ (ن) کو دی گئی ہے تو پھر ان انتخابات سے بھی کوئی مثبت پہلو سامنے نہیں آسکیں گے۔ نگران حکومتوں کا مکمل جھکائو نوازشریف کی طرف ہے اور اس کی کئی جھلکیاں ہم قومی سیاست میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے لگتا ہے کہ محاذ آرائی اور ٹکرائو کا یہ کھیل بدستور جاری رہے گا جس کی بھاری قیمت پاکستانی قوم اور معیشت کو ادا کرنا پڑے گی۔ کیونکہ انتخابات اگر لیول پلیئنگ فیلڈ کے بغیر ہوتے ہیں اور جو تاثر دیا جارہا ہے کہ سب کچھٖ پہلے ہی سے طے ہوگیا ہے اور کسے اقتدار میں آنا ہے اورکسے باہر بیٹھنا ہے تو پھر انتخابات کا یہ مصنوعی ڈراما ہمیں سیاسی استحکام سے دور لے جائے گا جو کسی بھی طرح مسائل کا حل نہیں۔ اصولی طور پر تو ہمیں اس طرح کے مصنوعی کھیل سے باہر نکلنا چاہیے تھا اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر کوئی مستقل سیاسی تلاش کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم نے مائنس کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی ہے، اور ایک جماعت کی مخالفت میں بہت دور تک چلے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہورہا، مگر اب جو حالات ہیں ان میں یہ کھیل کسی بھی صورت میں ہمارے قومی مفاد میں نہیں ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چار ایک کے ساتھ فوجی عدالتوں اور سویلین کے ٹرائل کوکالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت کے مطابق عام شہریوں کے تمام مقدمات سول عدالتوں میں ہی چلیں گے اور اس فیصلے کا اطلاق 9 اور 10 مئی کے واقعات میں زیر حراست تمام افراد پر ہوگا۔ عدالت کے بقول بنیادی حقوق کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ یہ فیصلہ یقینی طور پر پی ٹی آئی کے حق میںہے۔ اس فیصلے سے عدالت کی ساکھ بھی بحال ہوئی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل میں جائے گی؟ اور اگر جاتی ہے تو پھر عدالت کا کیا فیصلہ ہوگا؟ اس فیصلے کو محض پی ٹی آئی کی جیت کی صورت میں نہ دیکھا جائے بلکہ اس سے مستقبل میں بھی سیاسی کارکنوں کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ہٹی ہے، اور یہ واقعی ایک بہتر اور درست فیصلہ ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے ۔