پروجیکٹ”’’نوازشریف‘‘

ان کی وطن واپسی بتا رہی ہے کہ اپنے معالج کے بجائے
مقتدر قوتوں کے کسی معالج کی تسلی پر وطن واپس آئے ہیں

گزرا ہوا ہفتہ سیاسی سرگرمیوں پر توجہ کھنچنے کا باعث رہا کہ پراجیکٹ عمران کے بعد اب پراجیکٹ نوازشریف آرہا ہے یا آچکا ہے؟ جلسہ بھی ہوچکا اور اب یہ دیکھا جائے گا کہ نوازشریف کی واپسی کے بعد ملک پر کیا اثر پڑا ہے، معیشت درست کیے جانے کے دعووں کی ہتھیلی پر سرسوں اگتی ہے یا نہیں۔ ان حقائق کا فول پروف تجزیہ کرنے کے بعد ہی ملک میں انتخابات کا فیصلہ ہوگا۔ ملک میں انتخابات کب ہوں گے اس بارے میں ابھی حتمی بات کے لیے کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ نوازشریف کو وطن واپسی کے بعد جلسہ گاہ تک پہنچنے دینے کا فیصلہ جہاں بھی ہوا بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ جلسے کے لیے موقع پیپلزپارٹی کو بھی ملنے والا ہے۔ اس کے بعد ہی حقیقی تجزیہ ہوگا جس کے بعد فیصلہ ہونا ہے کہ ’’پراجیکٹ نوازشریف‘‘ آگے بڑھایا جائے یا نہیں!

نوازشریف چار سال کے بعد واپس آئے۔ وہ علاج کے لیے برطانیہ گئے تھے، بلکہ علاج کے نام پر بیرونِ ملک بھجوائے گئے تھے، اور عدالت میں یقین دہانی کرائی گئی کہ جیسے ہی ان کے معالج نے تسلی کرائی کہ وہ سفر کے قابل ہیں وہ واپس آجائیں گے۔ ان کی وطن واپسی بتا رہی ہے کہ اپنے معالج کے بجائے مقتدر قوتوں کے کسی معالج کی تسلی پر وطن واپس آئے ہیں۔ اب انہیں اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا ہے۔ وطن واپسی پر مینار پاکستان پر کیے گئے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ملک میں آئین اور قانون کی عمل داری ہونی چاہیے، ان کے دل میں انتقام کی رتی برابر تمنا نہیں ہے، ان کی 40 سالہ سیاسی زندگی کا نچوڑ ہے کہ ملک کی ترقی تب ہی ممکن ہوسکتی ہے، جب سب مل کر کام کریں۔ نوازشریف یہ نکتہ پہلے سمجھ جاتے تو قوم کو کبھی غیر جمہوری مداخلت کے دن نہ دیکھنا پڑتے۔

جلسے میں تقریر سے پہلے نوازشریف نے کبوتر آزاد کیا، جس کے پَر کاٹ کر ان کے ہاتھ پر بٹھایا گیا تھا۔ نوازشریف کے خطاب کے بعد تجزیہ یہ ہے کہ اُن کے بھی پَر کاٹ کر ہی مینارِ پاکستان پر جلسہ کرنے کا موقع دیا گیا۔ اسلام آباد میں لینڈ کرنے کے بعد جس طرح کا انہیں پروٹوکول ملا، اگر اس کا آئین اور قانون کی عمل داری کی زبان میں ترجمہ کرنا ہو تو ہمیں دنیا بھر میں کہیں سے ایسی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ قانون یہی کہتا ہے کہ ایسے کیس میں مجرم پہلے عدالت کے روبرو پیش ہوتا ہے اور رہائی یا ضمانت کا فیصلہ حاصل کرنے کے بعد آزاد فضا میں گھومتا ہے۔ لیکن ہمیں اس کے برعکس منظر دیکھنے کو ملے ہیں۔ دستورِ پاکستان ملک کے ہر شہری کو برابری کی بنیاد پر سیاسی و سماجی حق دیتا ہے، لیکن جہاں آئین اور قانون پر سیاسی ضرورتیں غالب آجائیں وہاں ظلم اور ناانصافی ختم ہونے کی تمنا کرنا، یا آس لگانا عبث ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ عدالت کے فیصلہ سنائے جانے سے دو روز قبل ہی سب کو معلوم تھا، اور یہ بیشتر سیاسی راہنمائوں کے ہاتھوں میں تھا۔ نوازشریف نے قومی وقار، حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے، مہنگائی، ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بھی ذکر کیا اور کارکنوں کو یہ باور کروایا کہ وہ اب دوبارہ سے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال کر ان ناکامیوں سے دور لے جائیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ یہ کیسے کریں گے اور ان کے تعمیر و ترقی کے ایجنڈے کی جزیات کیا ہیں، اور ان کے پاس ایسا کون سا منصوبہ ہے جس کے ذریعے ملک کے حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ نوازشریف کا خطاب بیانیے کے لیے نہیں بلکہ کارکنوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے تھا جس میں کسی حد تک ایک پوشیدہ بیانیہ بھی تھا۔ نوازشریف آئندہ آنے والے دنوں میں بیانیے پر مزید بات کریں گے لیکن ان کی تقریر کارکنوں کے ساتھ دوبارہ جڑنے کی ایک کوشش تھی اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ نوازشریف نے کارکنوں کے ساتھ دوبارہ اپنی کیمسٹری بنائی ہے، اپنے آپ کو کارکنوں کے جذبات سے جوڑا ہے۔ ان کی حقیقی حکمت عملی اور بیانیے سے پردہ آنے والے دنوں میں ہی ہٹے گا۔ انہوں نے تقریر میں بظاہر تنازعات سے بچنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کو پُرامن ماحول میں بھی تنازع پیدا کرلینے کا ملکہ حاصل ہے۔ ان کی سیاست کا آغاز ہی تنازع تھا۔ یہ بھی اہم ہے کہ ان کا مخالف جیل میں پڑا ہے، اگر وہ باہر ہوتا تو اگلے دن ہی نوازشریف کے بیانیے میں سوراخ کردیتا۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے۔ ویسے ابھی نوازشریف نے اپنا بیانیہ نہیں دیا۔ پاکستان واپسی کے بعد پہلی تقریر میں بیانیہ نہیں بلکہ دوسری جماعتوں کو پیغام تھا کہ وہ بدلہ یا انتقام لینے نہیں آئے، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ وہ آہستہ آہستہ آنے والے دنوں میں اپنا بیانیہ کھل کر بتائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس نیا پیکیج کیا ہے؟ ٹھیک ہے تقریر میں بہت سے کارنامے سنائے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ تمام موٹرویز گروی کس نے رکھوائے اور کس کے دور میں رکھوائے گئے؟ ریڈیو پاکستان کی تمام عمارتوں سمیت بڑی بڑی سرکاری بلڈنگز کو گروی کس کے دور میں رکھوایا گیا ہے؟ تمام ائرپورٹس کس کے دور میں گروی رکھوائے گئے؟ ان کے دور میں پاکستان پر کتنا قرضہ بڑھا؟ 2013ء میں پاکستان پر کتنا قرض تھا اور جب انہوں نے اقتدار چھوڑا تو کتنا قرضہ تھا؟ جو قرضہ لیا گیا اُسے کتنے سال میں واپس کرنا تھا۔ لیے گئے قرضے کہاں استعمال ہوئے اور کتنا قرضہ ری شیڈول کروایا تھا؟ بہرحال حقائق یہی ہیں کہ اب سیاسی استحکام بہت ضروری ہے، سب ایک دوسرے کو برداشت کرکے آگے بڑھیں۔ اگر یہ ملک الیکشن کی طرف جا رہا ہے تو پارلیمنٹ میں پہنچ جانے والے اور رہ جانے والے سیاسی استحکام کے لیے پہلے ترجیحات طے کرلیں کہ ملک کیسے آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ طے ہونا بھی چاہیے اور قوم کے سامنے بھی آنا چاہیے۔

نوازشریف کی واپسی کوئی پہلی دفعہ نہیں ہورہی۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ مکمل اختیارات چاہتا ہے۔ مداخلت اسے پسند نہیں ہوتی۔ اسی لیے نوازشریف دو تہائی اکثریت اور سادہ اکثریت ہونے کے باوجود کام نہیں کرسکے۔ نوازشریف کے شکوے بہت زیادہ ہیں اور وہ صلح جُو بھی نظر آتے ہیں۔ شاید یہ بات وہ سمجھ چکے ہیں کہ ان کا وزیراعظم کے عہدے کے لیے اہل ہونا بھی ضروری ہے جو مستقبل میں عدالت سے مشروط ہے۔ انہیں احساس ہوا ہے کہ فی الحال پارٹی بچائی جائے جو پنجاب تک محدود ہوچکی ہے۔ پہلے وہ پنجاب میں دوسری پارٹیوں کے لیے چیلنج تھے، آج انہیں سب سے پہلے پنجاب سے ہی چیلنج درپیش ہیں۔ شہبازشریف ایک دن کے قیام کے فوراً بعد واپس لندن چلے گئے تھے، وہ یہی پیغام لے کر گئے تھے کہ فی الحال پارٹی پوزیشن بچائیں، چاروں صوبوں میں اکثریت حاصل کرنا کسی بھی پارٹی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ بظاہر ان کی واپسی سے سیاسی منظرنامہ بدل چکا ہے، مستقبل کی سیاسی اسکیم واضح ہوچکی ہے۔ اب نئی سیاسی صف بندیاں ہوں گی اور نئے تانے بانے بُنے جائیں گے، لیکن بہت بڑا سوال ہے کہ’’کسی کو‘‘ نئے وزیراعظم کے بجائے کہیں نئے کاکڑ کی تلاش تو نہیں؟ اگر ’’اُنہیں‘‘ ہی معیشت، زراعت اور خارجہ پالیسی چلانی ہے تو پھر اصل اقتدار کس کے پاس ہوگا، نوازشریف اقتدار لے کر کیا کرے گا؟ وہ تین بار پہلے وزیراعظم رہ چکا ہے، اس لیے اُس کے لیے اختیار سے خالی وزیراعظم کا عہدہ بے کار ہوگا۔ بلاشبہ وہ دفاع کے ساتھ ساتھ زراعت، معیشت، معدنیات اور خارجہ امور کے بارے میں بہت سے معاملات پہلے سے طے کیے ہوئے ہیں، ایسے میں وزیراعظم کو اختیار کہاں ملے گا؟ مسلم لیگ(ن) میں اصل بحث یہی ہے کہ وہ پارٹی کو چلائے، انتخابی مہم کو لیڈ کرے، پلان بنائے مگر خود وزیراعظم نہ بنے بلکہ شہبازشریف کو ہی دوبارہ موقع دیا جائے کیونکہ وہ ساتھ چلنے کا کامیاب تجربہ رکھتے ہیں۔ یقین کی حد تک یہ بات طے ہے کہ معاملہ خاندان میں طے ہوچکا ہے، سیاسی نعرہ تو یہی ہوگا کہ وزیراعظم کے امیدوار نوازشریف ہوں گے، تاہم وہ ایک معقول وقفے کے بعد شہبازشریف کو لائیں گے اور خود قائد بن کر، کوچ بن کر رہنمائی کریں گے۔ سیاست میں ان کی نمائندہ مریم نواز ہوں گی۔ مریم کی خواہش وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی ہے جو پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ اور اب اگر ملک انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ عمران خان کے لیے اس میں کیا گنجائش ہوسکتی ہے۔ مستقبل کا سیاسی منظرنامہ اس سوال کے جواب پر بھی منحصر ہے۔

نوازشریف کی تقریر کا عرق اور جوہری نکتہ یہ تھا کہ ملک میں اصل مسئلہ سیاست میں غیر جمہوری اور مقتدر قوتوں کی مداخلت ہے، لیکن مسئلہ سمجھنے کے باوجود اس کے حل کے لیے عوام سے حمایت مانگی اور نہ اس کے حل کا کوئی علاج تجویز کیا۔ پورا یقین ہے کہ شریف خاندان کا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ اب پنگا نہیں لینا، ہم خیال جماعتوں سے رابطہ کرنا ہے، پیپلزپارٹی کے کسی گلے شکوے کا کوئی جواب نہیں دینا اور مقدمات پر توجہ دینی ہے۔

نوازشریف کی وطن واپسی کو مسلم لیگ(ن) کے نکتہ نظر سے دیکھیں تو واقعی یہ قومی سیاست کا نہایت غیر معمولی واقعہ ہے۔ چار سال پہلے کسی کے لیے بھی یہ دعویٰ کرنا محال تھا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سے پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے تاحیات نااہل قرار دیے جانے اور ایک احتساب عدالت سے دس سال قید کی سزا پانے والے نوازشریف بغرضِ علاج بیرونِ ملک جانے کے بعد قطعی بدلے ہوئے حالات میں وطن واپس آئیں گے۔ تاہم اس مدت میں حالات بدل گئے ہیں اور بے شمار کردار بے نقاب ہوچکے ہیں جن کی وجہ سے اس ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی عمل داری اور سویلین بالادستی مسلسل مجروح ہوتی رہی۔ نوازشریف کے لیے بہتر ہوتا اگر وہ عدالت کے روبرو پیش ہوتے اور ضمانت کا فیصلہ حاصل کرکے جلسے سے خطاب کرتے۔ اب وہ ملک میں آئین کی حکمرانی اور قانون کی عمل داری کے جس قدر بھی دعوے کریں، سب دعوے سوالیہ نشان بنے رہیں گے ۔ انہیں سب سے پہلے عدالت سے کلین چٹ حاصل کرنی ہے، سیاست میں کردار تو بعد میں ادا کریں گے… اور انہیں بتانا ہوگا کہ ان کی واپسی کیسے ممکن ہوئی؟ کن شرائط پر ہوئی؟ باہر کیسے گئے اور واپس کیسے آئے؟ اگر وہ ان تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں جن کا ذکر انہوں نے تقریر میں کیا ہے تو پھر مقتدرہ کے سیاسی گناہوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا، اس کے بغیر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ محض فریب ہی ہوگا۔ جس عالی شان پروٹوکول سے ان کی واپسی ہوئی اس کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ ایک چبھتا ہوا سوال ہے کہ کیا نوازشریف کو چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کی گدی پر بیٹھنے دیا جائے گا؟ ان کی سیاست اور مزاج کا بار اُٹھانے کی کسی میں کتنی سکت ہے؟ نوازشریف سویلین بالادستی کی بات کرتے ہیں، تاہم ان کے بھائی شہبازشریف نے سب کچھ ایپکس کمیٹیوں کے سپرد کرکے اپنا اقتدار چھوڑا ہے۔ اس وقت وفاق ہو یا صوبے، سب جگہ ایپکس کمیٹیوں کا راج ہے۔ یہ ہائبرڈ نظام کی ایک نئی شکل ہے۔