بی بی سی اور اسرائیلی حکومت آمنے سامنے

فلسطین اسرائیل تنازع اور مغرب میں حکومتوں پر شدید عوامی دباؤ

غزہ کے اہلِ عرب اسپتال پر 17 اکتوبر 2023ء کی شام ہونے والے میزائل کے حملے میں 500 سے زائد قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد سے بی بی سی اور اسرائیلی حکومت کے درمیان تناؤ شدت اختیار کرگیا ہے۔ یہ صورتِ حال گوکہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے ہی جاری تھی جس میں اسرائیلی حکومت کا مطالبہ تھا کہ حماس کو دہشت گرد گروہ لکھا، کہا اور پڑھا جائے، لیکن بی بی سی انتظامیہ نے حماس کو دہشت گرد گروپ کے طور پر پیش کرنے سے انکار کردیا، اور اس کے لیے متبادل اصطلاحات مثلاً شدت پسند، عسکری گروپ اور مزاحمت کار کے الفاظ ادا کیے گئے۔ اس تنازعے کے آغاز سے شروع ہونے والا بی بی سی انتظامیہ پر یہ دباؤ اُس وقت شدت اختیار کرگیا جب غزہ کے اسپتال پر میزائل حملے کی رپورٹنگ کرنے کے دوران رپورٹر نے اس بات کا عندیہ اشاروں میں دیا کہ ہوسکتا ہے یہ اسرائیل کا میزائل حملہ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غزہ میں رپورٹنگ کرنے والی بی بی سی کی ٹیم کا دفتر اس اسپتال سے محض 500 میٹر کی دوری پر واقع ہے، اس حملے کے بعد بی بی سی کی ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچی ا ور کوریج کا آغاز کیا۔ اس دوران اسپتال کی تباہی کے مناظر اور زخمیوںیا زندہ بچ جانے والوں کو دوسرے اسپتال منتقل کرنے کے مناظر اسکرین پر دکھائے گئے۔ یہ سب کچھ اتنا اچانک تھا کہ شاید کسی نے بھی یہ گمان نہ کیا تھا کہ عین اُس وقت کہ جب امریکی صدر جوبائیڈن امریکہ سے اسرائیل کے دورے پر روانہ ہورہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ اردن میں مصر، اردن، اسرائیل اور فلسطین کے سربراہانِ مملکت سے ملاقات کریں گے، ایسا افسوس ناک واقعہ بھی پیش آسکتا ہے جوکہ ایک سنگین جنگی جرم ہے اور ماضی میں بھی ایسے اقدام کرنے والی قوتوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ بی بی سی کی کوریج کے ساتھ ہی الجزیرہ اور دیگر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی اور وہ خطہ جوکہ جنگ اور اس کے بعد امریکی صدر کے دورے کی وجہ سے پہلے ہی خبروں میں تھا اب بریکنگ نیوز میں آگیا۔ بی بی سی پر شدید دباؤ اور براہِ راست ٹوئٹر پر اسرائیلی حکومت کی جانب سے بی بی سی کو جھوٹا قرار دینے کے بعد صورتِ حال مزید کشیدہ ہوگئی اور بی بی سی نیوز کے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو جونتھن منرو نے رپورٹر کے اس اقدام کو محض ایک غلطی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ اس میں گوکہ براہِ راست الزام عائد نہیں کیا گیا تاہم رپورٹر کی جانب سے الفاظ کا استعمال درست نہیں تھا۔ بی بی سی نے مزید کہا کہ ہم نے خبر میں دونوں جانب کا مؤقف واضح کیا اور تمام تر صحافتی اقدار کا خیال کیا۔ اس خبر کی لائیو کوریج کرتے ہوئے بی بی سی کے رپورٹر جون ڈونیسن نے رپورٹ کیا تھا کہ یہ دھماکہ اسرائیل کے راکٹ کا حملہ ہوسکتا ہے۔

تاہم اس خبر کو بار بار حماس اور اس کے بعد اسلامی جہاد کا راکٹ حملہ قرار دیے جانے کے اسرائیلی بیانیے کو پذیرائی نہ مل سکی اور میڈیا میں ایک شدید قسم کی تقسیم سامنے آئی۔یہ اسرائیل فلسطین جنگ کا وہ پہلا موقع تھا کہ جس پر مغربی میڈیا نہ صرف تقسیم بلکہ شدید ترین طور پر تقسیم ہوا، اور اس کے بعد اسرائیلی حکومت نے میڈیا پر براہِ راست الزام عائد کیا کہ ان کی حملے کے بعد کی فوری خبروں نے خطے کو عدم استحکام کا شکار کردیا اور اس کا انجام امریکہ، اسرائیل، مصر اور فلسطینی سربراہانِ مملکت کی ملاقات کی منسوخی پر ہوا۔

اسرائیلی دورے پر موجود امریکی صدر جوبائیڈن نے اگلے ہی دن یروشلم میںیہ بیان دیا کہ اسپتال پر حملے کا ذمہ دار اسرائیل کو قرار نہ دیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ہی دوسری جانب برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے بھی ہاؤس آف کامنز میں اسی مؤقف کو دہرایا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورس اور اسرائیلی حکومت نے ٹوئٹر پر اپنا مؤقف جاری کیا جس میں باقاعدہ طور پر پروجیکشن کی مدد سے اس حملے کو فلسطین کا ہی میزائل حملہ قرار دینے کی کوشش کی گئی جوکہ اگلے دن کے کئی برطانوی اخبارات میں بطور خبر موجود تھی، اور ایک بار پھر دوسرے فریق کا مؤقف سرے سے ہی غائب تھا۔ تاہم سربراہانِ حکومت اور عوام کے درمیان اس مسئلے پر خلیج بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔یہ معاملہ صرف مسلم ممالک تک محدود نہیں بلکہ مغرب اب اس کی زد میں ہے کہ جہاں لندن اور واشنگٹن میں فلسطین کے حق میں اور غزہ پر مسلط جنگ کے خلاف ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ لندن میں 21 اکتوبر 2023ء بروز ہفتہ فلسطین کے حق میں مارچ کیا گیا جس کا آغاز ماربل آرچ سے ہوا اور اختتام برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر ہوا۔ مارچ میں ہر رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی۔ لندن میٹرو پولیٹن پولیس کے مطابق شرکاء کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، جبکہ میڈیا نے اس کو گزشتہ دو دہائیوں میں ہونے والا سب سے بڑا مظاہرہ قرار دیا۔ لندن کے اس مارچ کے بعد برطانوی وزیراعظم اور برطانوی میڈیا کے لب و لہجے میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور اب صورت ِحال یہ ہے کہ برطانوی اپوزیشن پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر بھی اسرائیل کے حقِ دفاع کے حوالے سے اپنے دیے گئے بیانات سے معذرت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

مغربی معاشرے میں غزہ کا معاملہ ایک سنگین انسانی المیے کے طور پر سامنے آرہا ہے کہ جہاں یورپی کمیشن کی سربراہ اور صدر کو بھی اسرائیل کا دورہ کرنے اور مکمل و غیر مشروط حمایت کرنے پر یورپی یونین کے اراکینِ پارلیمنٹ نے تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے پارلیمان کے مینڈیٹ کی توہین قرار دیا۔ کئی اراکینِ پارلیمان نے اس مسئلے پر دہرے عالمی معیار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اعداد و شمار کی روشنی میں غزہ میں مرنے والے اور یوکرین میں مرنے والے بچوں کو یکساں طور پر نہ سمجھنے کو عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ یورپی پارلیمنٹ کے رکن مک ویلس نے اس سنگین انسانی المیے کی جانب توجہ دلواتے ہوئے کہا کہ یوکرین کی جنگ میں 500 دنوں میں 545 بچے ہلاک ہوئے، جبکہ غزہ میں محض 10 دنوں میں 1000 سے زائد بچے ہلاک ہوچکے ہیں اور اس سنگین انسانی المیے پر ہمارا ردعمل یوکرین جنگ جیسا بھی نہیں ہے۔ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے سنگین جنگی جرائم پر کارروائی کا بھی مطالبہ کیا۔

اسپتال پر حملے کے بعد سے بتدریج میڈیا پر یک طرفہ کوریج کے حوالے سے تبدیلی آئی ہے، تاہم اب بھی فریق دوم کا مؤقف تقریباً غائب ہے، بس یہ ہوا کہ اب جنگ کے بجائے امن اور انسانی المیے کی خبریں صفحہ اول پر موجود ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعے میں تاریخ کی سب سے بڑی تبدیلی اب مغربی ممالک میں نظر آرہی ہے کہ جہاں ایک جانب ریاست ہےتو دوسری جانب عوام۔یہ صورتِ حال کم و بیش ہر ملک میں موجود ہے اور خود برطانوی معاشرے میں اب شدید ترین تقسیم سامنے آرہی ہے۔ غزہ پر سنگین بمباری کے بعد حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں اپیل کی کہ 20 اکتوبر 2023ء بروز جمعہ ان حملوں کی مذمت کی جائے۔ لہٰذا اس کا اثر اب مغرب تک محسوس ہوا۔ مانچسٹر میٹرو پولیٹن پولیس نے مسلمانوں کے علاقوں میں موجود اسکولوں کو انتباہ جاری کیا کہ اپنے بچوں کو ایسے مظاہروں سے دور رکھیں۔ اور اس ضمن میں باقاعدہ طور پر والدین کو اسکول انتظامیہ کی جانب سے خطوط ارسال کیے گئے کہ اپنے بچوں کو سٹی سینٹر میں کسی بھی قسم کے اجتماع میں نہ جانے دیں۔ اس کے علاوہ مساجد میں بھی نماز جمعہ میں اپیل کی گئی کہ پولیس نے سٹی سینٹر میں کسی اجتماع یا تصادم کی پیشگی اطلاع دی ہے لہٰذا اپنے بچوں کو وہاں اکیلے نہ جانے دیں۔ یہ معاملہ لندن میں بھی دیکھنے میں آیا کہ جہاں پولیس نے ایسی ہی اطلاعات کی بنیاد پر مساجد میں اپیلیں کیں۔ لیکن معاملہ اب سیاسی کشیدگی کی جانب جاتا نظر آرہا ہے کہ جہاں لندن میں ہونے والے مظاہرے حکمران کنزرویٹو پارٹی پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، وہیں دوسری جانب برطانوی پارلیمنٹ کی دو نشستوں کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ دونوں نشستیں کنزرویٹو پارٹی کی محفوظ نشستیں تصور کی جاتی تھیں جس میں ایک نشست پر کنزرویٹو پارٹی کو 90 سال بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ دوسری نشست بھی گزشتہ 27 سالوں سے کنزرویٹو پارٹی کے پاس ہی تھی۔ اس لحاظ سے اگلے سال ہونے والے انتخابات میں اب کنزرویٹو پارٹی کی شکست کے امکانات زیادہ نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب لیبر پارٹی بھی اپنے سربراہ کیئر اسٹارمر کے اسرائیل کے حق میں دیے جانے والے بیانات کی وجہ سے اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ گزشتہ دنوں لیسٹر کونسل کے کونسلرز نے پارٹی سربراہ کے بیان کو پارٹی پالیسی کے منافی قرار دیا تھا اور اب صورتِ حال مزید سنگین ہے، لیبر پارٹی کے 12 سے زائد کونسلرز نے اسرائیل کے حق میں پارٹی سربراہ کے بیان پر مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے، اس میں 8 کونسلرز کا تعلق آکسفورڈ شائر سے ہے۔ ان کے مستعفی ہونے سے آکسفورڈشائر کی کونسل میں لیبر پارٹی اپنی اکثریت کھو دے گی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر مسلم ووٹرز نے یہ سمجھا کہ لیبر پارٹی بھی اسرائیل کی اس جارحیت پر اسرائیل کے حق میں ہے اور وہ جنگ بندی کی اپیل نہیں کرتی تو ان کا ووٹ لیبر پارٹی کے حق میں نہیں جائے گا جس سے کم از کم 30 نشستوں پر لیبر پارٹی کو بھاری نقصان ہوسکتا ہے۔ آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں اب لیبر پارٹی کی جیت کی پیش گوئی کی جارہی ہے، لیکن اگر مسلم ووٹرز نے اپنا ووٹ لیبر پارٹی کے حق میں استعمال نہ کیا تو پھر لیبر پارٹی بھی اس دوڑ سے باہر ہوجائے گی، جبکہ کنزرویٹو پارٹی کے موجودہ وزیراعظم رشی سونک کے اسرائیل کی حمایت کے مؤقف پر برطانیہ کے نہ صرف مسلمانوں بلکہ سول سوسائٹی میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فلسطین اسرائیل تنازعے کا اب براہِ راست اثر برطانوی سیاست پر نظر آرہا ہے۔

حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023ء کے حملے کے بعد پوری دنیا میں ایک شدید بے چینی ہے اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید بمباری پر یک طرفہ جنگ کا جو منظرنامہ بن رہا ہے اس کے عالمی حالات پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ہر گزرتا دن جہاں اس انسانی المیے میں اضافہ کررہا ہے وہیںیہ عالمی ضمیر کا بھی شدید امتحان ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور اب دوبارہ غزہ ایک ایسی داستان کے حصے ہیں کہ جہاں دکھ، درد، غم اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں۔ جہاں ایک طرف مسلح قاتل ہے تو دوسری طرف بے بس، نہتا مقتول۔ طاقت کے عدم توازن کی جنگ، جس میں نقصان صرف بے بس عوام کا ہورہا ہے۔ لیکن اب 17 اکتوبر 2023ء کے غزہ اسپتال پر حملے کے بعد پوری دنیا میں ایک بیداری ہے۔یہ جنگ کتنی طویل ہوگی اس کا تو معلوم نہیں، لیکن یہ جنگ عالمی طاقتوں کے دہرے معیار کو بے نقاب کرچکی ہے، اور یہی شاید حماس کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اس نے سرد خانے میں جاتے ہوئے ایک مسئلے کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنادیا کہ جہاں خود اس مسئلے کی وجہ سے مغرب میں سیاست کی نئی صف بندی ہورہی ہے۔ یہ صدی جنگوں کی صدی رہی، اس صدی کے آغاز سے 2001ء میں ہی افغانستان جنگ کا آغاز ہوا اور اس کے بعد عراق، لیبیا اور شام… لیکن یہ جنگیں کسی نہ کسی طور پر فلسطین سے منسلک تھیں۔ ان جنگوں میں جیت کس کی ہوئی یہ کوئی راز نہیں، لیکن اب اس خطے میںجو جنگ جاری ہے اس کا انجام بھی پچھلی جنگوں سے مختلف نہ ہوگا۔ شاید کہ یہ جنگ طویل ہو، لیکن یہ مسئلہ اب اپنے منطقی حل کی جانب جائے گا، اور اگر یہ نہ ہوسکا تو شاید مغرب بھی شدید خلفشار کا شکار ہوجائےجوکہ کسی طور کسی کے لیے بھی بہتر نہ ہوگا۔