اسلامی تحریک کا احیا

چونکہ میرے پیش نظرتحریک اسلامی کا احیا ہے‘ اس لیے مجھے بھی…. تدریج کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کرنی پڑی ہے… ترجمان القرآن کی زندگی کے ابتدائی چار سال اس کوشش میں صرف ہوئے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں گمراہی کی جو جو شکلیں پیدا ہو گئی ہیں ان پر گرفت کی جائے اور اسلام سے جو روز افزوں بُعد اُن میں پیدا ہو رہا ہے‘ اسے روکا جائے۔ ابھی یہ کوشش جاری ہی تھی کہ ۱۹۳۷ء میں یکایک یہ خطرہ سامنے آگیا کہ ہندستان کے مسلمان کہیں اس وطنی قومیت کی تحریک کے شکار نہ ہو جائیں جو آندھی اور طوفان کی طرح ملک پر چھاتی چلی جا رہی تھی۔ یہ ظاہر بات ہے کہ ہم موجودہ ظالمانہ حکومت کے خواہ کتنے ہی مخالف ہوں‘ اور ہمارے دل میں اس کے پنجے سے نکلنے کی خواہش چاہے کانگریسی حضرات سے بھی بڑھی ہوئی کیوں نہ ہو‘مگر ہم کسی طرح بھی یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ جو لوگ اِس وقت تک تھوڑے یا بہت اسلام کے حلقۂ اثر میں ہیں اُن کو ہندستانی قوم پرستی کی تحریک اپنی ربط ِ عوام کی تدبیروں سے‘ اور اپنی واردھا اسکیم اور ودیامندر اسکیم کے ذریعے سے‘ اور اپنے سیاسی و معاشی تفوق کے زور سے اپنے اندر جذب کر لے ‘ اور ان کے نظریات اور ان کی زندگی کو اتنا متغیرکر دے کہ ایک دو پشتوں کے بعد ہندستان کی آبادی میں اسلام اُتنا ہی اجنبی ہو کر رہ جائے جتنا جاپان یا امریکہ میں ہے۔

اس خطرے کو اور زیادہ پریشان کن جس چیز نے بنا دیا وہ یہ تھی کہ محض انگریزی اقتدار سے آزاد ہونے کے لالچ میں مسلمانوں کے مذہبی رہنمائوں کا ایک سب سے زیادہ بااثر طبقہ اس وطنی قوم پرستی کی تحریک کا معاون بن گیا اور اس نے انگریز دشمنی کے اندھے جوش میں اِس چیز کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیں کہ اس تحریک کا فروغ ہندستان میں اسلام کے مستقبل پر کس طرح اثرانداز ہوگا۔لہٰذا اس خطرے کا سدِّباب کرنے کے لیے میں نے ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ ۱۹۳۷ء کے آخر میں اور پھر دوسرا سلسلہ ۱۹۳۹ء کے آغاز میں شائع کیا۔ ان دونوں مجموعوں میں میرے پیش نظر صرف یہ چیز تھی کہ مسلمان کم از کم اپنی مسلمانیت کے موجودہ مرتبے سے نیچے نہ جانے پائیں اور اپنے تشخص کو گم نہ کر دیں۔ اس لیے میں نے ان کے اندر اسلامی قومیت کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کی‘ ان کو اس جمہوری لادینی نظام حکومت کے نقصانات سے آگاہ کیا جو واحد قومیت کے مفروضے پر ہندستان میں قائم کیا جا رہا تھا ‘ اُن آئینی تحفظات اور ’’بنیادی حقوق‘‘ کی حقیقت واضح کی جن پر اعتماد کر کے مسلمان اس مہلک جمہوری دستور کے جال میں پھنسنے کے لیے آمادہ ہو رہے تھے‘ اور ان کے سامنے شعبہ دارالاسلام کا نصب العین پیش کیا تاکہ کسی نصب العین کے موجود نہ ہونے سے خیالات اور اعمال کی جو پراگندگی ان کے اندر پیدا ہو گئی ہے وہ بھی دور ہو اور ان کو نظر جمانے کے لیے ایک ایسا مطمح نظر بھی مل جائے جو نہ تو اصل اسلامی نصب العین کی سمت سے ہٹا ہوا ہو اور نہ اتنا زیادہ بلند ہو کہ اس کی بلندی کو دیکھ کران کی ہمتیں پست ہو جائیں۔

(مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (حصہ سوم) ‘ابوالاعلیٰ مودودیؒ‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۷‘ عدد ۶‘ ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ‘ فروری ۱۹۴۱ء‘ ص ۴۱۲-۴۱۳)۔

مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔