عدالتِ عظمیٰ کا تاریخی فیصلہ

مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریہ پاکستان خالصتاً جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ قیامِ پاکستان میں مسلح جدوجہد کا قطعی کوئی کردار نہیں رہا۔ بانیانِ پاکستان چونکہ جمہوریت پر پختہ یقین رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے مملکت کے لیے جمہوری نظام ہی تجویز کیا۔ مگر اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ وطنِ عزیز کی تاریخ کا کم و بیش نصف عرصہ براہِ راست فوجی آمریت یہاں مسلط رہی اور باقی مدت میں بھی یہاں کے عوام کو حقیقی جمہوریت اور اس کے ثمرات سے استفادے کا موقع کبھی نہیں مل سکا۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ آج جمہوریت کے بلند آہنگ دعویداروں کا کردار بھی ہمیشہ فوجی آمروں کے زیر سایہ ہی پروان چڑھا اور وہ کبھی خودساختہ فیلڈ مارشل کی کابینہ کا حصہ بن کر فوجی آمر کو ’’ڈیڈی‘‘ کہتے رہے، اور کبھی آمر کی ’’باقیات‘‘ ہونے پر فخر کرتے پائے گئے، جب کہ رہے سہے جمہوریت پسند بھی وقت کے آمر کو بیس بار وردی میں ملک کا صدر منتخب کرانے کے دعوے کرتے پائے گئے، یا تاریخ میں پہلی بار ایک پیج پر ہونے کا اعزاز اپنے نام کرنے پر شاداں و فرحاں دکھائی دیئے۔ یہ الگ بات کہ ثبات ان میں سے کسی کے بھی حصے میں نہیں آیا، اور آخرکار ان سب کو جمہوریت ہی کے سائے تلے پناہ لینے میں عافیت محسوس ہوئی۔ ’دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا‘۔ حالانکہ حقیقت وہی تھی اور وہی ہے جس کا اظہار اپنے وقت کے عظیم اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے سخت ترین مارشل لا کے دور میں برملا کیا تھا کہ ’’گھر کے افراد کے آپس میں کتنے بھی تنازعات اور جھگڑے ہوں، گھر کے چوکیدار کو بہرحال یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ گھر پر قبضہ کرلے اور اہلِ خانہ پر حکم چلانے لگے‘‘۔

وطنِ عزیز میں کہنے کو تو آج بھی ’’جمہوریت‘‘ کا دور دورہ ہے مگر عملاً یہاں جو حالات ہیں اس کے حقائق چھپائے نہیں چھپتے اور صورتِ حال اگرچہ ؎

خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

کی سی ہے، مگر قوم اب اس قدر باشعور ضرور ہوچکی ہے کہ جمہوری اور عوام کے منتخب وزیراعظم کے دعوے کرنے والوں کو بھی ’’بوٹ پالش‘‘ کے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ اس پس منظر میں عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ یقیناً امید کی کرن اور تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیا جائے گا کہ عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کا کوئی جواز نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے میں اِسی برس 9 اور 10 مئی کے ملزمان کے مقدمات عام قانون یا خصوصی قانون کے تحت فوجی نہیں، بلکہ فوجداری عدالتوں میں چلانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پانچ میں سے چار ججوں کے اکثریتی فیصلے میں آرمی ایکٹ کی تین شقیں غیر آئینی قرار دے دی گئیں جن کے تحت سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے۔ 9 مئی کے واقعات میں ملوث 103 افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔ عدالت نے مختصر متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔ جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک کے اکثریتی فیصلے میں آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی کی دونوں ذیلی شقیں ون اور ٹو غیر آئینی قرار دے دی گئیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے اور ان کے مقدمات عام عدالتوں میں چلانے کے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا تاہم آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کی دونوں شقوں اور سیکشن 59 کی ذیلی شق چار کو غیر آئینی قرار دینے پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔ آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی کی ذیلی شق ون اور ٹو میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کا ذکر ہے جو دفاعی فورسز کا حصہ نہیں، ایسے لوگ جن کے خلاف بصورتِ دیگر اس ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی ان کے خلاف بھی ایسے جرائم کی پاداش میں کارروائی کی جا سکتی ہے جو دفاعی، اسلحہ، بحریہ، فوج یا فضائی فورس اسٹیبلشمنٹ یا اسٹیشن، بحری جہاز یا ایئر کرافٹ، یا بحری، بری یا فضائی فوج کے امور سے متعلق ہوں، جب کہ سیکشن 59 کی ذیلی شق چار ایسے الزام پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کی بات کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ زیر حراست 103 ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالتوں میں چلے گا، 9 اور 10 مئی کے ایسے دیگر ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالتوں میں چلایا جائے، ملزمان کا ٹرائل عام قانون یا اسپیشل لا کے تحت کیا جائے۔ 10 مئی کے واقعات پر آرمی کورٹس میں چلائے گئے مقدمات غیر مؤثر قرار دیئے گئے ہیں، کورٹ مارشل سمیت کسی قسم کی بھی کارروائی غیر مؤثر ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کے حق میں دائر کی گئی 9 درخواستیں خارج کردیں۔

عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس سے آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس فیصلے سے ملک کے عدالتی نظام کی بالادستی اور وقار بحال ہوگا، سول عدالتوں پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا، ملک میں جمہوری سیاسی نظام کو استحکام حاصل ہوگا اور اس تاثر کو تقویت ملے گی کہ تمام ادارے خواہ وہ کتنے بھی طاقت ور ہوں، آئین کے تابع ہیں۔ فیصلے کے یہی وہ مثبت اور روشن پہلو ہیں جن کے پیش نظر ملک کے تمام اہم آئینی و قانونی ماہرین نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے خوش آئند قرار دیتے ہوئے ملک کے روشن، جمہوری مستقبل کی جانب ٹھوس پیش رفت قرار دیا ہے جس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوسکے گا۔ مگر حالات کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کی نگران جمہوری حکومت، جس کا واحد بنیادی اور اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ ملک میں آئین میں طے کردہ مدت کے اندر صاف، شفاف، غیر جانب دارانہ، عادلانہ اور قابلِ اعتماد عام انتخابات کو یقینی بنائے اور اس مقصد کے لیے ماحول سازگار رکھے، وہ دنیا جہاں کے سارے کام کرنے میں مصروف ہے مگر اپنے بنیادی آئینی فریضے عام انتخابات کی بات تک کرنے پر تیار نہیں، اور اس مقصد کے لیے آئین میں مقررہ 90 دن کی مدت گزر جانے کے باوجود اسے اس بات کی قطعی پروا نہیں کہ وہ آئین کی پامالی کی مرتکب ہورہی ہے۔ اپنے اس طرزِعمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اب نگران وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ بھی سامنے آیا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کے اس تاریخی فیصلے کے خلاف اپیل کی جائے گی اور ملک کی سول نگران حکومت عدالت سے استدعا کرے گی کہ مملکت کے عام شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی اجازت دی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں، آخر کیوں؟ کیا یہ ملک کے آئینی عدالتی نظام پر عدم اعتماد نہیں؟

(حامد ریاض ڈوگر)