حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
”وہ شخص ہماری امت میں سے نہیں جومصیبت کے وقت گریبان پھاڑے
گال پیٹے اور کافروں کی طرح پکارے یعنی ناشکری کی باتیں کرے“۔
(جامع ترمذی ،جلد اول باب الجنائز،حدیث نمبر999)
(دوسراحصہ)
ان چیزوں کی تردید کے لیے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح تصور نکھار کر پیش کرنے کے لیے فرمایا گیا:
قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌo (1:112)
اے نبیؐ ان لوگوں سے کہہ دو کہ اللہ ایک ہے۔
وہ اللہ کہ جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے ہو، وہ اللہ ایک ہے۔ اس کے لیے یہاں واحد کے بجائے احد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اپنی ذات میں مرکب نہیں ہے۔ دیکھیے یہ ایک میز ہے لیکن یہ کتنے اجزاء کا مرکب ہے۔ ایک آدمی کو آپ کہیں گے کہ یہ ایک آدمی ہے، لیکن دیکھیے کہ یہ کتنے اجزاء کا مرکب ہے۔ کتنی چیزیں اس کے ظاہر میں ہیں اور کتنی چیزیں اس کے باطن میں ہیں جن کے جمع ہونے سے وہ ایک شخصیت بنا۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کا واحد نہیں ہے۔ وہ اس معنی میں واحد نہیں ہے کہ اس کی ذات بہت سے اجزا سے بنی ہوئی ہے، یا یہ کہ بہت سے اعضاء، بہت سی قوتیں اور بہت سی قابلیتیں جمع ہو کر وہ ہستی بنی ہے۔ وہ ان سب کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں احد ہے۔
٭… خدا کا کوئی ہم جنس نہیں: پھر اس معنی میں بھی احد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جنس کا احد نہیں ہے۔ مثلاً جیسے انسان ہے کہ انسانوں میں سے ایک فرد ہے۔ انسانوں کی ایک پوری نوع پائی جاتی ہے جس میں سے ایک انسان ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مختلف الہٰوں اور معبودوں کی کوئی نوع اور جنس پائی جاتی ہو جس کا ایک فرد اللہ ہے۔ اس زمانے میں عوام میں جو غلط فہمی پائی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ بہت سارے الٰہ ہیں جن میں سے ایک الٰہ اللہ ہے اگرچہ وہ سب سے بڑا ہے۔ اس غلط فہمی کو یہی لفظ احد ختم کرتا تھا۔ یعنی اپنی ذات میں وہ مرکب نہیں ہے بلکہ اپنی ذات میں بھی وہ بالکل یکتا اور یگانہ ہے اور وہ کسی چیز کا مرکب نہیں ہے۔ اس کی ذات میں کسی قسم کی کثرت نہیں پائی جاتی۔ وہ واحدِ خالص ہے۔ دوسری طرف وہ کسی نوع اور کسی جنس کا فرد نہیں ہے بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک ہی ہے۔ کوئی اس کا ہم جنس نہیں۔
٭… الصَّمَدُ کا مفہوم: اَللّٰہُ الصَّمَدُ o (2:112) اللہ صمد ہے۔
صمد عربی زبان میں ایسے سردار کو کہتے ہیں جس کے اوپر کوئی اور ہستی نہ ہو، کوئی دوسرا سردار اس سے بالاتر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ عرب اس لفظ کو اس معنی میں بولتے تھے کہ وہ ایسا سردار ہے کہ سب اس کے حاجت مند ہیں اور وہ کسی کا حاجت مند نہیں۔ سب اپنی حاجتوں اور ضروریات کے لیے اس کی طرف دوڑتے ہیں اور اس سے مانگتے ہیں لیکن وہ کسی سے مانگنے نہیں جاتا۔ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اس معنی میں لفظ صمد استعمال ہوتا تھا۔
یہاں اللہ کے لیے الصمد استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ یہ صفت صرف اسی ایک میں پائی جاتی ہے۔ ال: ایسے ہی ہے جیسے انگریزی زبان میں The کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ الصمد کا مطلب یہ ہوا کہ وہی ایک ایسی ذات ہے کہ جس سے بالاتر کوئی ذات نہیں۔ اس کی سرداری ایسی ہے کہ اس کے اوپر کوئی دوسری سرداری نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اور ہر ایک اس کا محتاج ہے۔ ہر ایک اپنی ضروریات اور حاجات کے لیے اس کی طرف دوڑتا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ شعوری طور پر دوڑتا ہو یا غیر شعوری طور پر۔ وہ لوگ بھی غیر شعوری طور پر اسی کی طرف دوڑتے ہیں جو اس کی ذات کے منکر ہیں۔ وہ بھی اسی کے محتاج ہیں۔ اگر وہ نہ دے تو کچھ نہیں پا سکتے۔
٭… اللہ تعالیٰ کے بارے میں تصورِ اولاد کی حقیقت: لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ o (3:112) نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ کسی سے جنا گیا۔
قدیم زمانے میں بھی اور آج بھی مشرکین کی جو غلط فہمیاں ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے۔ مشرکینِ عرب ملائکہ کے لیے خدا کی بیٹیوں کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ ان کے ذہن میں یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ہم تو اولاد رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ بے اولاد ہی ہو۔ اس لیے وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہوئے انہیں اللہ تعالیٰ کی چہیتی بیٹیاں کہتے تھے۔
دوسرے یہ کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے متعلق جو تصورات رکھتے تھے، یعنی ہندوئوں کے ہاں جو پوری دیومالا موجود ہے، اس کے اندر کچھ ایسا ہی نقشہ سامنے آتا ہے کہ اس ایک ذات نے اپنے اندر سے دوسرے دیوتائوں کو نکالا ہے۔ کوئی چیز اس کے اندر سے نکلی ہوئی اور اس کی پیدا کی ہوئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس کے اندر سے نکلی ہوئی ہو۔ جننے کا لفظ تو بہت ہی Prob لفظ ہے۔ جن لوگوں نے فلسفے بگھارے ہیں انہوں نے اپنے فلسفوں میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ذاتِ واحد نے اپنے اندر سے ہی ساری اشیاء کو نکالا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ ذات ِ واحد نے اپنے اندر سے ان اشیاء کو نکالا ہے، بلکہ ذاتِ واحد نے اپنے ارادے سے، اپنی صفت و حکمت اور اپنی قدرت سے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے۔
وَلَمْ یُوْلَدْ o (3:112) اور نہ وہ جنا گیا۔
قدیم زمانے سے آج تک لوگوں کے ذہن میں یہ تصورات رہے ہیں کہ بھئی اگر خدا نے سب کو پیدا کیا ہے تو اس کو بھی کسی نے پیدا کیا ہو گا۔ عام طور پر جاہل آدمی اس طرح کا سوال کرتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ اگر خدا کو کسی نے پیدا کیا ہو نعوذ باللہ تو اس کو بھی کسی اور نے پیدا کیا ہو گا۔ یہ سلسلہ کہیں جا کر ختم نہیں ہوتا۔ کوئی ایسی ہستی چاہیے جس کا کوئی پیدا کرنے والا نہ ہو اور وہ سب کو پیدا کرنے والی ہو، تب جاکر یہ مسئلہ حل ہوتا ہے۔ اس کائنات کا یہ Ultimate Problemجا کر حل ہی اُس وقت ہوتا ہے جب آپ ایک ایسی جگہ جاکر ٹھیریں کہ جس کے اوپر کوئی خالق نہ ہو اور وہ سب کا خالق ہو، ورنہ یہ سلسلہ کہیں جاکر ختم نہیں ہوتا۔ جس کو بھی آپ کہیں گے کہ اُس نے پیدا کیا ہے تو وہی خالق ہوگا۔ اُس کے لیے لفظ خالق استعمال ہی نہیں ہوسکتا جس کو کوئی اور پیدا کرے۔ خالق تو وہی ہے جس کا کوئی اور پیدا کرنے والا نہ ہو اور وہ سب کو پیدا کرنے والا ہو۔ ان کی اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا گیا کہ ’’نہ وہ کسی سے جنا گیا۔‘‘ وہ ایک ایسی واحد ذات ہے جو کسی جنس کا فرد نہیں بلکہ وہ اپنی ذات سے فردِ فرید ہے۔ ایک ایسی ذات ہے جس کے سب محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، اور جس سے بالاتر کوئی دوسرا اقتدار نہیں ہے۔ اور وہ ایک ایسی ذات ہے کہ جس کو کسی نے نہیں جنا ہے۔ مطلب یہ کہ کوئی اس کا خالق نہیں ہے، اور نہ اس سے کوئی جنا گیا ہے، یعنی اس نے اپنے اندر سے کسی کو نہیں نکالا ہے۔ (جاری ہے)