فکرِ اسلامی کے حجابات

فکرِ اسلامی کیا ہے اور یہ کیسے وجود میں آتی ہے؟ کیا فکرِ اسلامی ایک متعین چیز کا نام ہے؟ یا اس میں تغیر کا امکان رہتا ہے؟ اور اگر یہ امکان رہتاہے تو کس حد تک؟ فکرِ اسلامی انسانی غور وفکر کے نتیجے کا نام ہے۔ انسان جب بھی غور و فکر کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچتا ہے تو اس کی فکر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اسلامی فکر دراصل ایک انسانی کوشش کا نتیجہ ہے جس میں اسلام کو مرجع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، البتہ اس سے یہ مطلب نکالنا غلط ہوگا کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات مکمل طور پر انسانی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ اسلامی تاریخ اور اسلامی لٹریچر کی تاریخ کے سرسری مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا بڑا حصہ اُن چیزوں پر مشتمل ہے جن کا تعلق انسانی کوششوں سے ہے، اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلامی فکر کے مختلف اجزا میں اختلافات کی پوری گنجائش موجود ہے، اور یہ اختلافات ایک وقت میں مختلف غور و فکر کرنے والوں کے درمیان بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا حل صرف اور صرف مکالموں، گفتگوئوں، بحث و مباحثہ کے صحت مند ماحول میں پوشیدہ ہے۔ خوب صورت ماحول میں آزاد گفتگو کے درمیان موازنہ اور بالآخر بہتر افکار تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔

صاحبزادہ محمد امانت رسول ’’حرفِ اوّل‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’فکرِ اسلامی کے حجابات بہت اہم کتاب ہے۔ اسلامی تحریکوں کی فکری ترجیحات، فکری و علمی حجابات جیسے عنوانات کے تحت مصنف نے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی زندگی میں وظائف کی ادائیگی یا عدم ادائیگی میں جو فہم و تعبیر کے حجابات ہیں، ان پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کتاب میں اسلامی تحریکوں کے افراد و ارکان کی تربیت میں جو عملی کمزوریاں درآئی ہیں، انہیں بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ میں نے اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ میں اس کتاب کو جدید مذہبی ذہن کے لیے مفید خیال کرتا ہوں۔ یہ کتاب اسلامی تحریک کے نظم و ضبط میں رہنے والے افراد کو داخلی نظامِ فکر میں اجتہاد کے ذریعے تبدیلی کی دعوت دیتی ہے۔ ایک تحریک فرقہ بننے سے محفوظ رہ سکتی ہے اگر اسے جدید ذہن اور تازہ افکار کے حامل افراد میسر آجائیں۔ یہ کتاب خاص طور پر ان افراد کے لیے ’’نسخۂ کیمیا‘‘ ہے‘‘۔

اس کتاب کے تعلق سے ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’زیر نظر کتاب موجودہ دور کے اہم موضوع سے بحث کرتی ہے۔ فکرِ اسلامی کیا ہے؟ اس کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟ موجودہ دور میں اسلام کے احیا کے لیے کام کرنے والوں کو کن موضوعات پر فوکس کرنا چاہیے؟ وہ کیا ایشوز ہیں جن میں بعض مسلم شخصیات یا گروہوں کی جانب سے اختیار کردہ نقطہ ہائے نظر صحیح اسلامی فکر کی ترجمانی نہیں کرتے؟ اس کتاب میں ان سوالات سے بحث کی گئی ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے ان پر تفصیل سے اظہار خیال کیا گیا ہے‘‘۔

وہ مزید لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی معروف محقق و مصنف ہیں۔ علوم اسلامیہ کے مختلف پہلوئوں پر ان کی تصانیف اور تراجم کی تعداد پانچ درجن سے متجاوز ہے۔ فکرِ اسلامی اور اس کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ زیر نظر کتاب بھی دراصل مختلف سیمیناروں میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ ہے‘‘۔

اس کتاب کو اصلاً تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے باب کا عنوان ہے ’’فکرِ اسلامی اور اس کے امتیازات‘‘۔ فاضل مصنف نے فکرِ اسلامی کی چھ خصوصیات بیان کی ہیں: توحید کی ترجمانی، تدبر اور تدبیر کا باہم رشتہ، خلافت اور تسخیر کا لزوم، ثبات کے ساتھ تبدیلی، حریتِ فکر کی پاسبانی اور اسلامیت و انسانیت کے درمیان اعتدال۔ باب دوم ’’اسلامی تحریکوں کی فکری ترجیحات‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے یہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں عالمی اسلامی تحریکات نے کس طرح اپنے روایتی مؤقف میں تبدیلی کی اور وہ آراء اختیار کیں جو عہدِ جدید سے زیادہ ہم آہنگ ہیں۔ تیسرا باب، جو کتاب کے مرکزی موضوع سے بحث کرتا ہے، ’’فکری و علمی حجابات‘‘ پر ہے۔ اس میں دس عناوین کے تحت فاضل مصنف نے مختلف مثالیں پیش کرکے یہ دکھایا ہے کہ کس طرح پیش آمدہ مسائل میں درست مؤقف اختیار نہیں کیا گیا۔ پیش کردہ مثالوں میں سزائے رجم، حجاب، حرمتِ مصاہرت، خواتین کی مساجد میں حاضری، افغانستان میں مہاتما بدھ کے مجسموں کا انہدام، تکفیری رجحانات، صوفی اسلام اور وہابی اسلام کی تفہیم، خلیج میں شیعہ سنی کش مکش، مسلکی منافرت، ارتداد اور توہینِ رسالت کی سزائیں وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

آخر میں نتیجۂ بحث پس چہ باید کرد اور ضمیمہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔

یہ کتاب عصری اہمیت کے حامل اہم موضوعات سے بحث کرتی ہے جو وقت کا تقاضا ہیں۔ امید ہے علمی حلقوں میں اسے قبولِ عام حاصل ہوگا اور اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ کتاب سفید کاغذ پر اچھی طبع ہوئی ہے۔