قدرت لوگوں کو چن لیتی ہے یا ان پر مہربان ہوجاتی ہے، یا پھر یہ کہہ لیں ان پر زیادہ مہربان ہوجاتی ہے۔ لوگ مختلف حوالوں اور وسیلوں سے سامنے آتے اور چھا جاتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کے دنیا کے سامنے آنے اور پوری دنیا میں معروف ہونے کا حوالہ اردو زبان بنی۔ اردو زبان کے ساتھ ترکوں کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں زبانوں کے درمیان گہرے تہذیبی اور لسانی روابط ہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کی شخصیت بھی خوشبو کی طرح ہے۔ لوگ ان کی عزت کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں اور یہ خدا کا بڑا کرم ہوتا ہے، خدا کرے ان کا یہ اعزاز ہمیشہ برقرار رہے۔
’’پاکستانی ادب کے معمار ڈاکٹر خلیل طوقار، شخصیت و فن‘‘ اس وقت پیش نظر ہے۔ اس خوب صورت تصنیف کے مصنف پاکستانی ادب کے نامور نقاد، منفرد شاعر، محقق، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار، ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر اشرف کمال ہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کی شخصیت اور ان کے ادبی کارناموں کو ڈاکٹر اشرف کمال نے عالمی منظرنامے پر لاکر اردو کی ترویج و ترقی کے حوالے سے لائقِ تحسین کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
استنبول یونیورسٹی ترکیہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خلیل طوقار ممتاز شاعر، محقق، نقاد، مترجم ہونے کے ساتھ اردو زبان و ادب کے معلم بھی ہیں۔ اس کتاب کی فہرست مصنف کے فنِ مہارت سے مرتب کی گئی ہے۔
’پیش نامہ‘ میں ڈاکٹر یوسف خشک لکھتے ہیں: ’’پاکستان کی قومی زبان اردو سے محبت اور اس کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنے والے عاشقانِ اردو اندرونِ ملک ہی موجود نہیں ہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی یہ ہمیشہ ایک قابلِ ذکر تعداد میں موجود رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اردو کی ترویج و ترقی کے حوالے سے جن احباب کا نام قدر سے لیا جاتا ہے ان میں ایک ڈاکٹر خلیل طوقار بھی ہیں‘‘۔
’پیش لفظ‘ میں مصنف لکھتے ہیں: ’’بے شک پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار ایک ترک ہیں اور انہوں نے بی اے کی سطح پر اردو سیکھنا شروع کی، لیکن انہوں نے اردو سے اپنا رشتہ ناتا جوڑلیا اور اردو اور پاکستان سے اس طرح والہانہ محبت کرنے لگے کہ اب خلیل طوقار، اردو اور پاکستان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل نظر آتا ہے‘‘۔
کتاب کے پہلے باب میں خلیل طوقار کے حالاتِ زندگی میں خاندانی و تہذیبی پس منظر، پیدائش، والدین، بچپن، گھریلو ماحول، تعلیم و تربیت، شادی، ملازمت، شاعری کا آغاز، پسندیدہ صنف، پسندیدہ شعر، ان کا سب سے پسندیدہ شعر نعت کا ہے۔ وہ شعر یہ ہے:
جاں بدن میں ہے گرفتار اس ہی غم میں، میں ہوں بیزار
کر مجھے آزاد غم سے، تجھ سے فرماں یا محمدؐ
پہلی مطبوعہ نظم، پہلی نثری تحریر، پسندیدہ شاعر و ادیب، ادبی محرکات اور مقاصد، ادبی سرگرمیاں، زبان اور تہذیب و ثقافت، کانفرنسیں، اعزازات، پاکستان سے محبت، اردو زبان، مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال، سیرتِ کردار وغیرہ۔ ان کی شخصیت اور سیرت میں بہت سے ایسے پہلو ہیں جو انہیں ایک اچھا آدمی اور دردمند انسان ثابت کرتے ہیں۔ خلیل طوقار کی شاعری کا جہاں تک تعلق ہے انہوں نے نظم نگاری سے اپنی شاعری کا آغاز کیا، ان کی کچھ نظموں کا اسلوب مادری زبان کے حوالے سے ترکی زبان کی شاعری کے اسلوب کے قریب ہے۔ یہ تو طبعی بات ہے کہ شاعری کے ابتدائی مراحل سبھی کے لیے مشکل ہوتے ہیں، اسی لیے انہیں بھی اپنے جذبات کے اظہار کے لیے شروع میں مشکل ہوئی ہوگی مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ میں اردو کے بجائے ترکی زبان میں شاعری شروع کروں جس کا اظہار انہوں نے اپنے مجموعہ کلام ’’ایک قطرہ آنسو‘‘ میں کیا ہے۔
ادبی خدمات:ڈاکٹر خلیل طوقار کی جہاں تک ادبی خدمات کا تعلق ہے تو اس کے حوالے سے ان کے ادبی کام کی کئی جہتیں بنتی ہیں، وہ بہ یک وقت کئی اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، کبھی شاعر، کبھی افسانہ نگار اور کبھی سفرنامہ نگار۔
شاعری:ڈاکٹر خلیل طوقار ایک نقاد، محقق اور ماہرِ تعلیم و تدریس ہونے کے ساتھ خوب صورت جذبوں کے شاعر بھی ہیں۔ ان کے شعری مجموعے ہیں ’’ایک قطرہ آنسو‘‘،’’آخری فریاد‘‘ اور ’’پردیسی‘‘۔ ان کی متنوع شاعری ان کے لطیف جذبات و احساسات کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے نظم اور غزل کے علاوہ نعت اور حمد بھی لکھی ہیں۔ ان کی نعت کے یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں:
مال و دولت جان و صحت جو میرا ہے وہ تیرا ہے
یہ خلیلؔ دربدر تجھ پہ قربان یا محمدؐ
کتاب کا ابتدائی حصہ ڈاکٹر خلیل طوقار کے حالاتِ زندگی پر ہے، دوسرا حصہ ڈاکٹر خلیل طوقار کی ادبی خدمات پر مشتمل ہے، تیسرے باب میں ڈاکٹر خلیل طوقار کی مطبوعہ تصانیف شامل ہیں، چوتھے حصے میں مطبوعہ کتب اور فکر و فن پر مبنی کام کی تفصیل ہے، پانچویں حصے میں تصانیف کا مختصر تنقیدی جائزہ ،پھر معاصرین اور ناقدین کی آرا، ڈاکٹر خلیل طوقار کے حوالے سے لکھی گئی تحریریں، نمونہ کلام و نثر، ڈاکٹر خلیل طوقار کے انٹرویوز اور پھر کتابیات کا حصہ شامل کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں ڈاکٹر اشرف کمال نے ڈاکٹر خلیل طوقار کی شخصیت کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کی شخصیت اور ان کے فکر و فن کو منظرعام پر لانے کے لیے یہ کتاب ایک کامیاب کوشش ہے جس کے لیے وہ ہدیۂ تبرک کے مستحق ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوب صورت طبع کی گئی ہے۔ ترکی سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک انمول تحفہ ہے۔