تشریحات
ہم اب ازمنہ وسطیٰ میں ’تصور‘ پر چند کلیوں کے جائزے پر توجہ دے سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ مؤرخین کی مانند ایک کے بعد ایک فلسفہ یا فلسفوں کا تسلسل یا ربط پیش کریں، ہم چند اہم ترین مفکرین کو الگ کرلیتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ اس عہد میں ’تصور‘ پر اسلوبِ تحقیق وضع کرنے میں کامیاب ہوئے۔ خاص طور پر ’تصور‘ کے بیان میں جو علامتیں اور استعارے استعمال ہوئے، دلچسپ ہیں۔ یا اسے اگر تکنیکی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو ’توضیحی نمونہ‘ کہا جاسکتا ہے: ایک خاص طریقہ تشریح۔ یہ ازمنہ وسطیٰ کے فلسفوں میں ’تصور‘ پر بین السطور بیانیہ کی نمائندگی کررہا ہے۔
رچرڈ سینٹ آف وکٹر
ہم بارہویں صدی کے رچرڈ سینٹ آف وکٹر کے کام De Unione Corporis et Spiritus کے چند متون سے مذکورہ استعاراتی طریقہ تحقیق کی چھان پھٹک کرتے ہیں۔ پہلے متن میں، رچرڈ خبردار کرتا ہے کہ آدمی کا ’’تصور‘‘ روحانی مراقبوں سے بگاڑ پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے وہ ایک تمثیل پیش کرتا ہے، کہ ایک خاتون جو خود میں گُم رہتی ہے، اپنی دلیل کے خول میں بند رہتی ہے،’تصور‘ میں جیتی ہے، اور جسم کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔ اس داخلی اور خارجی تصویر کو ارسطوئی علمِ نفسیات سے مستعار لیا گیا ہے۔ وہ اسے مزید تمثیلوں سے واضح کرتا ہے۔ رچرڈ یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ’تصور‘ اور ’دلیل‘ دونوں زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے لیے دلیل کا جسم سے باہر کی دنیا سے رابطہ لازم ہے، کہ جسے اب تک مسلسل رکاوٹ کا سامنا رہا ہے۔ ’تخیل کی پرواز‘ نے حسیات اور سمع و بصر کی روح کو بہت آلودہ کیا ہے۔
اگر یہ سچ ہے کہ روح کو ’اشیا کے تصور‘ کی ضرورت ہے، تو پھر اُسے حسیات کی دنیا سے کلام کرنا ہوگا، کیونکہ یہ ’تخیل کی پروازیں‘ ہیں جو اُسے ’معقول غوروفکر‘ سے روک دیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو دل کی دلیل کا صرف ’تصور‘ پر گزارا نہیں، اور اس کے بغیر یہ چل نہیں سکتی۔
اس کا دوسرا متن ’تصور‘ کے مخمصے کا بیان ہے۔ یہاں تصویر ایک استعاراتی پیشکش ہے کہ جیسے مستعار قبا اوڑھ لی گئی ہو۔ رچرڈ، سینٹ آگسٹن کی مانند یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ معقولات کو تصویروں سے آراستہ کیا جاسکتا ہے، قابلِ شناخت اور قابلِ فہم بنایا جاسکتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: دلیل تصور کو اندر اور باہردونوں جگہ پوشاک کے طور پر استعمال کرتی ہے، اگر دلیل اپنے اس لباس سے بہت خوش اور مطمئن ہے، اور تصور اُس سے اس طرح منسلک ہوجاتا ہے کہ جیسے جسم کی جلد ہو، تو پھرالگ ہونا بہت تکلیف دہ ہوجاتا ہے۔ ذہن اور جسم اس حالت میں بڑی راحت محسوس کرتے ہیں۔
’’تصور‘‘ کے لیے لباس کا استعارہ کئی طریقوں سے بیان ہوا ہے۔ یہ سمجھاتا ہے کہ تصور کو دلیل سے ذرا فاصلے پررکھنا چاہیے کہ مبادا کہیں ہم تصور کے مصنوعی پن کو دلیل کے خالص پن سے مساوی سمجھنے لگیں۔ دوسرے لفظوں میں، دلیل کو تصور کی چمک دمک سے متاثر نہیں ہونا چاہیے اور نہیں بھولنا چاہیے کہ اُس کی ’اصل‘ معصومیت اور خالصیت ہے۔ اس طرح وہ ایک اچھی ترجمان بن سکتی ہے۔ تصور کو دلیل سے کبھی خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم یہاں لباس اور جلد کے استعارے ایک اور پیغام بھی دے رہے ہیں۔ یہ اس خطرے سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ کہیں تصوری حیات جسمانی حسیات میں گندھ نہ جائے۔ اس تحریر میں جلد کا استعارہ لغوی معنوں میں زیادہ ہے۔ وہ ہماری جسمانی کھال کے تجربے کا حوالہ دیتا ہے کہ کہیں ’دلیل‘ پست خواہشات میں نہ لتھیڑ دی جائے۔ اس طرح دونوں صورتوں میں کہ دلیل تصور کے معاملے میں غلطی کا ارتکاب کرے یا تصور کو جسمانی سطح پر گرا دے۔
مختصراً یہ کہ تصور اس حد تک جائز ہے کہ داخلی ذہن اور خارجی بدن میں مصالحانہ حالت قائم رکھ سکے۔ تصور کا کام روح کو ڈھانپنا ہے تاکہ اندر سے باہر ہم کلام ہوسکے، اور باہر سے اندر کی حفاظت کرسکے۔ رچرڈ انتباہ کرتا ہے کہ اگر ہم نے محافظت سے غفلت برتی، اور دلیل کو خیالی دنیا کی چمک دمک سے ماند کردیا، اور اس کے لباس کی تراش خراش میں کھوگئے، اور اس طرح یہ خیالی باتیں روح میں سرایت کرگئیں، ہمیں لازماً اس غیر فطری نمو کا رستہ روکنا ہوگا کہ جو فطرت کا بھیس پہنے گدرائی ہے۔
تصویر، پوشاک، اور جلد میں یکسانیت کی تعبیرات میں تخریبی تضاد سامنے آتا ہے، کہ جو شاید ہی ذہن اور جسم، دلیل اور احساس، داخلیت اور خارجیت کا کھیل دکھا سکے۔ یہ بالآخر اُس ماورالطبیعاتی نظام کو کمزور کرتا ہے کہ جس کی بنیاد ان اضداد پر اٹھائی گئی ہے۔ اس طرح کے تخریبی مطالعے کا حاصل ظاہر کرے گا کہ کیسے ’تصور‘ روح اور مادہ میں فاصلہ پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح ’تصور‘ پہلے سے موجود ’اصل‘ کی معمولی سی بھی نمائندگی نہیں کرے گا بلکہ یہ ایک ایسا کھیل ہوگا جو بس’اصل‘ کی موجودگی کا عقیدہ پیش کرتا ہے۔
اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ازمنہ وسطیٰ فلسفے کے لبادے میں یہ ایک طرح کا تخریبی متنی کھیل ہے۔ ’تصور‘ پر رچرڈ کا عدم اعتماد درحقیقت اُس کے وجودیاتی الٰہیاتی ’نظریہ سچ‘ میں پایا جاتا ہے۔ رچرڈ پوری قوت سے ازمنہ وسطیٰ کے اُس فلسفیانہ عزم کا مظاہرہ کرتا ہے، جو ازمنہ وسطیٰ میں کلاسیکی علم الوجود سے عیسائی الٰہیات میں مصالحت چاہتا ہے۔ وہ فلسفے کا مقصد اس دلیل کو قرار دیتا ہے جو احساس اور تقلید ’وجود مطلق‘ کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ وہ صحیح معنی میں وجودیاتی الٰہیاتی طرزِفکر کا اظہار کرتا ہے کہ خدا ہی ’وجودِ مطلق‘ ہے جو علتِ اولیٰ ہے۔
سینٹ بونا وینچیو
ازمنہ وسطیٰ کا مقبول فلسفی، جو رچرڈ کے اسلوب سے متاثر ہوا، سینٹ بونا وینچیو تھا۔ بونا وینچیو نے ’تصور‘ کے لیے جو استعارہ استعمال کیا، وہ mirroring آئینہ کا انعکاس ہے۔ بونا وینچیو نمایاں طورپر imitando سے imagoکی اصطلاح ماخوذ کرتا ہے، جس کا مطلب ’نقل‘ یا ’انعکاس‘ ہے۔ آدمی کے نظام میں تصویریں ہمیشہ ’نقل‘ کی ثانوی حیثیت میں مثال کے لیے استعمال ہوئی ہیں، کہ جسے بونا وینچیو ’’تشبیہ‘‘ پکارتا ہے۔ وہ کہتا ہے: نقل کا سچا نمونہ خدا اور اُس کا بیٹا مسیح ہے۔ یہاں، صرف یہاں ’’صورت‘‘ بہ مطابق ’’اصل‘‘ ہے۔ تمام فانی صورتیں محض یسوع مسیح کی نقلیں ہیں۔ یسوع مسیح (علیہ السلام) ’’ابدی ہستی‘‘ کا کامل عکس ہیں۔ یعنی، آدمی کا ’تصور‘ الوہی خلّاقیت کا فقط عکس ہے۔ آدمی کی تخلیق فقط الوہی تخلیق کی نقل ہے، اور اس کی بہترین حالت یہ ہے کہ دیانت داری سے خالقِ کائنات کی تخلیقات منعکس کرے۔ بونا وینچیو نوفلاطونی نظریہ مثالیت پر انتہائی زور دیتا ہے۔ وہ Sentences کے تبصرے میں کہتا ہے کہ انسان کی تخلیق کاری سے سچی شناسائی یہ ہے کہ وہ بول اٹھے: ’میں بس ایک نقل ہوں‘۔
عالم مخلوقات کی تشریح محقق ذہن کے ذمے ہے، آئینوں کے ایسے سلسلے کی مانند کہ جس کا ہر آئینہ خدا کی سمت رہنمائی کرتا ہو۔ آئینے کے انعکاس کا استعارہ بونا وینچیو نے Itinerarium کے ابتدائی باب میں بیان کیا ہے۔ وہ نور اور سایہ خدا کی بات کرتا ہے کہ جو اُس کی مخلوقات سے تعلق انعکاس کرتے ہیں۔ خدا کی یہ تصویر خارجی دنیا، فطری خودی، اور مافوق الفطرت میں منعکس ہوتی ہے۔ خارجی دنیا میں خدا کا یہ عکس اندھے آئینئے میں نظر آتا ہے۔ محسوسات کی دنیا میں اشیا مشابہتوں اور مماثلتوں میں کام کرتی ہیں، ماورا ذریعہ انہیں متصور کرتا ہے۔ خودی کے داخلی نظام میں آدمی اپنی خلقی صفت سے آشنا ہوتا ہے۔ خودبینی کی اس سطح پر خودی کائناتِ کبیر ’حافظہ‘ سے ’تصور‘ کی کائناتِ صغیر میں ڈھل جاتی ہے۔ اور پھر یہاں ڈھلنے والا ہرعکس خدا کے کاموں سے مشابہ ہوتا ہے۔
اس طرح بونا وینچیو ’تصور‘ کا مقام دوسرے مرحلے پر عالمِ حسیات اور عالمِ تفکر کے بین متعین کرتا ہے۔ یوں، تصویریں تصورات پاتال میں گرا سکتے ہیں اور آفاقی سچ کی بلندی پر بھی پہنچاسکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ’عقل‘ رہنما نہ ہو تو ’تصور‘ شر میں دھکیل سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو ’شر‘ پھوٹتا ہے غلط ’تصور‘ سے۔ مختصراً، جب ’تصور‘ الوہی تخلیقات کو بطور عکس شناخت نہیں کرپاتا کہ جو خدائی سے منعکس ہوتا ہے، تو پھر بُت تراشے جاتے ہیں، اٹھائے جاتے ہیں۔ بونا وینچیو ارسطوئی نظریہ ’مصالحت‘ کا تذکرہ بھی کرتا ہے۔
اکوئینس
آخر میں ہم ایک مختصر نظر سینٹ تھامس اکوئینس کے نظریہ تصور پر کرتے ہیں۔ اکوئینس ازمنہ وسطیٰ متکلمین کے فلسفے پر فیصلہ کن اثر مرتب کرنے والی اہم شخصیت ہے۔ اکوئینس نے جو پیش کیا اکثر نے اُسے ازمنہ وسطیٰ کے یونانی اور اناجیلی مرکب مقالے کے ضمن میں بڑی کامیابی شمار کیا۔ اُس نے مغربی وجودیات اور الٰہیات کی ازسرنو تشکیل کی، ایک شاندار نظامِ فکر و فلسفہ summa مستحکم کیا۔
تیرہویں صدی کے دوسرے نصف میں، اکوئینس نے Summa Theologiae لکھی۔ اس شاہکار میں ’’تصور‘‘ پر ازمنہ وسطیٰ کا نظریہ ’مصالحت‘ پیش کیا، کہ جو بدن اور ذہن کے درمیان کام کرتا ہے۔ اکوئینس نفسیاتی کارگزاری میں تکثیریت کے ارسطوئی دعوے کی تائید کرتا ہے۔ وہ نفسیات کی کئی قوتوں کا شمار کرتا ہے۔ انہیں تصور، عام سوجھ بوجھ، ذہانت، عقل وغیرہ میں درجہ بند کرتا ہے۔ اکوئینس اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ نفسیات کی ان ساری قوتوں کو کسی بھی ایک اصول تک محدود نہیں کیا جاسکتا، انہیں لازماً مختلف کام تفویض کیے گئے ہیں۔ یہاں اکوئینس کا منشا ذہن کی مادی یا روحانی کیفیات کی وحدت کا انکار ہے۔ ادراک کی مختلف کارگزاریاں ہمارے ذہن کی قوتوں میں تنوع کا اظہار ہیں، اور ان میں پیچیدہ تعاملات کی گواہ ہیں۔
تھامس کسی صورت ’تصور‘ کو خودمختار قرار نہیں دیتا، کہ جسے یہ دو ہم معنی اصطلاحوں imaginatio اور phantasia میں واضح کرتا ہے۔
درحقیقت بہت سے متون میں ہم یہاں تک دیکھتے ہیں کہ آدمی کے ’’تصور‘‘ کا کردار ہمارے حسیاتی تجربات کی عکاسی تک محدود کیا گیا ہے۔ اکوئینس لکھتا ہے: حسیاتی کیفیت عام اور خاص سوجھ بوجھ میں طے شدہ ہے، مگر اس کیفیت یا صورت کے حفظ یا حفاظت کے لیے تخیل یا تصور مقرر ہے، یہ یکساں ہیں، ’’تخیل‘‘ ان صورتوں کا گودام ہے کہ جنہیں حسیات سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ’گودام‘ کا یہ استعارہ شاید تھامس کے فلسفے میں اسلوبِ تحقیق کا ایک سانچہ ہے، اور اس پر عیسائی متکلمین کے مابین بحث کی گنجائش ہے۔ تصور کے اس گودام کو اکوئینس کے نظام ’خواب‘ میں بھی خط کشیدہ کیا گیا ہے۔ یہ افلاطون کے ’آسمانی خوابوں‘ کے کلیے سے صاف تقابل میں ہے۔
تھامس اکوئینس کا نظریہ علم تصورات کے مابین مصالحت کار ہے، یہ انسان کے فہم کی حدود واضح کرتا ہے۔ حقیقت کی سچی صورتیں، خواہ یہ جوہری نظریات ہوں یا بجائے خود اشیا… تصور سے ماورا ہوتی ہیں، البتہ تمثیلات کے لیے تصویریں آدمی کی ضرورت ہیں، کہ جن سے معقولیت اور حسیاتی تجربے میں تعلق کا فہم حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح اکوئینس بڑی مہارت سے افلاطون کے تصویروں سے پاک خیال کو ارسطوئی نظریے سے جوڑ دیتا ہے کہ جن کی پیشکش تمثیلی تصویروں کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ واضح کرتا ہے کہ غیر مجسم اشیا کہ جن کا کوئی خیال پیکر ہمیں میسر نہ ہو، انہیں مجسم اشیا کی تمثیلات سے سمجھا جاسکتا ہے۔
لہٰذا جب ہم ایسی اشیا کے بارے میں کچھ سمجھتے ہیں، ہمیں خیال پیکر کو مجسم شے میں ڈھالنا ہوتا ہے، اگرچہ وہ اشیا کے کوئی واقعی خیال پیکر نہیں ہوتے۔ یہاں اکوئینس کی پوزیشن متکلمانہ حقیقت پسند آرتھوڈکس نظریہ ساز کی ہے۔ یہ حقیقت پسندی خاص نوعیت کی معقولیت پسندی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھتی ہے۔ ’’تصور‘‘ کے سارے استعمالات یہاں ’حقیقت‘ اور ’عقل‘‘ کے تابع ہیں۔ اکوئینس یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے کہ الوہی پیغام پراسرار ہیں، جیسے تثلیث یا پیغمبری کہ جو انسانی فہم کی حدوں سے ماورا ہوسکتے ہیں۔ مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ اصرار کرتا ہے کہ ان اسرار کو ’’تصور‘‘ کی نامعقولیت سے مخلوط نہیں کرنا چاہیے۔ اگر’ذہانت‘ ساتھ نہ دے تو نامعقولیت غلطیوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ اکوئینس اس نقطے پر بالکل واضح ہے: کچھ ذہانت آمیز عادتیں ایسی ہوتی ہیں جو ’’تصور‘‘ کی درست جانچ کرسکتی ہیں، مگر جب یہ عادتیں معطل ہوجاتی ہیں تو بےسروپا تصورات سراٹھاتے ہیں۔ اس طرح آدمی کے لیے صحیح رائے پر رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ کتابِ مقدس میں انبیا کے خوابوں کی بابت ہے کہ انہیں عام آدمی کے ہذیان پن یا خواہشِ نفسانی سے گڈمڈ نہیں کیا جاسکتا۔ تصور عام طور پر’موجود‘ اور’غیر موجود‘ کے درمیان فرق دھندلا دیتا ہے۔ اصل اشیا کو نقول کے برابر لاکھڑا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھامس اکوئینس بونا وینچیو کے اس خیال پر معترض نہیں کہ ’تصور‘ شیطان کا ہتھیار ہوسکتا ہے۔ شبیہیں، نقلیں، اور تصوراتی اشیا کا ایک مقام ہے، اور انہیں اُس مقام سے ادھر اُدھرنہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ ماتحت حالتوں سے نکل کر راہ نما بنیں گے تو تباہی لائیں گے، اور شیطان کا ’فخر‘ بن جائیں گے۔
ازمنہ وسطیٰ میں ’’تصور‘‘ کے استعاراتی اسالیبِ تحقیق میں کیا یکسانیت ہے؟
ان بیانیوں اور متون میں نظریہ علم کی ترجیح کیا ہے؟ رچرڈ کے ’بدن اور کھال‘، بونا وینچیو کا ’آئینہ در آئینہ‘، یا اکوئینس کا ’گودام تشبیہات‘؟ ان سب کی وجودیاتی الٰہیاتی نوعیت بنیادی طور پر یونانی اور اناجیلی ’’نقالی‘‘ کے نمونے سے مطابقت میں ہے۔ ان میں سے ہر فلسفے کا جائزہ لیا گیا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ تصور کو ایک ’نقل‘ کے طور پر سمجھا اور سمجھایا گیا ہے۔ یہ نقل، ترجمان، ماتحت، متبادل، سراب، یادداشت، خیالی وغیرہ ہے۔ اسے اس کی اصل میں کبھی ’اصل‘ نہیں سمجھا گیا۔ یہ محض ایک ایسا مصالحت کار ہے جو ’فہم‘ اور ’حقیقت‘ میں رابطہ کار کا کام دے سکتا ہے۔ ’تصور‘ کے بارے میں یہ نظریہ علم ارسطو کے زیراثر ہے۔ ازمنہ وسطیٰ کے مفکرین چند ایک کو چھوڑ کر، یہ قبول کرنے کے لیے تیار تھے کہ ’تصور‘ کا یہ مصالحانہ کردار ’صحیح‘ اور ’غلط‘ دونوں ہوسکتا ہے۔ مثبت ان معنوں میں کہ آدمی کی داخلی دنیا سے خارجی دنیا میں بہتری آسکے۔ منفی ان معنوں میں کہ معقولیت میں نامعقولیت کی ملاوٹ کردے، روح کو حسیات میں الجھادے، اور موجود کو غیر موجود سےخلط ملط کردے۔
یہاں ’تصور‘ پر ’شک‘ عام ہے۔ مقدس کتابوں میں اس کی ’اخلاقی مذمت‘ بیان کی گئی ہے۔ اس طرح یونانی وجودیات اور عیسائی الٰہیات ’تصور‘ کے بارے میں مخاصمانہ رویہ رکھتے ہیں۔
ازمنہ وسطیٰ میں رائج فکر ایک ہی ’’سچ‘‘ پرمبنی تھی: خدا یا وجودِ مطلق۔ یہی ’’حقیقت‘‘ کا واحد اصل الاصول تھا۔ اس سے روگردانی کا مطلب بت پرستی یا توہینِ مذہب تھا۔ تاہم ہم جب مرکزی دھارے کے کلیے سے ہٹ کر زندگی کے قلب میں جھانکتے ہیں، جہاں بقول Jacques le Goff اور دیگر کئی ایسے ثقافتی گروہ تھے جن میں ’’بے خدا تصور‘‘ موجود تھا، ان میں ’’تصور‘‘ کے بارے میں کئی جادوئی رسوم و عقائد موجود تھے، تہوار رائج تھے۔ یہ طبقہ رائج آرتھوڈکسی فکر کے سامنے معمولی اقلیت جیسا تھا۔ ازمنہ وسطیٰ کا نقال ’’تصور‘‘ مغربی فکر پر صدیوں چھایا رہا۔ جرمن مثالیت پسندی اور یورپین رومانویت کی آمد کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ ’’مغربی فکر‘‘ کی مرکزی سیج پر”productive imagination”نے ماضی کا نظریہ ’’تصور‘‘ الٹ دیا۔