یہ استادِ گرامی پروفیسر سید محمد سلیمؒ ہیں۔ جن کا سرخ و سپید چہرہ علم، حلم، وقار اور شفقت کا مرقع، میری لوحِ شعور کی البم میں انمٹ نقش و پرچھائیں کی طرح محفوظ ہے۔
بھرا جسم اور میانہ قامت،سفید کرتا پائجامہ میں ملبوس۔گھر اور مسجد میں سفید لکھنوی سُوتی ٹوپی اور دفتر و ادارے میں سیاہ ٹوپی اور شیروانی زیب تن رکھنے اور تہذیب و شرافت کی تصویر بنے،پُررعب شخصیت اور گرجدار مگر علم و حکمت سے معمور آواز،لہجے اور دانائی کے سرچشمۂ عذب و فرات والے… مُدبّر و مُدیر و منتظم،مؤرخ و معلم پروفیسر سید محمد سلیم…جن کے گہرے نقوش ان کے بے شمار شاگردوں اور تعلیمی دنیا کی نامور شخصیات کی زندگیوں سے منعکس ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ 1968ء کی بات ہے، جب میں نے یہ ملیح و متبسم چہرہ اپنی عمر کے تقریباً نو سال کی عمر میں دیکھا۔
ابتدا میں ہمیں ان کی موٹی موٹی آنکھوں سے بہت ڈر لگتا، جن میں سرخ ڈورے اور چمک نمایاں رہتی۔
علی گڑھ سے تعلیم یافتہ، شکارپور اور نواب شاہ سندھ سے آبائی، ملازمتی اور سیاسی تعلق رکھنے والے سید محمد سلیمؒ (علیگ) منصورہ سندھ کے کچی عمارتوں، کچی سڑکوں، کچی بلکہ چھپروں پر مشتمل رہائش گاہوں والے، بجلی کے بغیر خالص سندھی دیہاتی ادارے شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج کے پرنسپل تھے،جہاں ملک اور بیرونِ ملک سے تین سے چار سو تک اقامتی طلبہ کی تعلیم وتربیت کا سادہ سا،مگر بہت انقلابی اور مؤثر انتظام تھا۔
میں نےاپنی عمر کے ابتدائی دور میں تین سیدوں کو دیکھا…ایک سید مودودیؒ،دوسرے سید محمد سلیمؒ،تیسرے سید وصی مظہر ندویؒ ۔
سید محمد سلیمؒ خالص علمی شخصیت تھے،جنہیں تاریخ اور نوادرات پر غیر معمولی عبور حاصل تھا… اس پر مستزاد پکے نظریاتی اور عملی تحریکی…
اسی تحریکی نظم کے فیصلے اور حکم کی پاسداری میں 1970ء کے انتخابات میں نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے امیدوار بھی بنے، الیکشن بھی لڑا اور نظریے کی بنیاد پر ریکارڈ ووٹ بھی حاصل کیے، جو مضبوط سیاسی اور وڈیرائی نظام کے باعث محض چند ووٹوں سے ہار گئے۔
سید صاحبؒ سرکاری کالج میں پروفیسر تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم رکن۔ ایوب خان کے عہد میں جب سرکاری ملازمت یا جماعت میں سے کسی ایک کے اختیار کا حکم جاری ہوا، تو سید صاحب نے بلاتأمل اور پورے شرحِ صدر کے ساتھ، کسی تأسف اور پچھتاوے کے بغیر سرکاری نوکری کو خیرباد کہہ کر ایک سید (مودودیؒ) کے زیرِاثر اپنے جد امجد، سید السادات، شاہِ عرب وعجم، تاجدار کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی چاکری قبول کرلی اور ان ہی کے منصبِ معلمی کو اختیار کرتے ہوئے دنیا کا ہر آرام، شان و شوکت تج کر منصورہ سندھ کے اس قریۂ غیر ذی زرع کو اپنا مسکن اور یہاں بھانت بھانت کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور تشکیلِ سیرت و کردار کو اپنا محورِ حیات بنا لیا۔
سید صاحبؒ یہاں دس ضرب دس کے پکی اینٹوں اور گارے، گارڈر سے بنے دو کمروں میں رہتے، جہاں صرف دو چارپائیاں، دو ہی کرسیاں اور ایک چھوٹی سی گول میز دھری تھی۔ یہاں ان کے ساتھ ان کا ایک بیٹا جو باپ کا ہی عکس تھا، ساتھ رہتا۔
سید عبدالمجیب اتفاق سے میرے کلاس فیلو تھے۔ بعد میں انہوں نے ایم بی بی ایس کیا، اور میڈیکل کے مزید اعلیٰ درجے طے کیے۔ جناح اسپتال کراچی میں تعینات رہے… کسی خاص شعبے… شاید پیتھالوجی کے ماہر کے طور پر بڑا نام کمایا۔ حکومت نے انہیں کسی قومی اعزاز سے بھی نوازا، مگر وہ مسیحا خود کسی مہلک مرض میں مبتلا ہو کر دورانِ ملازمت ہی راہیِ ملک ِبقاء اور خُلد آشنا ہوا۔ وفات سے کچھ سال پہلے ڈاکٹر سید عبدالمجیب کسی میڈیکل کانفرنس کے سلسلے میں فیصل آباد آئے۔ ساحل اسپتال میں ان سے سالوں بعد ملاقات ہوئی۔
ہم دونوں اکثر کلاس فیلو ہونے کے ناتے سید سلیمؒ کے گھر یعنی ”پرنسپل ہاؤس“ کے چھوٹے سے صحن میں وہی دو کرسیاں اور چھوٹی میز دَھر کر سرگوشیوں میں ہوم ورک بھی کرتے اور مزید دبی آواز میں بچپن کی باہمی دلچسپی کی باتیں بھی کیا کرتے۔ مجھے قطعاً یاد نہیں کہ ان سرگوشیوں کے کیا موضوع ہوتے… البتہ یہ ضرور یقین ہے کہ نہ سیاست ہمارا موضوع ہوتا، نہ معیشت، نہ بین الاقوامی مسائل، نہ ہی ہم عصروں اور ہم مکتبوں کی برائیاں، غیبت، بغض و حسد… نہ لڑائی جھگڑوں کے قصے، نہ نفرت کی کوئی پرچھائیں… جو ہم باشعور بڑوں کی آج کی معاشرتی زندگی کے دلچسپ اور لازمی موضوع ہیں۔
نجانے یہ دو معصوم بچے کیا کہانیاں ڈالتے ہوں گے…!!
سید محمد سلیمؒ ہر وقت محوِ مطالعہ رہتے۔ ان کی میز یا سرہانے دس بارہ کتابیں دھری رہتیں۔ اور اغلباً وہ یہ ساری کتب ”ایک ہی دن رات“ میں یا ”دن رات ایک“ کرکے مطالعہ کرلیتے۔ یہ عربی، اردو، انگریزی، فارسی کے متنوع موضوعات کی وہ کتابیں ہوتیں جو ادارے کی لائبریری کے لیے قیمتاً منگوائی جاتیں، یا سید صاحب کو تحفتاً بھجوائی جاتیں۔ مگر وہ اگلے ایک دو روز میں لائبریری کی زینت بن جاتیں۔
مگر سیدصاحب کی نظروں کے طواف و احصاء کے بغیر یہ کتب لائبریری اور سرہانۂِ سید کے درمیان معلق ہی رہتیں۔
استاد گرامی پروفیسر سید محمد سلیمؒ تین مواقع پر بہت خوش ہوتے۔ )1) جب کوئی اہم کتاب موصول ہوتی، (2) جب دارالنوادر یعنی میوزیم کے لیے کوئی تاریخی اہمیت کی چیز ان تک پہنچتی، اور (3) جب کوئی مہمان بالخصوص علمی شخصیت ادارے میں تشریف لاتی۔
مہمانوں کی تواضع کا کوئی خاص اہتمام تو نہ ہوتا،بس وہی معمول کی دال روٹی، بغیر کسی تکلف کے سادہ سے مہمان خانے میں پیش کی جاتی، جو تمام طلبہ، اساتذہ اور خود جناب پرنسپل کو دی جاتی۔ البتہ مہمانوں کے ساتھ طویل علمی گفتگو جاری رہتی۔ مہمان کو پہلے لائبریری خود پروفیسر صاحب لے جاتے۔ اہم، نادر اور قیمتی کتب دکھاتے اور تفصیل و تاریخ کے ساتھ موضوعِ کتاب پر سیر حاصل گفتگو کرتے۔ مہمان ان کے تبحّر علمی اور تاریخی نکات اور حوالوں بالخصوص کتاب کے موضوع، مصنف اور اس میں فراہم کردہ معلومات اور علمی نکات، حتیٰ کہ صفحہ نمبر کی تفصیلات پر عبور سے دنگ رہ جاتے۔
میرے خیال میں مسلم تہذیب و ثقافت اور تعلیم و تدریس کی تاریخ، مسلم مفکرین و مشاہیر اور ان کے کارنامے، فلسفہ اور عربی ادب کے ساتھ یورپی مفکرین اور مستشرقین ان کی دلچسپی کے اہم موضوع تھے۔
ان کی رسائی معروف استاد شعراء کے کلام تک بھی تھی، جن کا وہ اپنی گفتگو اور تقاریر میں برمحل استعمال بھی کرتے۔ وہ خود بھی شاعر تھے، مگر وادئ شعر کے دیوانے نہ تھے۔ اپنے شعر سناتے وقت بھی خوشی ان کے چہرے سے جھلکتی۔ ان کی زیادہ اور اولین ترجیح علمی و تاریخی موضوعات ہی ہوتے۔
وہ اکثر صباحی خطاب بھی فرماتے۔ ہم سب بچے تدریسی عمل شروع ہونے سے پہلے تعلیمی بلاک کے سامنے قطار اندر قطار کھڑے ہوتے اور ان کے خطاب سے زیادہ ان کی شخصیت سے مستفید ہوتے۔
اس صباحی خطاب کے کئی حصے ہوتے۔
تلاوت وغیرہ تو معمول کی بات تھی۔ کبھی سید صاحب کا خطاب،تو کبھی کوئی تأدیبی کارروائی۔ سید صاحب کا خطاب خاصے کی چیز ہوتا۔ بھرپور علمی اور فلسفیانہ گفتگو…جس میں سے ہم چھوٹی کلاسوں کے طلبہ… کم از کم میرے پلّے کم ہی کچھ پڑتا۔
مجھے پچاس سال پہلے منعقدہ ان کی مجالس و خطابات میں سے بس ڈیڑھ شعر ہی یاد ہے… ایک مکمل اور ایک آدھا۔
مرزا غالب کا یہ شعر میں نے پچاس باون سال پہلے ایک صباحی خطاب میں ان سے سنا اور حافظے میں نقش ہوگیا۔
لکھتے رہے ہم جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
دوسرا اور آدھا شعر یعنی ایک مصرع… وہ بھی دوسرا خود ان کا اپنا تھا:
”سلیم آج شاعر بنے کیسے کیسے“
سید سلیم صاحب مہمان کو کتب خانے کے بعد اکیڈمک بلاک کے راستے، جو انگریزی حرف”E“کی شکل و ہیئت کا تھا، اور جس کے ایک انتہائی جانب جنابِ پرنسپل کا دفتر، متصل کالج آفس، اور اسٹاف روم، اور کونے میں وسیع لائبریری ہال…آگے درجہ عالیہ کے کلاس رومز۔ وسط میں ایک وسیع لیکچر ہال جو ”قاعۃ الاحتفال“ کے نام سے موسوم تھا، یعنی تقریبات کا ہال۔
اتفاق سے یہ ساری عمارت پکی اینٹوں پر مشتمل تھی، جو گارے کے ساتھ چنی گئی تھی۔ دیواریں سیمنٹ کے بجائے چونے مٹی سے پلستر کی گئی تھیں۔ لکڑی کے بالوں کی سادہ چھت والی یہ ساری عمارت اب تقریباً 75 برس بعد مکمل طور پر فنا ہوچکی ہے۔ اس کا آخری نشان یہ لیکچر ہال بھی دو تین ماہ قبل زمین بوس ہوکر تاریخ کا عنوان بن چکا ہے۔
اس لیکچر ہال سے متصل درجہ ثانویہ کے چار یا پانچ کلاس روم، پھر جناب استاد گرامی سید محمد سلیمؒ کی انتہائی دلچسپی کا مرکز و محور لائبریری جتنا وسیع دارالنوادر…یعنی میوزیم تھا۔
جب بھی یہ میوزیم کھولا جاتا، اور یہ بالعموم کسی مہمان کی آمد پر ہی کھولا جاتا، اور سالانہ تقریبات کے موقع پر تو اس کی اوورہالنگ لازمی تھی… صحافیانہ عادات و مزاج کے باعث مجھے اس کی بِھنَک پڑجاتی تو میں وہاں ضرور پہنچ جاتا۔
سید محترم سفید لباس، سیاہ شیروانی اور ٹوپی زیب تن کیے ہوئے مہمان کو ایک ایک چیز دکھاتے اور اس کی مکمل تاریخ، اہمیت اور نُدرت بتاتے آگے بڑھتے رہتے۔
مجھے ان کی باتوں کی تو سمجھ نہ آتی، البتہ ان کا انتہائی سپید چہرہ جو اب خوشی سے سرخ ہوچکا ہوتا، اور موٹی موٹی آنکھوں کی غیر معمولی چمک بہت سے سبق پڑھا دیتی۔۔
یہ دارالنوادر سید صاحب کی خوشی کی انتہاء اور بے پناہ تاریخی حوالوں اور معلومات پر مبنی طلاقتِ لسانی کی معراج ہوتا۔
سید صاحب ان دو مواقع سے زیادہ کبھی خوش نہیں دیکھے گئے۔ ان کے رعب، سنجیدگی اور چہرے کی ملیح مگر پُررعب شخصیت سے ہم نہ صرف ڈرتے، بلکہ بدکتے۔ صباحی خطاب کے موقع پر تو یہ سنجیدگی گرچہ عروج پر ہوتی، مگر لفظوں اور علم کے نگینوں میں ڈھل کر قدرے ملائم ہوجاتی۔
سید صاحب اپنے دفتر اور رہائش گاہ سے کم ہی باہر نکلتے، البتہ نمازوں کے موقع پر ہم انہیں کن اکھیوں سے ضرور دیکھتے، جہاں ان کی پرنسپلی اور علمیت کا رعب دور دور تک نہ ہوتا۔ ہم اس موقع کو غنیمت جانتے اور کبھی سلام، کبھی دو لفظی کلام، کبھی مصافحہ،کبھی شفقت کا کوئی جملہ اور کبھی محبت آمیز تبسم سمیٹ لیتے۔
مجھے ان کی زیارت کا exclusive موقع تب بھی ملتا جب میں باہمی اجتماعی مطالعے کے لیے ان کے چھوٹے سے ”پرنسپل ہاؤس“م یں صاحبزادے سید عبدالمجیب کے ساتھ ہوتا۔ وہ چارپائی پر مطالعے میں گم اور میں ان کی شخصیت کے مشاہدے میں بے خبر ہوتا۔
اس دارالنوادر میں سید صاحب کے پُرجوش لہجے سے ہمیں سب سے قیمتی سونے کا وہ سکہ لگتا، جو عباسی عہد کے کسی خلیفہ غالباً منصور عباسی کا جاری کردہ تھا، اور شاید اس دارالنوادر میں سب سے قدیم اور وقیع و ثمین(قیمتی) بھی تھا۔ سید صاحب یہ مہمان کو دکھاتے۔ اس کی تاریخ اور اس وادیٔ غیر ذی زرع یعنی منصورہ ڈیپر تک اس کے سفر کی روداد سناتے۔ یہ سکہ بڑوں کے پیچھے بلکہ درمیان میں گھس گھسا کر، منہ اٹھاکر ہم نے بھی دیکھا، مگر اسے چھونے کی سعادت حاصل نہ کرسکے۔ اول تو بازوؤں میں اتنا دَم تھا،نہ جرأتِ دست درازی کہ ہاتھ بڑھا کے اسے تھام لیتے۔ اور ابھی یہ سعادت بھی خدا کی جانب سے بخشی نہ گئی تھی، نہ ہی ہم اس رتبہ بلند کے مستحق بنے تھے، لہٰذا
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
پروفیسر سید محمد سلیمؒ کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں جن کا احاطہ اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں۔
سید صاحب 1972-73ء میں ادارہ نیشنلائز کیے جانے کے بعد منظر سے اوجھل ہوگئے۔ ہم بچے بھی اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ادارے کی ہر چیز پر اب پیپلز پارٹی کی حکومت کا قبضہ تھا۔ لائبریری اور قیمتی نوادرات سب بکھر گئے۔
سید صاحب کا نام سالوں بعد تب منظرعام پر ایا،جب وہ
لاہور میں تنظیم اساتذہ کے مرکز میں مستقلاً منتقل ہوئے اور علمی، تحقیقی و تصنیفی کام میں مصروف ہوگئے۔
ایک بار غالباً 1985ء یا 1986ء میں وہ شیخوپورہ معروف اسکالر پروفیسر عبدالجبار شاکرؒ کے گھر نادر کتب دیکھنے تشریف لائے تو مجھے بھی شرفِ ملاقات بخشا۔ میں اُن دنوں نیا نیا سروس جوائن کرکے سانگلہ ہل کا مستقل مسافر تھا۔
کچھ سال بعد سید صاحب جماعت اسلامی کے اجتماع قرطبہ میں انتقال کر گئے۔
سید صاحب کے صاحبزادے سید عبدالمقیت کے مطابق:
”پروفیسر سید محمد سلیم رحمۃ اللہ علیہ کی شائع شدہ کتب کی ایک فہرست جدید ترتیب سے شائع کرتے ہوئے یہ اہتمام کیا جا رہا ہے کہ سید صاحب کے مطبوعہ مضامین اور مقالات کے ساتھ ساتھ وہ مختصر کتابیں جو فقط ایک مضمون پر مشتمل تھیں ایک مجموعے میں جمع کردی جائیں، جس کے لیے عنوان ”افکار تعلیمی“ منتخب کیا گیا ہے۔ اب تک کی تفصیلات کے مطابق یہ مجموعہ ان شاءاللہ 30 مضامین و مقالات پر مشتمل ہو گا“۔
میں نے 1968ءسے 1973ء کے درمیان ان سے سبقاً سبقاً تو کچھ نہیں پڑھا،مگر ان کی چال،ڈھال،گفتار وکردار کے ہر طور اطوار اور انداز سے وہ سب سیکھا،جو ایک استاد،معلم و مربی سے طالب علم کو سیکھنا اور معمارِ قوم کو اپنی آئندہ نسلوں کو سکھانا اور اقدار و روایات منتقل کرنا لازم و واجب ہے۔
ہمارے معاشرتی تفرقات و تعصبات نے ہماری اپنی ہی نئی نسل اور تاریخ کو کیسے انمول ہیروں سے محروم رکھا…حتیٰ کہ ان کے ذکرِ خیر،یاد اور مآثر کرام سے بھی…