صاحبزادہ محمد امانت رسول معروف دینی اسکالر، محقق اور استاذ ہیں۔ ان کا یہ تصور ہے کہ فرقہ واریت سے بلند صرف دینِ اسلام کا داعی ہے، دورِ حاضر کا تقاضا ہے کہ امت میں ایسا رجحان اور ماحول پیدا کیا جائے جو ہر طرح کی ملاوٹ و آمیزش سے پاک ہو۔ علم و تحقیق وہ راستہ ہے جس پر چل کر فرقہ واریت اور تقلید سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ شدت پسند رجحانات اور تشدد پسند رویوں سے اُس وقت آزاد ہوگا جب لوگوں میں غور و فکر اور علم و تحقیق کا ذوق پیدا ہوگا۔ ادارۂ فکرِ جدید کے قیام کا مقصد بھی اسی سوچ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ فہمِ دین، تکریمِ انسانیت، مکالمہ، اخلاقیات… یہ اس ادارے کے بنیادی موضوعات ہیں۔ ادارۂ فکرِ جدید میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو تبادلۂ خیال کی دعوت دی جاتی ہے، جن سے عہدہ برا ہوکر ادارۂ فکرِ جدید ایسی متنوع علمی و دعوتی سرگرمیوں سے معاشرے کی دینی، روحانی اور اخلاقی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ادارۂ فکر ِجدید کو ایک علمی، تحقیقی اور تربیتی مزاج کا حامل ادارہ بنانا صاحبزادہ امانت رسول کے پیش نظر ہے جہاں اسلام کی شان دار علمی و فکری روایت کی جدید تقاضوں کے مطابق بنیاد رکھی جارہی ہے۔ یہ ان کی شدید خواہش، تجربے اور علم کی لگن اور وابستگی کی واضح مثال ہے۔ یہ بہت خوش آئند ہے کہ انہوں نے اپنے خیالات کو عملی شکل دینے میں کبھی سستی نہیں دکھائی۔ ان کا اگلا قدم جو ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے وہ یہ کہ بچوں کی تربیت کے لیے ادارے سے منسلک ہوسٹل بھی ہو جس کے نتیجے میں بچوں کے اخلاق، تعلیم، لباس، حفظانِ صحت، کھیل، کاروبار، وعدوں کی تکمیل اور قرآن مجید کا فہم اور عمل جیسے معاملات بچوں کی زندگی کا حصہ بنیں جس کے نتیجے میں جب بھی بچوں کی زندگی میں کوئی بحرانی فیصلہ کرنے کی گھڑی آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں اور صبر و استقامت کے ساتھ خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور قرآن پر عمل کرکے معاشرے کو خوش گوار بنیادوں پر مستحکم بنائیں۔ ادارۂ فکرِ جدید اس طرح کے پروگرام منعقد کروا رہا ہے اور ایسے موضوعات پر بات کررہا ہے جن پر ہمارے ہاں بات کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے، خاص طور پر شادی شدہ زندگی کے حوالے سے ادارے کا پروجیکٹ، جس میں شادی شدہ افراد کی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اُن کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس منفرد سوچ کے ساتھ صاحبزادہ امانت رسول ادارۂ فکرِ جدید کو لے کر چل رہے ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی ادارہ امانت رسول صاحب کی سربراہی میں اسی طرح افرادِ معاشرہ کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ نوجوانوں کے لیے دین، ریاست اور معاشرے کا فہم بہت ضروری ہے، اس فہم کو پیدا کرنے کے لیے ادارہ بہت اچھے طریقے سے کام کررہا ہے۔ ادارے کے نام سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ادارۂ فکرِ جدید مذہب اور جدید فکر کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم لے کر چلا ہے تاکہ معاشرے میں بہتری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے۔ اس کے لیے صاحبزاد امانت رسول بہت ہی پُرجوش نظر آتے ہیں۔
صاحبزادہ محمد امانت رسول نے خود کو مسلکی اور گروہی تقسیم سے بلند کر رکھا ہے اور ہمیشہ علم کے ساتھ سچی وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا سماج بھی اسی رویّے کا مظہر بنے۔ اس کے لیے انہوں نے ادارۂ فکرِ جدید قائم کیا۔ وہ یہاں مختلف اہل ِعلم کو مدعو کرتے اور سامعین کو ان سے استفادے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
فکری گھٹن کے اس دور میں صاحبزادہ امانت رسول کا کام تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ وہ درسِ نظامی کے فاضل ہیں۔ یوں ہماری علمی روایت سے باخبر ہیں۔ انہوں نے کئی برس مغرب میں گزارے ہیں۔ یوں وہ علمِ جدید کے چیلنج کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کی طبعی متانت اور علم دوستی سے توقع ہے کہ ان کا یہ ادارہ مستقبل میں سماج کے فکری ارتقا میں اہم کردار ادا کرے گا۔