الیکشن اور امتحانات کی مشکل آزمائشیں

پروفیسر وزیر احمد سرکی ایک معروف ماہرِ تعلیم، دانش ور اور تحریر و تقریر کے فن کے دھنی ہیں۔ انہیں اردو، سندھی اور انگریزی زبان پر دست گاہ حاصل ہے۔ سندھی زبان کے تمام معروف اور کثیرالاشاعت اخبارات میں ان کے کالم تواتر کے ساتھ چھپتے رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے موصوف کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی میں ’’جوک در جوق‘‘ کے زیر عنوان اپنے مخصوص شگفتہ اور طنزیہ و مزاحیہ انداز میں خامہ فرسائی کررہے ہیں۔ زیرنظر کالم بھی اسی اخبار کے ادارتی صفحے پر 15 اکتوبر 2023ء کو حالاتِ حاضرہ کی مناسبت سے شائع ہوا ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے:

’’الیکشن ہو یا پھر کوئی عام امتحان، یہ دونوں ہی امیدوار کے لیے مشکل آزمائش ہیں۔ آزمائش بھی ایسی گویا کہ آدھے سر کا شدید درد۔ امیدوار کو دن کے وقت بھی خوف ناک خیالات تڑپاتے ہیں، اس پر مستزاد رات کو خطرناک خواب ستاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا ایک ایک گھنٹہ کٹھن گزرتا ہے، نیند بھی آخر کسی کی کیوں نہ اُس پر حرام ہو؟ ہے بھی تو پاس نا پاس ہونے کا سوال۔ مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ دونوں کو ہی کچھ نہ کچھ دے دلا کر پاس ہونا پڑتا ہے، مثلاً سیاست دانوں کو لوگوں سے ووٹ لے کر اور طلبہ کو اساتذہ کو نوٹ دے کر (نوٹ: یہ باتیں ہمارے ہاں کے مخصوص ماحول کے تناظر میں کہی اور لکھی گئی ہیں، انہیں سب پر قیاس نہ کیا جائے۔ مترجم) ایک امیدوار کھانا بیچ میں چھوڑ کر گھر کی چھت کی طرف بھاگا۔ استفسار کرنے پر کہا کہ عوام کا ہجوم باہر دروازے پر کھڑا ہے جو کہہ رہا ہے کہ دھاندلی کرکے جیتے ہو، چلو چل کر عدالت کے حضور پیش ہو۔ ایک شاگرد نیم شب کو اپنی نیند سے عالمِ گھبراہٹ میں بیدار ہوکر اٹھ بیٹھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ بہت ہی خطرناک خواب تھا۔ بورڈ والوں کی جانب سے لیٹر آیا ہے کہ آپ کیوں کہ کاپی (نقل) کرکے امتحان میں پاس ہوئے ہو اس لیے چلو چل کر بورڈ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہو۔ ان دونوں ہی ناموں کی آپس میں کس قدر یکسانیت اور ہم آہنگی ہے۔ عموماً الیکشن کے موقع پر پولنگ اسٹیش بھی اُنھی عمارات میں قائم کیے جاتے ہیں جہاں پر بنیادی طور سے امتحانی مراکز ہوا کرتے ہیں۔ انٹرنل اور ایکسٹرنل سپرنٹنڈنٹ اور پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران سمیت دیگر عملے کو امیدواروں اور مقامی انتظامیہ کی طرف سے بہ طور مہمان نوازی خوب کھلایا پلایا جاتا ہے اور خاطر خواہ آئو بھگت بھی کی جاتی ہے تاکہ پولنگ کے دوران دھاندلیاں اور بے قاعدگیاں کرنے کے بھرپور مواقع میسر آسکیں۔

ایک طرف تپے داروں (پٹواریوں) اور دوسری طرف تمام پٹے والوں کے سارے ہی سر کڑہائی میں اور ان سب کی پانچوں ہی انگلیاں ایک طرح سے گھی میں ہوتی ہیں۔ ایک مرتبہ میں نے کسی تپے دار اور ایک پٹے والے (تپے دار کے مددگار، کوٹوال، چپراسی) کو کسی کام کے لیے کہا۔ آگے سے جواب ملا کہ صاحب! ان دنوں میں دوسرے کام نہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ دس کی دس انگلیاں ہی گھی میں ہیں۔ فرصت لمحہ بھر کے لیے بھی میسر نہیں ہے۔ دیکھتے نہیں کہ ہمارا سیزن لگا ہوا ہے۔ پولیس والوں سے ان کی پوزیشن معلوم کی تو جواب ملا کہ سائیں! سیکڑوں روپے جوک در جوق (کالم نگار نے اس پر موقع پر جوق در جوق کے بجائے ’’جوک در جوق‘‘ لکھ کر اور الفاظ کا ذومعنی استعمال کرکے ہمارے ہاں کے سارے انتخابی عمل کو ایک طرح سے جوک یعنی لطیفہ یا مذاق کے معنی سے تعبیر کیا ہے۔ مترجم) ہمیں تو ایک ٹکہ پیسہ بھی حرام ہے کہ جو ملے۔ امتحانی آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں کوئی ضرورت مند امیدوار مدد کے لیے کہتا ہے تو اسے سیدھا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا کرتا ہوں۔ صوبیدار صاحب اپنے حصے کا بڑا حصہ (لائن شیئر) رکھ لیتا ہے، باقی جو پانچ روپے بچتے ہیں تو وہ پھر ہمارا نصیب۔ جب سارا معاملہ سمجھ اور ناسمجھی کے مابین پھنس گیا اور معلق ہوگیا تو آخرکار ہمیں بہ حیثیت صحافی خان صاحب خودمختیار (تحصیل دار کی جانب اشارہ ہے۔ مترجم) کی خدمت میں حاضری بھرنی پڑی۔ عرض کی: قبلہ آپ تھرڈ کلاس مجسٹریٹ، اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر اور ایگزام سینٹر سپروائزر ہیں تو پھر ان سارے غیر قانونی کاموں کو جو ہورہے ہیں، کیوں کنٹرول نہیں کرتے؟ جواب ملا کہ سب کچھ تو ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے، تم میڈیا والوں کو تو سرکار کے ہر کام میں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں، کیڑے نکالنے کے سوا افسران کی کارکردگی کی تعریف کرنا تو آپ لوگوںکو آتا ہی نہیں ہے۔ الیکشن ہوں یا پھر امتحان، سرکاری اہلکاروں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں۔ شام کے امتحانی پیپر کے آخری منٹ تک میں اپنے آفس ہی میں ہوتا ہوں۔ میری جیپ چوبیس گھنٹے تیار حالت میں کھڑی رہتی ہے۔ ہر ہنگامی حالت میں جائے واردات پر میری موجودگی آپ کو ضرور نظر آئے گی۔ دونوں آزمائشوں کی گھڑیوں میں امن و امان کی صورتِ حال آپ کو بہتر ملے گی۔ ہر اہم کام حسبِ معمول جاری و ساری رہتا ہے۔ جعلی ووٹ ڈالنے اور امتحان میں نقل کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہے۔ (میں اس موقع پر اپنے دل میں سوچنے لگا کہ ہر غیر قانونی کام ہی بغیر اجازت کے ہوتا ہے۔ اس کے لیے کوئی تحریری اجازت نامہ تھوڑی ہوا کرتا ہے!!؟) اس نے مزید فرمایا کہ سرکاری افسران اور اہل کاروں کی کارکردگی کو اپنی آنکھیں اور اپنے اندر کو صاف کرکے دیکھا کرو۔ آپ کوا سی صورت میں سب کچھ صاف ستھرا دیکھنے کو ملے گا۔ اس کی بات کو بیچ ہی میں کاٹتے ہوئے کہا: لیکن سائیں!! افسرانہ غصہ دکھاتے ہوئے موصوف گویا ہوئے کہ اٹھو اور خود ہمارے ساتھ چل کر ہماری نیک نیتی پر مبنی کارکردگی دیکھو۔ ایک پولنگ اسٹیشن پر پہنچے تو مختیار کار، پولیس اور پریس کی آمد کا سن کر وقتی طورپر سارے ووٹرز قطار میں لگ کر کھڑے ہو گئے اور سارا کام ہی صاف ستھہرے انداز میں ہونے لگا۔ صاحب مجھے شرمسار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ بس نا…!! اب تم سب پریس والے سلطانی گواہ ہو ہماری سچائی اور صفائی کے۔ جو کانٹے تمہیں چبھتے ہیں اگر ان کی نشان دہی کرو تو اپنے ہاتھوں کی صفائی سے تمہارے پائوں سے نکال کر دکھا دیں۔ میں نے کہا: لیکن سائیں آپ کے جانے کے بعد صورت حال ’’جوں کی توں‘‘ ہوجائے گی۔ اس پر ناراض لہجے میں جواب دیا کہ تم زور، ہم کم زور۔ خدا ہی سمجھے اب تو تم لوگوں سے، اور کسی کے بس کی تو بات ہی نہیں ہے۔ ہمیں اور بھی کام کرنے ہیں۔ محض تمہارے ساتھ ہی رہ کر تو خاک نہیں چھاننی۔

پھر ایک مرتبہ ایک پیپر کے دوران ہم اخباری نمائندوں کی ٹیم کے ساتھ مع کنٹرولر صاحب ایک امتحانی سینٹر پر پہنچے تو عملہ اور امیدوار مارے خوف کے چوکنا اور خبردار ہوگئے۔ اساتذہ کی انتظامیہ آنے والوںکی خوشامد کرنے میں لگ گئی۔ دوسری طرف طلبہ نے ’’قلم چھوڑ ہڑتال‘‘ شروع کردی۔ اپنے اپنے قلم ڈیسک پر اور اپنے ہاتھ سروں پر رکھ کر خاموش ہوکر بیٹھ رہے۔ کنٹرولر نے ہم صحافیوں سے پوچھا کہ ادا! دیکھو کیا کچھ ہورہا ہے؟ نقل تو نہیں ہورہی ہے نا؟ ہم تمام امتحانی مراکز کے جوک در جوق معائندے کرتے رہتے ہیں۔ (ایک مرتبہ پھر اصطلاح ’’جوک در جوق‘‘ کو کالم نگار نے طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں استعمال کیا ہے، مترجم) میں نے کہا کہ سر! امیدوار آپ کا انتظار کررہے ہیں کہ صاحب خیر سے بلاک سے نکلیں تو کاغذی کارتوسی کارروائی ازسرنو وہیں سے شروع کریں جہاں پر انہوں نے روکی تھی۔ مکمل آزادی (فری ہینڈ) اور چہرہ بدل/ منڈی مٹ (امپرسونیشن) کی اصطلاحات تو سمجھ میں آتی ہیں لیکن ادھاری کھٹ، خالی مٹ، پویان پید پدری پٹ، اگیون نورئی چٹ کی باتیں سمجھ سے بالاتر ہیں (امتحانات اور انتخابات وغیرہ میں غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کے حوالے سے وضع کردہ خودساختہ اصطلاحات۔ مترجم)

اب ہم سب سوچیں کہ آخر ان دونوں اہم ترین شعبوں میں غیر قانونی امور کا خاتمہ کرکے اصلاحات (ریفارمز) کس طرح سے لائی جائیں؟ ہم میں سے ہر ایک ہی اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ کیا اس نے کبھی اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر بھی سوچا ہے؟ یہ بے حد مشکل سوال ہے، لیکن الیکشن اور عام امتحانی معاملات کے بارے میں مثبت انداز میں بالآخر ہمیں سوچنا ہی پڑے گا اور قومی اداروں کی اصلاح اور بہتری کے لیے ہمیں بہ حیثیت ایک قوم کے ذاتی ارادوں (مفادات) کی قربانی دینی پڑے گی۔ اس سلسلے میں اہم ترین اور مرکزی کردار اساتذہ کا ہے، کیوں کہ وہ نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا کام محض درس گاہوں میں پڑھانے یا سبق سکھانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کا کام مردم شماری، صحت مندی کے شعبے میں اصلاح اور بہتری پر مبنی سرگرمیوں سمیت صاف، شفاف، آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات کے لیے اپنے فرائض دیانت داری سے سرانجام دینا بھی ہے۔‘‘