نیو یارک: کچرے اور چوہوں کی جنگ

بڑے شہر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر ملک میں چند بڑے شہر ہوتے ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے معمولی قرار پانے والے ممالک میں بھی چند شہر بہت بڑے ہوتے ہیں، اور باقی تمام شہر اور قصبے اُن چند شہروں کے بل پر جی رہے ہوتے ہیں۔ شہروں کا پنپنا فطری امر ہے۔ انسان دیہی ماحول کو چھوڑ کر شہری ماحول کو اپناتا رہا ہے۔ یہ سفر صدیوں، بلکہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔ آج دنیا بھر میں دیہی معاشروں کو چھوڑ کر شہروں میں آباد ہونے کا رجحان غیر معمولی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کی آبادی گھٹتی جارہی ہے۔ اِس کا بنیادی سبب دیہی علاقوں میں زیادہ اور روشن تر امکانات کا نہ ہونا ہے۔ غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد دیہی معاشروں میں اپنے لیے کچھ زیادہ امکانات نہیں پاتے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر جب اپنے ماحول یعنی دیہی معاشرے کو دیکھتے ہیں تو دل بجھ سا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ مجبور ہوکر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ اُن کے فن کی قدر کرنے والے اُن سے استفادہ کریں اور زندگی کا معیار بلند ہو۔

شہروں کا بسنا بری بات نہیں، مگر ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ شہروں کی آبادی بے ہنگم طور پر بڑھتی جاتی ہے۔ لوگ دیہی ماحول سے نکل کر شہروں کو آباد کرتے جاتے ہیں، یعنی شہر توسیع پاتے رہتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں شہروں کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہوتا رہتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی شہروں کو نظم و ضبط سے محروم کرتی جاتی ہے۔

آج کے بڑے شہر کسی زمانے میں بہت بڑے نہ تھے اور ترقی بھی کچھ خاص نہ ہوئی تھی۔ تب یہ شہر بہت گندے تھے۔ اِن میں نیویارک بھی شامل تھا۔ سو، سوا سو سال پہلے نیویارک انتہائی گندا شہر ہوا کرتا تھا۔ آبادی گنجائش سے کہیں زیادہ تھی۔ ٹاؤن پلاننگ برائے نام رہ گئی تھی کیونکہ معمولی آبادی کے لیے کی جانے والی ٹاؤن پلاننگ بڑے شہر کا بوجھ برداشت کرنے سے قاصر تھی۔ تب نیویارک ایک طرف تو غلاظت کا ڈھیر تھا اور دوسری طرف جرائم پیشہ عناصر کی آماج گاہ بھی تھا۔ چند ہی علاقے صاف ستھرے تھے۔ شہر کی بعض بستیاں اِتنی گندی تھیں کہ اُنہیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ وہ نیویارک کا حصہ ہیں۔ اِن بستیوں میں انتہائی غریب طبقے کے لوگ رہا کرتے تھے اور یہاں بنیادی سہولتیں برائے نام تھیں۔ لوگ جیسے تیسے بس جی رہے تھے۔ غلاظت اس قدر تھی کہ صحتِ عامہ کا معاملہ رُل گیا تھا۔ بیماریوں کو وبا میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی تھی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نیویارک کو آج بھی کچرے کے خلاف جنگ کا سامنا ہے۔ شہر کی آبادی، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 84 لاکھ ہے جبکہ غیر جانب دار ذرائع بتاتے ہیں کہ نیویارک میں بسنے والوں کی تعداد کم و بیش ایک کروڑ ہے۔ ٹاؤن پلاننگ جواب دے چکی ہے۔ شہر کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ رکھنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ قومی معیشت میں نیویارک اب بھی کلیدی کردار ادا کررہا ہے مگر اِس کے باوجود یہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو تمام بنیادی سہولتیں آسانی سے فراہم کرنا ممکن نہیں رہا۔ شہر میں صفائی کے نظام کو درست رکھنا اب بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہر چیز کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے۔ شہر کو صاف ستھرا رکھنے پر جو کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے وہ بہت زیادہ ہے اور شہریوں سے لیا جانے والا ٹیکس مطلوب مالیاتی وسائل پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔

ایک زمانے سے نیویارک کو کچرے کے ساتھ ساتھ چوہوں کا بھی سامنا ہے۔ چوہوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ بیماریاں دیکھتے ہی دیکھتے وبا کی شکل اختیار کرنے لگتی ہیں اور شہر کی انتظامیہ کو صحتِ عامہ کے تحفظ کے لیے بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ معروف برطانوی جریدے ’دی اکنامسٹ‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ نیویارک دور سے بہت اچھا دکھائی دیتا ہے، اِس کی چمک دمک انسان کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی، مگر قریب سے دیکھیے تو یہ شہر کچھ اور ہی ہے۔ جو لوگ اس شہر کی گلیوں میں چلتے ہیں اُن کا تجربہ کچھ اور ہے۔ گلیوں میں کچرے کے ڈھیر ملتے ہیں۔ لوگ گھر کا کچرا ٹھکانے لگانے کے معاملے میں زیادہ شعور کا مظاہرہ نہیں کرتے اور سارا کچرا کہیں بھی دھر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ شہر کے مکینوں کے ساتھ ساتھ شہر کی انتظامیہ کے لیے بھی سوہانِ روح ہے۔ شہر کے لوگ گلیوں میں چلتے وقت کچرے کے ڈھیر سے بچ کر گزرتے ہیں۔ جگہ جگہ پڑے ہوئے کچرے پر حشرات الارض اور کتوں، بلیوں کے ساتھ ساتھ چوہے بھی پلتے ہیں۔ گلیوں میں کہیں بھی پڑا ہوا کچرا چوہوں کو اچھی خاصی خوراک فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں اُن کی تعداد میں اضافہ کیوں نہ ہو؟

اب شہر کی انتظامیہ نے کچھ سوچا ہے۔ کچرے کے ڈھیر شہر کی خوبصورتی کو بھی متاثر کررہے ہیں اور صحتِ عامہ کے حوالے سے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں۔ شہر بھر میں بڑے ڈبے رکھنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ شہریوں کو اب کچرا اِن ڈبوں میں ڈالنا ہوگا۔ 11 اکتوبر کو نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز اور سینی ٹیشن کمشنر جیسیکا ٹِش نے اعلان کیا کہ آئندہ موسمِ خزاں سے شہر بھر میں 9 یا اِس سے زائد رہائشی یونٹ رکھنے والی ہر عمارت کے لیے لازم ہوگا کہ سارا کچرا بڑے ڈبوں میں ڈالے۔ شہر بھر میں ایسی عمارتوں کی تعداد 7 لاکھ 65 ہزار تک ہے جو تمام رہائشی عمارتوں کا 95 فیصد ہے۔ تجارتی اداروں کے کچرے کے لیے بھی یہی اصول نافذ ہوگا۔ شہر بھر کے تجارتی ادارے یومیہ 90 لاکھ کلوگرام پیدا کرتے ہیں۔ کچرا ڈبوں میں ڈالنے کا قاعدہ شہر بھر میں کھانے پینے کی اشیا تیار کرنے اور بیچنے والے کم و بیش چالیس ہزار اداروں پر لاگو ہوگا۔ مجموعی طور پر شہر میں کم و بیش 70 فیصد کچرا ڈبوں میں ڈالا جائے گا۔

کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے ڈبوں کا استعمال مغربی دنیا میں نیا نہیں۔ میلان، بارسلونا، پیرس وغیرہ میں یہ عام بات ہے۔ جنوبی کوریا، ہالینڈ اور چند دوسرے ملکوں میں ملا جلا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، یعنی ڈبوں کے ساتھ ساتھ تھیلیوں میں بھی کچرا اُس مقام پر پہنچایا جاتا ہے جہاں سے شہر کی انتظامیہ اُسے اٹھواتی ہے۔

نیو یارک کو صاف ستھرا رکھنا اِس لیے بھی ایک بڑا دردِ سر ہے کہ اِس کے نیچے کئی سو میٹر تک بجلی اور دیگر کیبلز کے علاوہ، نکاسیِ آب کی پائپ لائن اور دیگر پائپ لائنیں بچھائی گئی ہیں۔ کسی بھی مقام پر کھدائی آسان نہیں۔ شہر کی انتظامیہ کہیں بھی لینڈ فِل بناکر کچرا آسانی سے ٹھکانے نہیں لگاسکتی۔ نکاسیِ آب کے لیے کہیں کھدائی کرنا بھی سہل نہیں۔ شہر کو صاف ستھرا رکھنا شہر کی انتظامیہ کے لیے ایک بڑی جنگ لڑنے سے کم نہیں۔ سینی ٹیشن کمشنر جیسیکا ٹِش کہتی ہیں کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے، کیونکہ دنیا بھر میں جو طریقے کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے اپنائے گئے ہیں اُنہیں اپنانے کے معاملے میں نیویارک پیچھے رہ گیا ہے اور ہمیں بہت تیزی سے باقی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا ہے۔

کچرا ڈبوں میں ڈالنا نیویارک میں کوئی نئی بات نہیں۔ 1930ء کے عشرے میں یہ سب کچھ عام تھا۔ لوگ دھات کے ڈبوں میں کچرا ڈالنے کے عادی تھے اور یہ طریقہ شہر کو صاف ستھرا رکھنے میں غیر معمولی کردار ادا کرتا تھا۔ 1968ء میں سینیٹری ورکرز کی 9 روزہ ہڑتال کے نتیجے میں شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے جن سے اٹھنے والے تعفن نے انتظامیہ کو مجبور کیا کہ شہریوں کو پلاسٹک بیگ دیے جائیں تاکہ وہ کچرا اُن میں بھر کر طے شدہ مقامات تک پہنچائیں۔ پھر یوں ہوا کہ لوگ پلاسٹک بیگز میں کچرا ڈالنے کے عادی ہوگئے۔ نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز ریٹائرڈ پولیس کیپٹن ہیں۔ انہوں نے چوہوں کا صفایا کرنے کو زندگی کا سب سے بڑا مشن بنا رکھا ہے۔ وہ چوہوں کو عوام کا دشمن نمبر ون قرار دیتے ہیں۔ پلاسٹک بیگز کے استعمال سے چوہوں کی افزائش زیادہ تیزی سے ہوئی ہے۔ جب کچرا ڈبوں میں ڈالا جاتا تھا تب چوہے اُس تک آسانی سے پہنچ نہیں پاتے تھے۔ پلاسٹک بیگز کُتر کر کھانے پینے کی اشیا تک رسائی چوہوں کے لیے بہت آسان ہے۔ نیویارک میں صفائی ستھرائی کے محکمے نے پولیس کے محکمے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ تین عشروں پہلے جب پولیس کے محکمے نے جرائم پر قابو پانے کے حوالے سے سوچ بدلی تب جرائم پیشہ افراد کو لگام دینا ممکن ہوسکا۔ پولیس نے اعداد و شمار کی مدد سے ایسے علاقوں کا تعین کیا جہاں جرائم کی شرح زیادہ تھی۔ اِس کے نتیجے میں چند علاقوں کو نشانے پر لے کر زیادہ مؤثر انداز سے کام کرنا ممکن ہوسکا۔ اِس کے نتائج انقلابی نوعیت کے ثابت ہوئے، یعنی نیویارک کو جرائم سے یوں نجات ملی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ اب یہی طریقہ چوہوں سے نجات پانے کے لیے بھی اختیار کیا گیا ہے۔ جہاں جہاں چوہے بہت زیادہ ہیں اُن علاقوں کو بطورِ خاص نشانے پر لیا گیا ہے تاکہ کارکردگی زیادہ بارآور ثابت ہو۔

سنی ٹیشن کمشنر جیسیکا ٹِش پولیس کے محکمے میں بارہ سال کام کرچکی ہیں۔ انہوں نے پولیس کے محکمے کی طرح صفائی کے محکمے میں بھی ہفتہ وار میٹنگز کا اہتمام کیا ہے تاکہ ٹیلی فون پر موصول ہونے والی شکایات کی روشنی میں کچرا ٹھکانے لگانے کے حوالے سے زیادہ کارگر طریقِ کار اختیار کیا جاسکے۔ ان کی حکمتِ عملی کارگر رہی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے مئی میں ’’ٹریش ڈیش‘‘ نامی پروگرام شروع کیا جو اب تک کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ جیسیکا ٹِش کی حکمتِ عملی کامیاب رہی ہے کیونکہ چوہوں سے متعلق شکایات میں معتدبہ کمی واقع ہوئی ہے۔ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر بھی کم ہوئے ہیں اور چوہوں کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں زیادہ تیزی سے کارگر ثابت ہورہی ہیں۔ دکان داروں اور ٹِھیے لگانے والوں کے لیے نئے قواعد متعارف کرائے گئے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ کچرا کہیں بھی کُھلے میں نہ رکھا جائے تاکہ چوہوں کو کھانے کے لیے کچھ نہ ملے۔ جن علاقوں کو چوہوں سے پاک کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے وہاں چوہوں کی تعداد 45 فیصد تک گھٹ گئی ہے۔ مین ہٹن کے ویسٹ ہارلیم میں واقع ہیملٹن ہائٹس نامی علاقے میں چوہوں سے متعلق شکایات زیادہ تھیں اِس لیے وہاں گزشتہ ماہ کنٹینرائزیشن یعنی ڈبے رکھنے کا خصوصی پروگرام شروع کیا گیا جو اب تک مطلوب نتائج دے رہا ہے۔ علاقے میں ڈبے رکھنے کے ساتھ ساتھ کچرا اٹھانے کا پروگرام بھی وسیع کردیا گیا۔ اب وہاں ہفتے میں چھ دن کچرا اٹھایا جارہا ہے۔ اسکولوں میں بھی ڈبے رکھے گئے ہیں تاکہ بچے کھانے پینے کی کوئی بھی چیز پلاسٹک بیگز میں ڈال کر نہ پھینکیں۔

ریسٹورنٹس میں ڈبے رکھنے کی گنجائش نہیں، اور اگر باہر رکھے جائیں تو شہریوں کے لیے سائیڈ واک پر کھانے پینے کی جگہ کم بچتی ہے۔ ایسے میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے ڈبے رکھنے کا پروگرام ریسٹورنٹس کی طرف سے مزاحمت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے شہر کی انتظامیہ کو غیر معمولی سختی دکھانا پڑے گی۔ کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے ڈبوں کا استعمال پائلٹ پروگرام ہے۔ اس پروگرام کی کامیابی ناگزیر ہے تاکہ بات کو آگے بڑھایا جاسکے۔