نیب میں 4 حاضر سروس افسروں کی تعیناتی
پارلیمنٹ کی آئینی مدت مکمل ہوجانے کے بعد ملک میں انتخابات ایک آئینی ضرورت اور ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر اس حوالے سے فی الحال طفل تسلیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔ سیاسی جماعتیں منقسم نظر آرہی ہیں، کوئی الیکشن سے پہلے معیشت اور بہتر موسم مانگ رہا ہے اور کسی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت نااہلی سے بچنے اور اپنی سیاسی تاریخ کے کڑے امتحان سے گزر رہی ہے، جبکہ مسلم لیگ(ن)کی قیادت نااہلی کا لیبل اتارنے اور اہلیت کی قبا پہننے کی سرتوڑ کوشش میں ہے۔ وہ ابھی تک اس مخمصے سے باہر نہیں نکل سکی کہ نوازشریف وطن واپسی پر جلسہ گاہ کیسے پہنچیں گے؟ وہ عوامی دبائو بڑھاکر فیصلہ لینا چاہتی ہے، اس کوشش میں کامیابی کا تناسب کیا ہے؟ اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی، البتہ ایک بات ہوسکتی ہے کہ نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد مسلم لیگ(ن) کے لیے حالات جیسے بھی ہوں، ملک میں ایک گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کی راہ ہموار ہوجائے گی اور الیکشن سے قبل ضرور ایک لکیر کھینچی جائے گی، اور لازماً انتخابات سے قبل کچھ طے ہوگا۔ کیا سیاسی ڈائیلاگ صدرِ مملکت کی نگرانی میں ہوگا؟ سیاسی جماعتیں خود آگے بڑھیں گی یا کسی ریاستی ادارے کی چھائوں میں ہوگا؟ یا ریاستی ادارے کے اشارے اور آشیرباد سے یہ کس سیاسی جماعت کے ذریعے ہوگا؟ انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ہوگی یا نئی سیاسی جماعت کھڑی کی جائے گی؟ یہ دیگ اس وقت دھیمی آنچ پر پک رہی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی وطن واپسی کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ(ن) نے ملکی سیاست میں جس طرح سنسنی پیدا کرنے کی مہم چلائی، یہ مہم نگران وزیراعظم کے ایک ہی بیان کہ ’’نواز، زرداری اور عمران سیاست میں واپسی کے لیے قانونی راستہ اپنائیں‘‘ کی لہر میں تنکے کی مانند بہہ گئی ہے۔ اب مسلم لیگ(ن) جو بھی بیانیہ بنائے اُسے نوازشریف کی سیاست میں واپسی کے لیے عدالتی فیصلوں کے تابع رہنا ہوگا۔ نوازشریف نے پہلے بدلہ لینے کا اعلان کیا، بعد میں’’عام معافی‘‘ کا اعلان کردیا، اور 2017ء کے کرداروں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ یوں اُن کا انقلاب مصلحت کی چادر اوڑھ کر کہیں جا سویا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مزاحمت کا مؤقف چھوڑ کر اگر مفاہمت کی طرف جاتے ہیں تو اس کا مرکزی نقطہ کیا ہے؟ مفاہمت سے اقتدار مل گیا تو ان کا بیانیہ کیا ہوگا؟ خدشہ ہے کہ نوازشریف وہی کریں گے جو اُن کے دل میں ہے۔ سیاسی بیانیہ کیا بنانا ہے اور کب کیا بات کرنی ہے یہ اُن کا معاملہ ہے، لیکن اُن کی سیاست کی سرخی اُس وقت افق پر ظاہر ہوگی جب انہیں قانونی رعایت مل جائے گی۔ قانون کہتا ہے کہ سزایافتہ شخص پہلے عدالت کے سامنے پیش ہوگا پھر عدالت اس کے لیے حفاظتی ضمانت کا فیصلہ دے گی۔ لہٰذا قوی امکان ہے کہ وہ لاہور لینڈ کرنے کے بجائے پہلے اسلام آباد لینڈ کریں گے، انہیںحفاظتی ضمانت کے لیے عدالت کے روبرو پیش ہونا پڑے گا۔جو بھی ہو، اُن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ ’ڈیل‘ کا تاثر ختم کرسکتے ہیں؟ یہ تاثر روزانہ مضبوط ہورہا ہے۔ اُن سے متعلق ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں رہے، البتہ ٹائمنگ کا مسئلہ بنتا رہا ہے۔ انہیں یہ تاثر لازمی ختم کرنا ہوگا کہ وہ ڈیل کرکے آرہے ہیں۔ اس تاثر کو ختم کیے بغیر اُن کا اپنا تاثر خراب ہوتا رہے گا، اور کسی طرح وہ منتخب ہوگئے تو پھر وہی کچھ ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
اس سوال کا جواب بھی بہت ضروری ہے کہ کیا انتخابات واقعی جنوری میں ہوں گے؟ کہتے ہیں کہ ان مسائل کا حل سیاسی استحکام ہے جو صرف جمہوریت سے ممکن ہے۔ جمہوریت کے لیے منتخب حکومت اور اس کے لیے انتخابات ضروری ہیں۔شفاف انتخابات کے لیے ایمان دار آر ٹی ایس نظام چاہیے۔ آئندہ چند ماہ کا سیاسی منظرنامہ بتارہا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے، سخت معاشی فیصلے ہونے جارہے ہیں۔
مسلم لیگ(ن) کا خیال تھا کہ انتخابات سے قبل نوازشریف کی وطن واپسی اس کے لیے سیاسی معجزہ ہوگی، لیکن اب صورتِ حال بدل گئی ہے اور خود مسلم لیگ(ن) نے لاہور ہائی کورٹ میں نوازشریف کی جو میڈیکل رپورٹ جمع کرائی ہے اُس میں بھی یہی بات لکھی گئی ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں، انہیں لندن یا پاکستان میں مسلسل طبی معائنے کی ضرورت ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ مسلم لیگ(ن) چاہتی ہے کہ نوازشریف کے لیے جیل کے بجائے سیاست اور آزادی کے دروازے کھلے رہیں۔ اگر نوازشریف کے لیے وہی کچھ ہوا جو مسلم لیگ(ن) کی خواہش ہے تو پھر یہ سب کچھ طے شدہ ڈیل سے مشروط ہوگا۔
ملکی سیاست میں تیزی اپنی جگہ، تاہم انتخابات کے لیے ابھی تک کہیں بھی ماحول اور فضا نظر نہیں آرہی ہے۔ نگراں وزیراعظم یہی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن جو بھی تاریخ دے گا نگراں حکومت ملک میں اس کے مطابق عام انتخابات کرائے گی، تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں گے اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔ بار بار اس وضاحت کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ 9 مئی کا واقعہ ہے، اس سے کوئی بھی صرفِ نظر کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اب چونکہ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کے لیے برابری کی سطح کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے تو یہ راستہ بھی قانون کو دینا ہے۔ نوازشریف کو چار سال بعد وطن واپسی پر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا، جس کیس میں وہ سزا یافتہ ہیں اس میں اُن کے جیل جانے کا امکان بھی موجود ہے اور انتخابی عمل میں اُن کی شرکت مقدمات میں بریت سے مشروط ہے۔ تاہم ان کی جماعت کے لیے انتخابات میں شریک ہونے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ نگراں وزیراعظم واضح کرچکے ہیں کہ نوازشریف عدالتی فیصلوں کے تابع رہیں گے اور نگراں حکومت عدلیہ کے فیصلے پر عمل کرے گی۔ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ قانون کی بالادستی اور جمہوری اصولوں کی پاس داری ہونی چاہیے، لیکن وہ انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت پر واضح آئینی اور قانونی اسباب کے بغیر پابندی لگانے پر ردعمل کی بھی بات کررہی ہیں۔ نوازشریف کو جن مقدمات کا سامنا ہوگا ان میں اب اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک آئینی درخواست کے ذریعے نااہلی کی مدت 5 سال کرنے پر الیکشن ایکٹ ترمیمی سیکشن 232 کو چیلنج کردیا گیا ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال مقرر کی گئی، سپریم کورٹ 62 ون ایف کی تشریح کرچکی ہے۔ترمیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے، استدعا ہے کہ عدالت نااہلی کی مدت5سال کرنے کی ترمیم کوکالعدم قرار دے۔
عمران خان بھی اپنے لیے قانونی راستہ تلاش کررہے ہیں۔ وہ ’’مداخلت‘‘ کی ہر کوشش سے مایوس ہوچکے ہیں اور اپنے لیے رعایت کے متمنی ہیں، اسی لیے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس خارج کرنے کی استدعا کی گئی۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ سیکشن 5 کا اطلاق نہ ہونے پر کیس خارج کیا جائے۔ اسی طرح سپریم کورٹ میں نیب ترامیم فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کی گئی ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ نیب ترامیم کے خلاف 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے نظرثانی کی اپیل دائر کی ہے کہ نیب ترامیم میں کسی بنیادی حق کی خلاف ورزی کی نشاندہی نہیں کی گئی لہٰذا استدعا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ نیب ترامیم کے خلاف 15 ستمبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔ حکومت نے بھی اس فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے رواں سال 15 ستمبر کو نیب ترامیم کیس کا فیصلہ سنایا تھا اور چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں۔ اس کے بعد نیب میں چار حاضر سروس فوجی افسروں کی تعیناتی ہوئی ہے۔ بریگیڈئیر محمد خالد (انفینٹری) کا بطور ڈائریکٹر (20 گریڈ) تقرر کیا گیا ہے، جبکہ لیفٹیننٹ کرنل ندیم مظفر (انٹیلی جنس اسٹاف کالج) کو بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر (19 گریڈ)، میجر وحید خالد (ملٹری انٹیلی جنس) کو بطور ڈپٹی ڈائریکٹر (18 گریڈ) اور میجر قیس کامران سید (ایم آئی) کو بھی ڈپٹی ڈائریکٹر (18 گریڈ) کے عہدے پر ڈپوٹیشن پر تعینات کیا گیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کے اہم عہدوں پر تعیناتیاں چند روز قبل کی گئیں۔ ڈپٹی چیئرمین نیب سہیل ناصرہائی کورٹ کے سابق جج اور نگراں صوبائی وزیر صحت جمال ناصر کے حقیقی بھائی ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت میں نیب قانون میں ترامیم کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا، جس کے بعد 1800 سے زائد کیسز بحال ہوچکے ہیں۔عدالت نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بارِ ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترامیم کالعدم قرار دیں، جس کے بعد سیاست دانوں کے 50 کروڑ سے کم مالیت کے کرپشن کیسز ایک بار پھر نیب کو منتقل ہوگئے تھے۔عدالتی فیصلے کی روشنی میں نیب نے نوازشریف، آصف زرداری،شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور دیگر سیاست دانوں کے 80 سے زائد کرپشن کیسز بحال کردیے۔ سائفر اور 9 مئی کے واقعات کے کیسز عدالت میں زیرسماعت ہیں جن پر ابھی آئین و قانون کے مطابق فیصلہ صادر کیا جانا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔ عدالتی فیصلے سے قبل تبصرے کرنا یا ان معاملات کو زیربحث لانا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ پی ٹی آئی چیئرمین سمیت جو بھی قانون کی زد میں آئے گا، اس کے خلاف مجاز فورم کی جانب سے قانونی کارروائی ہوجائے گی۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ میاں نوازشریف، عمران خان اور آصف علی زرداری سمیت تمام افراد قانونی راستہ اپنائیں، ہر ایک کو مقدمات کے معاملے میں قانونی سہولت ملے گی، کسی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں، ڈیل کیسے ہوسکتی ہے! نگراں وزیراعظم نے اگرچہ یہ بات دہرائی ہے کہ وقت پر انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں اور وہ جنوری میں انتخابات سے متعلق مطمئن ہیں، لیکن کچھ اور ہی ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ نگراں سیٹ اَپ کو سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کے معاملات پر کسی بحث مباحثے میں الجھنے کے بجائے اپنی توجہ خالصتاً انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت سے متعلق اپنی ذمہ داریوں پر ہی مرکوز رکھنی چاہیے۔
نگراں عبوری حکومت کی ذمہ داری آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہوتی ہے۔کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے یا انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے آئین اور قانون کی جو شقیں موجود ہیں، ان کی بنیاد پر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے مجاز فورم ہی فیصلہ کرسکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔ کسی امیدوار کی اہلیت اور نااہلیت کا تعین الیکشن کمیشن کو آئین کی دفعہ 63, 62 اور دوسرے متعلقہ قوانین کی روشنی میں کرنا ہوتا ہے جس کے خلاف متعلقہ شخص کو مجاز عدالتی فورمز پر اپیل کا بھی حق حاصل ہوتا ہے، جبکہ کسی جماعت کو صدرِ مملکت کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس کے تحت ہی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے جس کے لیے ماضی میں ہونے والی کارروائیوں کی مثالیں موجود ہیں۔ کالعدم قرار پانے والی کوئی جماعت خود تو اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی مگر اس میں شامل افراد بشمول اس کی قیادت اور عہدیداران کسی دوسری جماعت کے پلیٹ فارم پر یا انفرادی طور پر انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں بشرطیکہ ان پر کوئی قانونی قدغن عائد نہ ہوئی ہو۔
اس تناظر میں اگر پاکستان تحریک انصاف کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو نہ ابھی تک اس پارٹی کو کالعدم قرار دینے کا کوئی ریفرنس دائر ہوا ہے اور نہ ہی اس پارٹی کے سربراہ سمیت اس پارٹی کے کسی عہدیدار یا رکن کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کی کوئی پابندی عائد ہے۔ اسی طرح نوازشریف، آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کے سیاسی مستقبل کا دارومدار بھی آئین و قانون کی عمل داری پر ہے۔ سپریم کورٹ کی فل بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھ کر ازخود کارروائی والے مقدمات میں متاثرہ فریقین کے لیے اپیل دائر کرنے کا راستہ بھی کھول دیا ہے اور پارلیمنٹ نے تاحیات نااہلیت والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس نااہلیت کی حد پانچ سال مقرر کردی ہے۔ اس لیے اگر کوئی سیاسی لیڈر کسی سابقہ مقدمے میں تاحیات نااہلی اور قید کی سزائیں پا چکا ہے تو ازخود کارروائی والے مقدمے میں اسے اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کا بھی حق حاصل ہے اور اپنی نااہلی کی سزا کے پانچ سال پورے ہونے پر وہ آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کا بھی مجاز ٹھیرے گا۔ تاہم یہ سارے معاملات عدالتی فیصلوں سے ہی مشروط ہیں۔
امیروں پر ٹیکس …واحد آپشن
ملک میں سیاسی منظرنامہ جیسا بھی ہو، معاشی منظرنامہ کسی قیمت پر بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی آمدنی سے متعلق مخصوص شرائط کے ساتھ ٹیکس نظام پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پالیسی سازوں کو بالآخر احساس ہوگیا ہے کہ وہ اب چند موجودہ ایمان دار ٹیکس دہندگان کو مزید دبا نہیں سکتے، آئی ایم ایف نے بارہا ملک کو امیروں پر ٹیکس لگانے اور غریبوں کو ریلیف دینے کا مشورہ دیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب ورلڈ بینک نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ زراعت، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹرز سے چھوٹ کو ختم کرے تاکہ فوری طور پر جی ڈی پی کے چار فیصد یعنی تقریباً 4 ٹریلین روپے تک اضافی ریونیو حاصل کیا جا سکے۔ اب تک حکومت کا واحد انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر رہا ہے، جس سے امیروں کے مقابلے میں غریب طبقے پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ اگست کے مہنگے بجلی بلوں کے بعد عوام کے غصے نے ظاہر کیا کہ وہ اس سرکس کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے،واحد آپشن امیروں پر ٹیکس لگانا ہے،حکومت کو رئیل اسٹیٹ اور زرعی شعبوں کے لیے بھی ٹیکس کے ڈھانچے پر کام کرنا چاہیے۔
معاشی ابتری کے تشویش ناک ماحول میں یہ خبر امید کی ایک اور کرن ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے معاہدے کے تحت بیجنگ میں دونوں ملکوں کے درمیان پندرہ سے زائد نئے ترقیاتی منصوبوں پر دستخط ہونے جارہے ہیں، نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ خصوصی دعوت پر اسی لیے چین گئے ہیں۔ نئے منصوبوں میں انفرااسٹرکچر، توانائی اور دیگر شعبوں کی گیارہ منصوبے بھی شامل ہیں۔سی پیک ایک نیا نظریہ ہے جس میں خطے کے ممالک گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس پر عمل درآمد سے مشرق اور مغرب کے ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کا راستہ کھلے گا۔ امریکہ اور بھارت اسی لیے اس کی مخالفت کررہے ہیں، مگر منصوبے کی افادیت کے پیش نظر ان کی مخالفت سے تعمیر و ترقی کے اس پروگرام کو روکنا ناممکن ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں سی پیک بنیادی کردار ادا کرنے والا ہے۔