اسرائیل کے جنگی جرائم مغرب کا معتصب رد عمل

غزہ پر بمباری کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ کو خالی کرنے کے الٹی میٹم کے بعد ایک بڑی تعداد اب ہجرت کررہی ہے، لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ ان مہاجرین کے قافلوں کو بھی اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جمعہ کے دن ہجرت کرنے والے ایک فلسطینی قافلے پر اسرائیل نے حملہ کیا جس میں 12 افراد جان سے گئے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جن کی عمر محض 3 تا 5 سال تھی۔ اس پر بین الاقوامی برادری کا کوئی خاص ردعمل سامنے نہ آسکا، تاہم 15 اکتوبر 2023ء کو برطانوی وزیر خارجہ جیمز کیلورلی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے تاہم اس میں سویلین انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہونا چاہیے۔ حیرت انگیز طور پر مغربی میڈیا میں یہ بات اب واضح ہورہی ہے کہ جو میڈیا دنیا بھر میں انسانی حقوق کے معاملے پر آسمان سر پر اٹھا لیتا تھا وہ غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، معصوم لوگوں پر بمباری، غذا، پانی اور ایندھن کی فراہمی جیسے بنیادی حقوق کی اسرائیل کی جانب سے معطلی پر کوئی آواز بلند نہیں کررہا…اور تو اور دنیا میں کسی ایک خاتون یا بچے کی موت پر ایک منظم مہم جوئی کرنے والے میڈیا پر کوئی ایسی مہم نظر نہیں آسکی جو کہ اس قافلے میں مرنے والے معصوم 3 تا 5 سال کی عمر کے بچوں کے قاتلوں کو افغان یا پاکستانی طالبان کی طرح جنونی قرار دے، اور نہ ہی ان بچوں کے لیے کوئی ایئر ایمبولینس میسر آسکی کہ جو ان کو ملالہ یوسف زئی کی طرح برطانیہ منتقل کرسکے۔ اس سارے تنازعے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل وفلسطین کے تنازعے میں اب تک مغربی طاقتوں کا مکمل جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہے، جس سے خود ان مغربی معاشروں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔

بروز ہفتہ 14 اکتوبر 2023ء کو برطانیہ کے بڑے شہروں میں اس تنازعے کے حل اور فلسطین کے حق میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ سب سے بڑا مظاہرہ لندن میں ہوا جس کا آغاز بی بی سی کے دفتر کے باہر سے ہوا۔ اس ضمن میں سیاست پر نظر رکھنے والوں کا موقف ہے کہ یہ بی بی سی کی انتظامیہ کو اُس کی یک طرفہ پالیسی پر ایک بڑا پیغام ہے جو کہ دیا گیا۔ اس کے علاؤہ مانچسٹر، لیورپول، بولٹن اور دیگر شہروں میں بھی مظاہرے منعقد ہوئے جن میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی۔ بی بی سی نے لندن میٹرو پولیٹن پولیس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ لندن میں ہونے والے مظاہرے میں جھڑپ سے 8 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو اب روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس سے قبل بھی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔ اب جبکہ برطانیہ نے کھل کر اسرائیل کی ایک بار پھر مکمل حمایت کا اعادہ کیا ہے تو برطانیہ میں اس کے مزید منفی اثرات بھی نظر آئیں گے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں بھی فلسطینی پرچم لہرانے کے حوالے سے گرفتاری عمل میں لائی گئی تھی، تاہم اس پورے واقعے کی تفصیلات تاحال جاری نہیں کی گئیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی مختلف تنظیموں نے فلسطین کے مسلمانوں کی امداد کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم شروع کی ہے جس میں لوگ بڑے پیمانے پر حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم اس امداد کو وہاں تک پہنچانا ایک بہت بڑا اور کٹھن کام ہے جس میں صرف چند بڑی فلاحی تنظیمیں ہی کامیاب ہوسکتی ہیں۔ ادھر فرانس نے فلسطینی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے جس کے بعد اب فرانس میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ برطانیہ میں میڈیا کے بعد اب باضابطہ طور پر اسرائیل کی حمایت میں مہم پوسٹرز کی شکل میں شروع ہوگئی ہے۔ برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر مانچسٹر کے سٹی سینٹر میں نامعلوم افراد کی جانب سے کچھ پوسٹر آویزاں کیے گئے ہیں جن میں اسرائیل سے مبینہ طور پر اغوا کیے جانے والے خاندان کی تصاویر موجود ہیں اور اس مسئلے کو انسانی حقوق اور بنیادی انسانی ہمدردی کے مسئلے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اب ان پوسٹرز پر بھی فلسطین کی آزادی کے نعرے درج کردیے گئے ہیں۔ گویا دونوں جانب سے باضابطہ طور پر عمل و ردعمل سامنے آرہا ہے جو کہ برطانوی معاشرے میں شدید تقسیم کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ پولیس بار بار اس بات کا تذکرہ کررہی ہے کہ یہودی منافرت Antisemeticکے جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا پر بھی اس تقسیم کو نمایاں طور پر محسوس کیا جارہا ہے۔ شاید عراق جنگ کے بعد یہ برطانوی معاشرے میں دوسری بڑی تقسیم ہے جس کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ عراق جنگ میں برطانیہ کی شمولیت کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا، لیکن اس کے برعکس حکومت نے اس جنگ کا حصہ بننا قبول کیا، جس کے بعد ہونے والی تحقیقات میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بغیر ثبوت کے عراق کو تباہ کرنے اور سنگین نوعیت کے الزامات میں چارج کیا گیا تھا۔

غزہ کی وزارتِ صحت نے ہفتہ 14 اکتوبر 2023ء کو جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں اُن کے مطابق اب تک اسرائیلی بمباری سے غزہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 2215 ہے جس میں 724 بچے اور 458 خواتین ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد 8714 ہے جس میں 2450 بچے اور 1536 خواتین شامل ہیں۔ اس سب کے باوجود بھی تاحال کوئی مغربی حکومت اسرائیل کے اس عمل کی مذمت کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ خود مغرب میں اس مسئلے پر تقسیم مزید گہری ہورہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مغرب سے ہی ان اقدامات پر شدید تنقید سول سوسائٹی کی جانب سے نظر آرہی ہے۔ بی بی سی کے مطابق اسرائیل کی وزارتِ دفاع کے دفاتر کے باہر حماس کے ہاتھوں اغوا ہونے والے اسرائیلی شہریوں و فوجیوں کے اہلِ خانہ نے مظاہرہ کیا اور حکومت کو شہریوں کے تحفظ میں ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ ان کے پیاروں کی بحفاظت واپسی کو جلد از جلد ممکن بنایا جائے۔ ایک اور خبر میں بی بی سی نے غزہ کی پٹی سے انخلاء کے حوالے سے صورتِ حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے شہری اسرائیلی وارننگ کے باوجود بھی اپنے گھر بار چھوڑنے کو تیار نہیں، اس حوالے سے ایک فلسطینی نے خود بتایا کہ وہ اس بات کو ترجیح دے گا کہ اپنے گھر میں خودداری کے ساتھ موت کو گلے لگالے بجائے اس کے کہ وہ اپنے گھر کو چھوڑ کر جائے۔ اسرائیل کی ساری ٹیکنالوجی، عسکری قوت، دولت و ثروت، آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور پوری دنیا کی مکمل مدد مل کر بھی وہ دل نہ بنا سکیں جو فلسطینیوں کا ہے، کہ جہاں پوری دنیا کی پشت پناہی کے حامل ملک سے کوئی خوف نہیں، اور نہ ہی موت کا خوف ان کو اپنی زمین چھوڑنے پر مجبور کرسکا۔ دوسری جانب یہ سب کچھ رکھنے والے اسرائیل کے عوام خود اپنی حکومت پر شدید تنقید کررہے ہیں کیونکہ اُن کو معلوم ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بھی اُن کے پیاروں کو نہیں بچا سکتی۔ دوسری جانب برطانیہ میں بھی اب سیاسی محاذ پر جنگ بندی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ مانچسٹر سے لیبر پارٹی کے رکن اسمبلی افضل خان نے 13 اکتوبر 2023 ءکو برطانوی وزیر خارجہ جیمز کیلورلی کے نام خط تحریر کیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ اس تنازعے کے حل اور معصوم انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور ساتھ ہی غزہ میں محصور لوگوں کو بنیادی انسانی سہولیات کی فراہمی اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت یقینی بنائی جائے۔ دوسری جانب لیسٹر کونسل کے 7 کونسلرز نے جن کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے، اپنی پارٹی کے صدر کیئر اسٹارمر کے بیان کی مذمت کی ہے جس میں اسٹارمر نے اسرائیلی حملوں کی حمایت کی تھی۔ اس تحریری بیان میں انہوں نے غزہ کی صورتِ حال کی جانب توجہ دلوائی ہے کہ وہاں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے کی جارہی ہے۔ ان کونسلرز نے اس بیان کو لیبر پارٹی کی پالیسی کے منافی قرار دیتے ہوئے اسٹارمر سے اس پر معذرت کرنے کا کہا ہے۔

ہر گزرتے دن اور لمحے کے ساتھ اس تنازعے کے سنگین اثرات پوری دنیا اور خاص طور پر مغربی دنیا پر پڑ رہے ہیں۔ ایک تقسیم ہے جو گہری ہورہی ہے، اور مغرب میں خود اس حوالے سے شدید بے چینی ہے۔ اگر یہ کہا جائے توبے جا نہ ہوگا کہ حماس نے پوری دنیا کو نہ صرف ششدر کردیا ہے بلکہ دنیا کودو حصوں میں مکمل طور پر تقسیم بھی کردیا ہے۔ یہ حماس کی کامیابی پر منتج ہو گا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن ایک بنے بنائے کھیل کو حماس نے اُس وقت بگاڑ دیا جب بازی تقریباً جیتی جاچکی تھی۔