الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی بے حسی
پاکستان کے حالیہ سیاسی بحران کا ممکنہ حل منصفانہ اور شفاف عام انتخابات کا انعقاد ہے۔ ملک میں عام انتخابات کے بارے میں یہ ابہام موجود ہے کہ کیا یہ ممکن ہوسکیں گے! الیکشن کمیشن نے یہ اعلان کیا تھا کہ عام انتخابات کا انعقاد جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی پنڈتوں کے بقول آج بھی عام انتخابات کے بارے میں ابہام موجود ہے۔ کسی کے بقول عام انتخابات فروری یا مارچ 2024ء سے پہلے ممکن نہیں، اور کچھ اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ فوری طور پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ کوئی خراب موسم یا سردیوں کا بہانہ بنارہا ہے اورکوئی سیکورٹی سمیت معیشت کی بدحالی کو جواز بناکر پیش کررہا ہے۔ کسی کے بقول پہلے احتساب یا پہلے معیشت اور پھر انتخابات کا راستہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ دوسرا اگر ملک میں انتخابات کی بات ہورہی ہے تو پھر بنیادی نوعیت کا یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ہم انتخابات کی شفافیت یقینی بنا سکیں گے؟ اور کیا یہ انتخابات ماضی کے انتخابات کا تسلسل نہیں ہوں گے؟ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات سے قبل ہی انتخابات کے متنازع ہونے، اور لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کی باتوں پر زیادہ زور دیا جارہا ہے یا اس پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھ رہے ہیں، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ایک بار پھر ماضی ہی کے کھیل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات سے قبل ہی سیاسی انجینئرنگ کا معاملہ سب کو بالادست نظر آتا ہے۔ سوائے مسلم لیگ (ن) کے باقی تمام جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں’ لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کی باتیں کررہی ہیں اور ان کا یہ نکتہ کسی نگران حکومت یا الیکشن کمیشن سے نہیں جڑا ہوا، بلکہ ان کا واضح اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔ کیونکہ تمام سیاسی قوتیں سمجھتی ہیں کہ اگر اُن کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنا ہے تو اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن یا نگرانوں نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام جماعتوں کی توجہ کا مرکز و محور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا حصول ہے۔ یہی ہماری جمہوریت کا المیہ ہے کہ ہم انتخابات کے نام پر عوام اور اُن کے ووٹوں کی طرف کم اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں۔
اس وقت سب سے بڑا سوال نگران حکومت، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے عمران خان اور پی ٹی آئی کی انتخابات میں شرکت کا فیصلہ ہے۔ پی ٹی آئی ایک مقبول اور پاپولر سیاست کے ساتھ کھڑی ہے۔ 9مئی کے بعد سے پی ٹی آئی پر سیاسی عقاب نازل ہے اورعملی طور پر اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان جیل میں ہیں اور قانونی محاذ پر ان کو عدالتی یا قانونی بحران کا سامنا ہے۔ دوسری جانب اُن کی جماعت کا ایک بڑا حصہ 9مئی کے واقعات کو بنیاد بناکر خود سے یا کسی دبائو کی وجہ سے پی ٹی آئی کی عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرچکا ہے۔ ان میں سے بیشتر لوگ گھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور کچھ نے جہانگیر ترین کی ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ یا پرویز خٹک کی ’’پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین‘‘ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ جو لوگ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں اُن کی بھی بڑی اکثریت سیاسی منظرنامے سے غائب ہے، یا بہت سے لوگ جیلوں میں دہشت گردی اور بغاوت جیسے سنگین مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ عمران خان بھی بظاہر کوئی سمجھوتا کرنے کے لیے تیار نہیں، اور جو خبریں ہیں اُن کے مطابق انہیں ملک سے جبری بنیادوں پر باہر بھیجنے یا اپنی جگہ کسی اور کو پارٹی قیادت سونپنے پر راضی کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ عمران خان نے ان تمام اندازوں اور پیش گوئیوں کو غلط ثابت کردیا ہے کہ وہ مزاحمت نہیں کرسکیں گے اور جیل کی سختیاں ان کو سمجھوتوں پر مجبور کردیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ عمران خان کو پیچھے ہٹا کر سیاست اور انتخابی دربار سجانا چاہتے تھے ان کو نتائج کے حوالے سے کافی خوف کا سامنا ہے۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ عمران خان کا ووٹ بینک کم نہیں ہوا بلکہ بدستور بڑھ رہا ہے، اور مزاحمت اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ مؤقف کی وجہ سے انہیں سیاسی پذیرائی مل رہی ہے۔ اس لیے عمران خان کا ’’علاج‘‘ کیے بغیر کیسے انتخابی دربار سجایا جائے گا، یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ خاص بات نوجوان ووٹرز ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بقول 18سے35 برس کے نوجوانوں کے ووٹوں کی تعداد 5 کروڑ 70لاکھ کے قریب ہے جو مجموعی ووٹروں کا 46 فیصد بنتی ہے۔ نوجوان نسل کا جھکائو عمران خان کی سیاست کی طرف ہے اور ان کے سیاسی مخالفین اس معاملے میں پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین چاہے سیاسی ہوں یا غیر سیاسی… اُن کا سب سے بڑا چیلنج عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنا ہے جس میں انہیں بدستور ناکامی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی منظرنامے میں نوازشریف کی واپسی کا سیاسی جادو چلایا جارہا ہے، اور اگر نوازشریف واپس آتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ ان کی جماعت یا حامی مینارِ پاکستان گرائونڈ پر ان کے لیے کتنا بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر ان کا مینار پاکستان پر بڑا جلسہ نہیں ہوتا تو اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے حالیہ جلسوں کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسے عوامی سیاست میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ شہبازشریف کی سولہ ماہ پر مبنی حکومت ہے جس میں عوامی مشکلات اور معاشی بدحالی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے حالیہ جلسوں کو بنیاد بناکر مینارِپاکستان کے بجائے کسی اور جگہ جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس سے اُس کی سیاسی سبکی کا پہلو سامنے آئے گا۔ اسی طرح نوازشریف کے بارے میں پہلے ہی سے یہ بات چل رہی ہے کہ ان کی واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ یعنی نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر ڈیل کی بنیاد پر ہی نوازشریف کی واپسی ہوگی، اور جو لوگ نوازشریف کو نیلسن منڈیلا یا جمہوری جدوجہد کے بڑے لیڈر کے طور پر پیش کررہے ہیں اُن کو بھی خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویزاشرف کے بقول نوازشریف کی واپسی ڈیل کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ اس لیے اگر نوازشریف واپس بھی آرہے ہیں اور اُن کے بقول اب وہ ایک فرماں بردار کی طرح پس پردہ قوتوں کو چیلنج نہیں کریں گے تو ان کا بیانیہ بہت کمزور ہوگا۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نوازشریف، اور مخالفت کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں میں ہوگی۔ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے بڑے حامی صحافی انصار عباسی کے بقول مسئلہ محض مائنس ون یعنی عمران خان کا ہی نہیں بلکہ مائنس ٹو نوازشریف کو بھی اس بحران سے گزرنا ہوگا۔ جبکہ ایک اورمعروف صحافی امتیاز عالم کے بقول نوازشریف کو بس انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہوگی جبکہ جیت کی صورت میں وزیراعظم کے امیدوار شہبازشریف ہی ہوں گے۔ ان کے بقول اگر کسی کو اِس وقت عمران خان قبول نہیں تو اُس کے لیے نوازشریف کو بھی قبول کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف یہ خبریں بھی عام ہیں کہ اِس وقت شہبازشریف کی حیثیت ڈیفیکٹو وزیراعظم کی ہے اور نگران وفاقی حکومت یا پنجاب حکومت کو شہبازشریف ہی ریموٹ کنٹرول کی بنیاد پر چلا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک اورمعروف صحافی جو شہبازشریف کے بہت زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں انہوں نے مجھے خود بتایا کہ ایک ملاقات میں شہبازشریف نے خود اعتراف کیا کہ عمران خان کی مقبولیت کم نہیں ہورہی، ایسے میں ہمارے لیے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ شہبازشریف ہی کے بقول انہیں یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان کو ہر قسم کی سہولت دی جائے گی اور انتخابات سے قبل عمران خان کو جیل ہی میں رکھا جائے گا اور ان کو نااہلی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) والوں کا خیال ہے کہ پنجاب میں وہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور نگران حکومت سمیت الیکشن کمیشن کی معاونت سے فتح کو بآسانی یقینی بناسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک جماعت کے ہاتھ پیر باندھ کر انتخابی میدان سجانا ہے اور ڈراکر اورخوف زدہ کرکے پی ٹی آئی کو انتخابی مہم کی اجازت بھی نہیں دینی تو پھر انتخابات کا ڈراما کیوں رچایا جارہا ہے؟ ایسے انتخابات کو کون تسلیم کرے گا؟ اس طرز کے انتخابات کی ساکھ کیا ہوگی؟ اورکیا اس کے بعد ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکے گا؟ خود پیپلزپارٹی بھی اس طرز کے انتخابات پر شدید تنقید کررہی ہے اور اس کے بقول ساری لیول پلیئنگ فیلڈ صرف مسلم لیگ (ن) کو ہی حاصل ہے، باقی جماعتوں کو سیاسی طور پر دیوار سے لگایا جارہا ہے۔انتخابات سے قبل استحکام پاکستان پارٹی، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین یا شاہد خاقان عباسی کی نئی بننے والی جماعت کے نتیجے میں پہلے ہی سے انتخابات کی حیثیت کو چیلنج کیا جارہا ہے، کیونکہ اس طرح سے سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ اورکسی کی حمایت یا مخالفت میںکی جانے والی سیاسی انجینئرنگ پورے انتخابی نظام کو ہی متنازع بنادے گی۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ اورخبریں شیئر کررہے ہیں کہ مائنس ون اورمائنس ٹو کی بنیاد پر انتخابات ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں ہم پہلی بار یہ مائنس ون اور ٹو کا کھیل دیکھ رہے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ کھیل پرانا ہے اوراس میں نئے رنگ بھرے جارہے ہیں۔ یہ کھیل بھٹو سے شروع ہوکر بے نظیر، بے نظیر سے نوازشریف، اور نوازشریف سے عمران خان، اور اب عمران خان سے نوازشریف تک جاری ہے۔ کیا ہم اس طرز کے کھیل سے کوئی مثبت نتائج نکال سکیں گے؟کیا ماضی میں اس طرح کی سیاسی مہم جوئی اورکسی کی حمایت اور مخالفت کے کھیل نے سیاست اورجمہوریت کو مستحکم کیا؟ اس کا جواب نفی میں ملتا ہے۔اس لیے نوازشریف ہوں یا عمران خان، مسئلہ کسی کو مائنس کرنے سے حل نہیں ہوگا۔ سیاست کے فیصلے ووٹروں کو کرنے ہیں اور ان کو ہی سیاست اورجمہوریت میں حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی بنیاد پر کسی کو منتخب کریں یا کسی کو مسترد کردیں۔ یہ حق ووٹروں سے لے کر اگر کچھ قوتیں اپنے پاس رکھیں گی تو اس سے پوری طرح ہمارا سیاسی نظام متنازع ہوگا۔ہمیں ماضی کے سیاسی کھیل اورتجربات سے باہر نکلنا ہے، کیونکہ ہم پہلے ہی داخلی اور خارجی محاذ پر کئی طرح کے سنگین مسائل سے دوچارہیں۔ ہمیں سیاسی اور معاشی طو رپر ایک مستحکم سیاست اور معیشت درکار ہے۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ہر طرح کی سیاسی مہم جوئی کو بند کرنا ہوگا۔الیکشن کمیشن اور نگرانوں سمیت نگرانوں کے بڑے نگرانوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اس طرح کی حکمت ِعملیاں ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ کیونکہ جو کچھ ہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس سے بلاوجہ کا ردعمل پیدا ہورہا ہے۔ ملک کے اندر اورملک سے باہر پاکستانیوں میں جو غم و غصہ ہے اس کا درست طور پر تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ ہم عملی طور پر کہاں کھڑے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور نگرانوں کی بے بسی ظاہر کرتی ہے کہ ہم ایک مصنوعی سیاسی اورایک کمزور جمہوری نظام کا حصہ ہیں۔ ایسے میں جو کھیل پاکستان میں کھیلا جارہا ہے وہ ہمارے لیے سیاسی اورمعاشی استحکام کے راستوں کو اور زیادہ محدود کردے گا۔ہمیں اس وقت عام انتخابات منصفانہ اور شفاف بنیاد پر درکار ہیں اورہماری کوشش اور ترجیحات میں بھی یہی نظر آنا چاہیے کہ ہم ووٹوں کی بنیاد پر حکومت بنانے کے حامی ہیں۔یہ حکمت عملی کہ وفاق میںکون حکومت کرے گا یا صوبوں میں کس کی حکومت بنے گی، یا سب کو اقتدار کی سیاست میں شراکت دار بنایا جائے، یا کمزور اورمخلوط حکومت کی بنیاد پر سیاسی کنٹرول خود تک محدود رکھاجائے، سنگین غلطی ہوگی۔ اس لیے یہ فیصلہ کرنا کہ نوازشریف پاپولر ہیں، عمران خان پاپولر ہیں یا بلاول بھٹو سمیت مولانا فضل الرحمن… اس کا فیصلہ پسِ پردہ قوتوںکو نہیں بلکہ عوام کو کرنا ہے۔ جب ہمارا سیاسی اورجمہوری نظام ووٹوں کی بنیاد پر انتقالِ اقتدار کو یقینی بنائے گا تب ہم جمہوری سطح پر درست سمت میں چلنے کی ابتدا کردیں گے۔لیکن سوال وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اورکون فیصلہ کرے گا کہ ہمیں سیاسی انجینئرنگ کے مقابلے میں شفافیت کو بنیاد بنا کر انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے۔یاد رکھیں یہی حکمت عملی قومی مفاد میںہے اور اسی عمل سے سیاسی،جمہوری اورمعاشی نظام بھی مستحکم ہوسکے گا۔