برصغیر پاک و ہند میں محاورے ہمیشہ سے ہماری زبان کا حصہ رہے ہیں۔ اور ہر محاورے کا کوئی نہ کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے جس کو ادا کرنے سے کہنے والے کی بات بہ آسانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ گویا ایک چھوٹے سے جملے یا چند الفاظ کے مجموعے کو ادا کرکے پوری داستان بیان کردی جاتی ہے۔ (سین شین)
**——**
ایسے ہی ایک محاورہ ہے”ساس لگنا“۔ اس محاورے کا ہماری معاشرت اور تہذیبی رشتوں سے گہرا تعلق ہے۔ ایک کنواری لڑکی اپنی کسی دوسری ہم پیشہ خاتون کے رویہ سے خفا تھی اور اُس پر اظہار ناخوشی کرنا چاہتی تھی کہ اُس نے خواہ مخواہ ایک موقع پر بُرے الفاظ میں یاد کیا تھا اور شکوہ شکایت کی بات کو لڑائی جھگڑے کی صورت دیدی تھی۔ اُس پر اس کنواری لڑکی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے میرے خلاف اِس طرح کی باتیں کیوں کیں وہ میری ’’ساس نہیں لگتی تھی‘‘۔
یہ اس لئے کہ معاشرتی طور پر ہمارے خاندانوں میں ”ساس“ کو بڑا درجہ دیا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جو چاہے کہہ سکتی ہے جب چاہے ناراض ہو سکتی ہے اور اپنی بہو کا فضیحتہ کر سکتی ہے کسی اور کو یہ حق نہیں ہے۔ اگر ہم اس بے تکلف اظہار اور محاورہ کی سماجیاتی اہمیت پر گفتگو کریں تو ہمارے معاشرہ کی ایک خاص روش سامنے آتی ہے اور گھریلو سطح پر جو حقوق کی سماجی تقسیم رہی ہے اور مختلف رشتوں کے جو معنی ہماری زندگی میں رہے ہیں اُس پر ایک عکس ریز روشنی پڑتی ہے۔
(انتخاب: سید شہاب الدین۔عشرت جہاں ہاشمی کی تحریر سے اقتباس)