ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

دو ہفتے ہونے کو ہیں ، فلسطین میں درندگی کا ننگا ناچ جاری ہے، قبلہ اول نوحہ کناں ہیں کہ اس کے قرب و جوار میں اسلحہ اورگولہ بارود کے آتش فشاں پھٹ رہے ہیں، انسانیت جس سے لہولہان ہے، معصوم بچے، عفت مآب خواتین ، بوڑھے، معذوراور زخمی سب ہی اسلحے کی اس بارش کی زد میں ہیں، غزہ کا محصور خطہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، محصورین کو پانی، خوراک، ادویات، بجلی، گیس ، انٹرنیٹ اور دیگر ہر طرح کی انسانی ضروریات کی فراہمی بند ہے، اسپتال، ایمبولینس گاڑیاں، بے سروسامان، نہتے، بے گھر مہاجرین کے قافلے تک اسرائیلی بمبار طیاروں کے حملوں سے محفوظ نہیں، زخمیوں کو علاج اور مرحومین کو قبریں میسر نہیں۔ سوگوار خاندان اپنے شہداء کو خالی جگہوں پر کھودی گئی غیر رسمی قبروں میں دفن کرنے پر مجبور ہیں، دو درجن کے قریب مساجد بھی صیہونی بمباروں نے شہید کر دی ہیں، الغرض خطے میں اسرائیلی سفاکیت آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور کسی وقت بھی کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے مگر عالمی امن کا ٹھیکے دار اقوام متحدہ، نامی ادارہ تاحال کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، روس کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کی قرار داد پر عملدرآمد ہونا تو بعد کی بات ہے، سلامتی کونسل کے ارکان نے اسے منظور تک کرنے سے انکار کرکے دو ارکان کی اکثریت سے مسترد کر دیا ہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ انسان تو اشرف المخلوقات ہے، جانوروں پر معمولی ظلم پر تڑپ اٹھنے اور آسمان سر پر اٹھا لینے والے نام نہاد مہذب مغربی دنیا کے ممالک نہایت ڈھٹائی، انتہائی بے شرمی اور بے حیائی سے کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی پشت پناہی کر رہے ہیں، مغربی دنیا کے سرخیل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے واضح الفاظ میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ عملاً فوری طور پر اسلحہ اور گولہ بارود سے بھرے جہاز اسرائیل پہنچا دیئے ہیں جب کہ پانچواں بحری بیڑہ بھی اس کی حفاظت کے لیے روانہ کر دیا ہے جب کہ دوسری جانب مظلوم اور محصور فلسطینیوں کو ادویات اور خوراک تک پہنچنے نہیں دی جا رہی… امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے خود اسرائیل پہنچ کر مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے یہ شرمناک بیان بھی دیا ہے کہ ’’میں اپنے ساتھ یہ پیغام بھی لایا ہوں کہ آپ اپنے دفاع کے لیے خود کافی مضبوط ہو سکتے ہیں مگر جب تک امریکہ موجود ہے، اسرائیل کو اپنا دفاع نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘ برطانوی حکومت نے بھی دو بحری جہاز اور نگران طیارے مشرقی بحیرہ روم بھیجنے کا اعلان کیا ہے جب کہ بھارت نژاد برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے ’’علاقائی استحکام‘‘ میں اسرائیل کی ہر طرح سے مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جرمنی نے اسرائیل کو ’’ہیبرون ٹی پی‘‘ نامی اپنے دو ڈرون طیارے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے، جرمنی چانسلر اولاف شولز نے ملک بھر میں حماس کی حمایت میں ہر طرح کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جب کہ پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے کی بجائے حماس کی کارروائی پر فلسطینی صدر محمود عباس کی خاموشی کو شرمناک قرار دیا ہے، فرانس نے بھی اپنے ملک میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کو ممنوع قرار دیا ہے…!!!

ایک جانب ’’مہذب‘‘ مغربی دنیا کا یہ طرز عمل ہے جس کے مد مقابل شیخ احمد یٰسین شہید کی تشکیل کردہ ’حماس‘ شہید کربلا، نواسۂ رسول مقبولؐ، امام حسینؓ کی سنت کو اس یقین و ایمان کے ساتھ حرز جان بنائے ہوئے ہے ؎

قتل حسینؓ اصلٔ میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

حماس نے بلاشبہ عزت و عظمت، جرأت اور عزیمت کے راستے کا انتخاب کیا ہے کہ سفاک باطل، درندہ صفت، شیطانی عالمی اتحاد کے سامنے ہتھیار ڈالنا قبول نہیں، غیور فلسطینی اپنا سر کٹوا تو سکتے ہیں،جھکا نہیں سکتے کہ اس نے صرف خالق ارض و سما کے سامنے ہی جھکنا سیکھا ہے ؎

یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

سوال مگر یہ ہے کہ عالم کفر تو حق و باطل کے اس معرکہ میں پوری طرح متحرک دکھائی دے رہا ہے اور اپنا پورا وزن ہر ہر حوالے سے اپنی نمائندہ صیہونی ریاست کے پلڑے میں ڈال رہا ہے مگر اس معرکہ میں مسلم دنیا کہاں کھڑی ہے؟ یہاں بھی مسلمان عوام کے دل تو یقینا اپنے مظلوم مسلمان فلسطینی بھائیوں کے ساتھ دھڑک رہے ہیں اور وہ دنیا بھر میں مظاہروں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار بھی کر رہے ہیں مگر سوال ارباب اقتدار و اختیار کا ہے، مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ہے مغرب کی طرح کوئی جاندار، ٹھوس اور نتیجہ خیز عملی اقدام تو دور کی بات ہے کوئی جاندار، جراتمندانہ، حقیقت پسندانہ بیان تک فلسطینی مظلومین کی حمایت میں ان مسلم حکمرانوں کو جاری کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی، عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم جانے کہاں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل میں بھی کسی مسلمان حکومت کو آواز اٹھانے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ پوری دنیا کی بہترین فوج ہونے کی دعویدار مسلمانوں کے اس مشکل وقت میں کہیں اپنے جوہر دکھاتی نظر نہیں آ رہی اور یادش بخیر کم و بیش چالیس ملکوں کی ایک زبردست ’’اسلامی فوج‘‘ بھی چند برس قبل تشکیل دی گئی تھی، جس کی سربراہی پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کے سپرد ہوئی تھی… وہ فوج آخر کب روبہ عمل آئے گی؟ یہ فوج کہاں ہے؟ اس کے سربراہ خاموش کیوں ہیں؟ کیا اسلام اور مسلمانوں پر آج سے زیادہ کوئی مشکل وقت بھی آئے گا جب یہ ’اسلامی فوج‘ حرکت میں آئے گی؟ کتنے ہی سوالات ہیں جو ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں مگر ان کا جواب دینے والا کوئی نہیں… حماس اور فلسطینی مسلمان تو یہ تمام مصائب برداشت کر کے شعب ابی طالب اور کربلا کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور سرخرو قرار پائیں گے کہ بقول ہے پیامبر انقلاب شاعر مشرق، علامہ اقبالؒ: ؎

اگر عثمانیوں پہ کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

سوال مگر پھر یہ ہے کہ مسلمان حکمران، ارباب اقتدار و اختیار کل روز حساب اپنے عادل و قادر رب کے حضور کس منہ سے پیش ہوں گے اور اس سوال کا کیا جواب دیں گے کہ جب تمہارے فلسطینی مسلمان بھائی گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے تھے تو تم کہاں مر گئے تھے…؟؟؟
(حامد ریاض ڈوگر)