’’ابوالقُلقُل! اِدھر آؤ!‘‘

پچھلے دنوں پوچھا گیا اور کئی احباب کی طرف سے پوچھا گیا کہ ’’سمجھ میں نہیں آرہا ہے، یہ قلہ کیا ہے اور اس کا تلفظ کیا ہے؟‘‘

سمجھ میں تو ہماری بھی نہیں آیا کہ بیک وقت اتنے قیمتی قلم کاروں کو یکایک قلہ کی قلیاں کیوں لاحق ہوگئیں؟ قلیاںکا مطلب وہ جوش و خروش ہے جو حقے کا دَم لگاتے وقت اُس کے پانی میں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس جوشیلی آواز کو ہم جیسے کم علم گُڑگُڑاہٹ یا گُڑگُڑی کہتے ہیں۔ (حقہ چھوٹا ہو تو اُسے بھی ’گُڑگُڑی‘کہہ دیا جاتا ہے) مگر اہلِ علم اس گُڑگُڑی آواز سے فلسفۂ نفسی بھی کشید کرلیتے ہیں، جیسا کہ رشکؔ نے کیا:

مری قلیاں کَشی کی وجہ ضبطِ سوزِ باطن ہے
دھوئیں آنکھوں کے، بن کے دُودِ تمباکو نکلتے ہیں

دُود بھی دھوئیں ہی کو کہتے ہیں۔ہم نے جب اپنے احباب کی اِس ’قلہ پُرسی‘ کی ٹوہ لی اور تحقیق کا حُقہ گُڑ گُڑایاتو معلوم ہواکہ اِس پوچھ پاچھ کے پیچھے رحمن کیا نی مرحوم چُھپے مُسکرا رہے ہیں۔ مرحوم نے شاہ فیصل شہید کی شہادت پر ایک نظم کہی تھی جو آج کل سماجی ذرائع ابلاغ پر گویا پھر سے وبائی ہو گئی ہے۔ اُسی نظم کا ایک شعر ہے:

پھر وقت کی بھٹی میں لوہے کی طرح پگھلو
پھر قُلّۂ فاراں سے لاوے کی طرح نکلو

’لاوے بھرے‘ اس شعر کی وبا شاید فلسطین کی وادیِ غزہ تک جا پہنچی۔ پس حماس والے یہ شعر سنتے ہی بھڑک اُٹھے اور ادبدا کر:

جنگل کی آگ بن کے چلے جب پہاڑ سے
لاوے کی طرح پھوٹ پڑے ہر دراڑ سے

کیا نی صاحب مرحوم نے قُلّۂ فاراں کی ترکیب کئی جگہ استعمال کی ہے۔ مثلاً اپنے مجموعۂ کلام ’’اذان‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر کہی گئی نظم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے لیے انھوں نے ’’نقیبِؐ قُلّۂ فاراں‘‘کا لقب استعمال کیا۔ اسی طرح ایک اور شعر میں کہتے ہیں:

بات پر اپنی یقیں ہے تو در و بام سے دُور
کچھ بہ اندازِ خطیبِؐ سرِ فاراں کہیے

اب تک آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ قُلّہ پہاڑ کی چوٹی یا سرِ کوہ کو کہتے ہیں۔ جہاں تک تلفظ کا تعلق ہے تو قاف پر پیش ہے اور لام مشدّد۔ پہاڑ کی چوٹی کے علاوہ اہلِ عرب مٹکے، ِٹھلیا یا بڑے سُبو کو بھی قُلّہ کہتے ہیں اور گھوڑے کے زرد رنگ کو بھی۔ سر کا بالائی حصہ بھی قُلّہ کہلاتا ہے۔ اسی پر کلاہ یا کُلَہ دھرتے ہیں۔پیر صاحبان جسے مرید بناتے ہیں اُسے کُلاہ اور پیروں کا شجرہ عطا فرماتے ہیں۔ مرید صاحبان اسے بھی ’قُلّہ شجرہ‘ کہنے لگے۔ قلیاں (حقہ گُڑگُڑانے کی آواز) کا اوپر ذکر آیا تویہاں نیچے پہنچ کر ہمیں یاد آیا کہ ’گُڑگُڑ‘ کی ایک آواز کو قُلقُل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آواز تنگ منہ کی بوتل یا صراحی سے پانی اُنڈیلتے وقت نکلتی ہے۔ قُلقُل کی صدا کو قہقہے سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔ بے زبان بچے جب آواز سے ہنستے ہیں تواُن کے اس عمل کو قِلقاری اور قِلقاریاں مارنا کہتے ہیں۔ شراب کی صراحی یا مینا سے شراب اُنڈیلی جائے تب بھی یہی آواز نکلتی ہے۔ برقؔ بڑھاپے میں بڑبڑاتے ہوئے اس آواز کو یاد کرتے ہیں:

اب وہ نوچندی کہاں اور وہ مہینا کیسا؟
مے کہاں، جام کہاں، قُلقُلِ مینا کیسا؟

شراب اُنڈیلنے کا کام چوں کہ ساقی کو سونپاجاتاہے، چناں چہ اہلِ مے کدہ نے ساقی کی کُنیت ہی ’ابوالقُلقُل‘ رکھ چھوڑی۔ ابوالقُلقُل یعنی ’قُلقُل والا‘۔ ہمارے برادرِ بزرگ محترم اقبالؔ اعظم فریدی نے ایک دلچسپ اور طویل آزاد نظم کہی ہے۔ یہ نظم ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں ماضی کے کسی شمارے میں مکمل شائع ہو چکی ہے۔ہوا یوں کہ اقبالؔ بھائی ماضی بعید کے کسی قدیم بغدادی مے خانے میں اپنے زورِ تخیل کی ’ٹائم مشین‘لگا کر اچانک جا پہنچے۔ وہاں پہنچ کر اعلان کردیا کہ وہ بیسویں یا اکیسویں صدی سے رجعت قہقری کرکے اُلٹے قدموں مذکورہ صدی میں تشریف لے آئے ہیں۔یہ سنتے ہی مے خانے میں کھلبلی مچ گئی۔ رندوں نے فی الفور فریدی صاحب کو پکڑ کرساقی کوسونپا:

’’ابوالقُلقُل!
اِدھر آؤ!

یہ دیوانہ یہ کہتا ہے کہ مستقبل سے آیا ہے،
اِسے تم حال میں لاؤ … ہمارے حال میں لاؤ!‘‘

اُن کا حال تومعلوم نہیں کہ حال میں لائے گئے یا مے کدے کے ہال سے بھگائے گئے۔ مگرچلیے، ہم ہی اپنے حال میں واپس آجاتے ہیں۔ رحمٰن کیانی صاحب کے جس شعر کا تذکرہ تھا، اُس کے سلسلے میں بعض احباب کو یہ شبہ ہوا کہ کیانی صاحب نے ’’قلعۂ فاراں‘‘ باندھا ہوگا جسے کاتب نے اپنے کرتب سے ’قلہ‘ بنادیا۔ نہیں صاحب! قُلّہ اور چیز ہے، قلعہ اور چیز۔ ’قلعہ‘ کا مطلب ہے ’پتھر کا گھر‘۔ وہ سنگین اور محفوظ عمارت جس میں بالعموم فوج رہتی ہے۔ شطرنج کا ایک مُہرہ بھی قلعہ کہلاتا ہے۔ شطرنج کی بساط پر بادشاہ کے اردگرد مُہروں کا حصار باندھنا ’قلعہ بنانا‘ ہے۔ فریقِ مخالف کا کوئی مہرہ اس حصار میں گھس آئے تو اس چال کو ’قلعہ توڑنا‘ کہتے ہیں۔ قلعوں کا اکثر ’قلع قمع‘ ہوجاتا ہے۔ ’قلع‘ کے معنی ہیں بنیادیں گرانا، انہدام یا ڈھا دینا، اور ’قمع‘ کا مطلب ہے توڑنا۔ ’قلع قمع‘ کا مفہوم ہوا اُکھاڑ پچھاڑ، توڑ پھوڑ یا مسمار کرنا۔ ’قلع‘ ایک خاص قسم کی کان کو بھی کہتے ہیں۔ اس کان سے سفید رنگ کی جو ملائم دھات نکلتی ہے اُسے ’رانگ‘ یا ’رانگا‘کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں ‘Tin’ کہلاتی ہے۔ علم ِ کیمیا میں اِسے علامت ‘Sn’ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس دھات کا جوہری عدد50 ہے۔ رنگ سفید ہوتا ہے۔ اسے پگھلا کر تانبے وغیرہ کے برتنوں پرلیپتے ہیں تو برتن چاندی کی طرح چمکنے لگتے ہیں۔ اس عمل کو ’قلعی کرنا‘ قرار دیا جاتا ہے۔ حکیم منظورؔ کو شاید ’بیوٹی پارلر‘ کی چاندی سے چمکتے چہروں کی چہکار منظور نہیں تھی سو اُنھیں دیکھتے ہی بولے ’سارے چہرے تانبے کے ہیں لیکن سب پر قلعی ہے‘۔ رانگے کا رنگ چڑھانے کے اس عمل کو ’ملمع کرنا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کسی کے ظاہری حال احوال کے عقب سے اُس کے اندرون کی اصل حالت نمودار ہوجائے یا پوشیدہ عیب ظاہر ہوجائے تو اسے محاورتاً ’قلعی کھل جانا‘ یا ’ملمع اُتر جانا‘ کہا جاتا ہے۔ رندؔ کا دعویٰ ہے:

دیکھے اس مُغ بچے کو گر واعظ
قلعی کھل جائے پارسائی کی

’مُغ بچہ‘ ساقیوں کے بزرگ کا یعنی ’پیرمغاں‘ کابچہ ہوتا ہے۔ مگر’مُغ‘ کیا ہوتا ہے؟ اس کی تفصیل پھر سہی۔آج جوشؔ کاناچ دیکھیے:

مُغ بچے دھوم سے ہیں پیشِ مُغاں رقص کُناں
کُرّۂ نور پسِ مُغ بچگاں رقصاں ہے
دست بوسی کو بڑھیں ارض و سماوات کہ آج
جوشؔ سا قبلۂ رندانِ جہاں رقصاں ہے