اوراق ناخواندہ

تخلیق کار کے لیے اپنی تخلیقی نوعیت کی لغوی، روایتی اور متداول معنوں کی ہر بات میں ایک حتمی معیار کی خواہش موجود ہوتی ہے جس میں تخلیق کار کے اپنی تمدنی ارتقا، ذہانت، اعلیٰ ترین شعوری حسیت اور معروضیت کا اشتراک، تخلیقی اظہارات کے شانِ نزول میں جزوِلازم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذاتی پسند، ناپسند اور پس منظر کے عقیدت مندانہ اظہارات میں معیار کی ارفعیت (Sublime) اور اس کی پیش کش میں پہلو بہ پہلو محققانہ تلاش و جستجو بطونِ متن میں ایسی دانش ورانہ سطح کو جنم دیتی ہے کہ جس کے تاثراتی، مشاہداتی اور تجرباتی طرزِعمل میں نظریاتی و فکری رجحانات، جب کہ معنی و تاثیر میں جداگانہ پرتیں اور نئی تلمیحاتی تہہ داریت کا احساس نمایاں ہوتا ہے، اور جو اپنے تعین میں بیان کردہ شخصیات کے جداگانہ رنگ و روپ کی وضاحت، واقعیت کے ساتھ کرتی ہے۔

اس وقت میرے زیر ِ مطالعہ ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کے تحریر کردہ خاکوں پر مبنی کتاب ”اوراقِ ناخواندہ“ ہے۔ یہ کتاب ہما پبلشنگ ہاؤس، کراچی کے اہتمام سے 2016ء میں شائع ہوئی تھی۔اس کتاب میں کُل33خاکے موجود ہیں۔کتاب کا انتساب پروفیسر سحر انصا ری صاحب کی دانش ورانہ کتاب دوستی کے نام کیا گیا ہے جو عین سچائی پر مبنی ہے، کیوں کہ سحر انصاری صاحب، جامعہ کراچی میں میرے استادِ محترم بھی تھے۔ اس کتاب کے ابتدائی صفحات پر غالبؔ کاایک شعر درج ہے؎

کوئی آگاہ نہیں باطنِ ہم دیگر سے
ہے ہر اک فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ

صحافت پر مشرق و مغرب کی یہ بحث خاصی قدیم ہے کہ صحافت،ادب کیوں نہیں ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب بھی ایک صحافی ہیں اور صحافت کے محرکات کی شرائط،من و عن اردو ادب پر بھی استعمال کرتے ہیں۔عموماًشعرا و ادبا کے یہاں آمد یا تخلیقی اپج کی کیفیت بھی محرکاتی اور لمحاتی ہوتی ہے اور ابدیت کی سزاوار ٹھیرتی ہے، اور یہی رجحان طاہر مسعود صاحب کی تحاریر میں بھی بہ خوبی نظر آتا ہے۔ آپ کی دیگر کتب کی مانند یہ تصنیف بھی ادبی چاشنی سے ہمہ پہلو عبارت ہے۔ غالب کے شعر میں ورقِ ناخواندہ کی ترکیب، خاکوں کو اسکیچ کہلوانے میں مبنی برحق ہے، تاہم ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کے یہاں ورائے اسکیچ کی اثرانگیزی بھی کچھ کم نہیں۔ کتاب میں موجود شخصیتوں کے انتخاب اور ان پر لکھے گئے خاکوں کے متن کے بنظرِ غائر مطالعے سے طاہرمسعود صاحب کے نظریاتی و فکری رجحانات سے آپ کا فطری ادیب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ”اوراقِ ناخواندہ“ کے مطالعے کے دوران کائنات کےسب سے اہم حیاتیاتی مظہر یعنی خلق الانسان علمہ البیان کی رو سے انسان کے بیان کے سلیقے اور معلومہ علوم کی آفاقیت کی مدد سے انسانی اعمال و اطوار کے انسلاکی و انفرادی جوہر کے ساتھ ساتھ صاحب ِ خاکہ اور خاکہ نگار ہر دو کی شخصی تفہیم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

نثر پاروں یا منظومات کی تفہیم کا مرحلہ ٔ اول تو یہی ہوتا ہے کہ ان کے الفاظ اور کرداروں کو کلام کے مواقع عطا کیے جائیں۔تفہیم کا یہ مرحلہ نہایت اہم اور دل چسپی سے معمور ہوتا ہے۔ جبکہ مرحلۂ دیگر میں نظم و نثر کے جملہ محرکات، اس کی زمانیت و مکانیت اور پس منظر و پیش منظر کو مدِنظر رکھتے ہوئے صاحب ِ خاکہ کی نظریاتی جوہر کی سعی اپنی معنویت میں سامنے آتی ہے۔ زیر نظر کتاب میں شخصیتوں کے انتخاب میں محض شخصی ذخائر یا احباب کے اجتماع سے خوشہ چینی سے کہیں بڑھ کر ان شخصیات کے مقام و مرتبت، ارتباط و تسلسل،حزم و احتیاط، جامعیت اور حسنِ ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے جن اندازوں اور پیمانوں کا طاہر مسعود صاحب نے بہ خوبی اہتمام کیاہے، وہ بلاشبہ ان کے دانش ورانہ انتخاب کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ مختلف شخصیتوں سے کماحقہ متعارف کرواتی یہ کتاب، تخلیق کار کی بالعموم اور بیان کردہ شخصیات کی بالخصوص تخلیقی جولانی اور ذہنی حسیات کی وضاحت کے سبب سے ایک ادبی کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔

ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کے خاکے بہ عنوان ”ڈاکٹر صاحب“ میں طاہر مسعود صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک کامل عکس پیش کردیا ہے۔ تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل اس ربط و تعلقِ خاطر میں طاہر مسعود صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے ہمہ صفت و ہمہ جہت پہلوؤں کو بیان کیا ہے جن سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت مکمل طور پر سامنے آتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ”جسارت“ اخبار کے ادبی صفحے کے مدیر کی حیثیت سے فکر و قلم کی جو آزادی اپنے رفیقِ کار طاہر مسعود صاحب کو عنایت فرمائی تھی، آپ نے بجا طور پر کلیدی حیثیت میں اس کا ذکرکیا ہے۔ بلاشبہ یہ وصف ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی بلند شخصیت کی مثبت کلیت (Positive Holistic) اور اخلاقی تشکیل (Moral Enrichment)کی تکمیل کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی اس عظیم ترین خوبی سے مجھے بھی بہرہ مندی کا اعزاز حاصل رہا ہے۔

ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب اپنی کتاب میں انسانی خصائص کے ادراک میں اپنے نظریات کی شمولیت بھی پہلو بہ پہلو رکھتے ہیں، اور یہی سبب ہے کہ آپ کی تحریروں میں آپ کی ذہنی تربیت اور تہذیبی عظمت غیر محسوس انداز میں موجود و پائندہ رہتی ہیں۔ آپ کا یہ تحریری تجربہ قوت ِ حیات (Vital force)سے معمور ایک جمالی تجربے میں متشکل ہے، کیوں کہ آپ صاحبِ خاکہ کی تعریف و توصیف یا اس کی شخصیت کی بلا کم و کاست تصویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صاحب ِ خاکہ میں موجود قرارِ واقعی بشری کمزوریوں کو بھی متین،جامع اور واضح الفاظ کے پیراہن میں ایک خوب صورت اور مدلل جواز کا ردعمل بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ آپ عنوانات کو اپنے متون کے تدریجی ارتقا کا ہی ایک تسلسل قرار دیتے ہیں،گویاعنوان ہی مکمل تعارف و انکشاف ہوجاتا ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ پروین شاکر کے لیے”خوشبو کی ہجرت“،مشتاق احمد یوسفی کے لیے ”سخن گسترانہ یادیں“اور جمال احسانی کے لیے”کامیابی و ناکامی کے درمیان“ جیسے عنوانات نہایت موزوں ہیں۔ منطقیت، معنویت اور واقعیت سے بھرپور ایسے عنوانات مصنوعی اور سرسری تخلیق نہیں کیے جاسکتے۔اسلوبِ بیان کا یہ حقیقی رنگ آپ کی ذہنی بلاغت اور مشاہداتی رسائی کی سچائی کا نتیجہ ہے۔

خاکے کی صنف میں عمومی اندازِ فکر کی حامل اصطلاحات اور رویوں کی بازیافت نظر آنا ایک عام رجحان ہے لیکن طاہر مسعود صاحب کے یہاں نئے زاویے،نئے نظریات اور پیرائے اور اسالیب کی ارتقا پذیراور غیر جامد خصوصیات کا ایسا مبسوط اظہار ہے کہ نقد و استحسان کے بنے بنائے اصولوںسے قطع نظر آپ کے اسلوب کا پیراڈائم(Paradigm) آپ کی ذہنی تربیت،علمی رویّے اور ذاتی شغف کی آئینہ داری کا عنصر لیے ہوئے ہے جوکسی بھی تعصب و جانب داری اور افراط و تفریط کے بغیر اپنی تفہیم کی آگہی اور بصیرت سےصاحبِ خاکہ کے محاسن و حقائق بیان کرتا ہے۔ ٹیری ا یگلٹن (Terry Eagleton) نے جو کہا کہ تخلیقی اظہارات اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں اور ان اظہارات کےاپنے مقررہ بیانیے ہوتے ہیں جو تخلیق کار کے یہاں ایک ناگریز و لازمی جزو کی حیثیت سے پیہم موجو د رہتے ہیں، اس رو سے ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب روایتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ادب و صحافت کی دنیاکے خصائص سے ہمہ صفت متصف ہیں کہ جہاں واقعیت کی اہمیت بہر صورت قائم رہتی ہے یا رہنی چاہیے۔ لہٰذااس منفرد نقطۂ نظر کی وضاحت اور صاحب ِ خاکہ کے خال و خط کی صریح روشناسی کے لیےڈاکٹر طاہر مسعود صاحب کی تصنیف ”اوراقِ ناخواندہ“ کا بنظر غائر مطالعہ لازم ہوجاتا ہے کہ یہی وہ کلید ہے جو ڈاکٹر صاحب کی اسلوبیات (Stylistic) اور ترجمانیات کے ذریعے حظ و مسرت، استفادے اور واقفیت کی راہ ہموار کرتی چلی جاتی ہے۔بقول مصطفیؔ زیدی ؎

اس کا جو وصف ہے وہ خاص ہے اور ذاتی ہے