کرکٹ کا ورلڈ کپ میلہ

بھارت میں کرکٹ ورلڈ کپ کا میلہ سج گیا ہے اور تمام بڑی ٹیموں کی کوشش ہے کہ وہ اس اہم اوربڑے ٹورنامنٹ میں نہ صرف اپنی جیت کے تسلسل کو برقرار رکھیں بلکہ ورلڈ کپ بھی جیت سکیں۔ بالخصوص پاکستان، بھارت، انگلینڈ، نیوزی لینڈ،آسٹریلیااور جنوبی افریقہ کی کوشش ہے کہ وہ کم از کم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرسکیں۔

بھارت میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا روایتی نہیں بلکہ غیر معمولی استقبال ہوا ہے، اور خود پاکستان اورپاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کے بقول ان کو اس شاندار استقبال کی توقع نہیں تھی۔ بھارت میں یہ استقبال ظاہر کرتا ہے کہ وہاں کے لوگوں نے کرکٹ اورسیاست کو علیحدہ علیحدہ رکھا، اور کھیل کوکھیل تک محدود کرکے اچھی روایت کا مظاہرہ کیا ہے۔

ورلڈ کپ کے میچوں سے قبل پاکستان نے دو وارم اَپ میچ کھیلے جن میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری کرکٹ ٹیم میں کچھ خامیاں ہیں جنہیں دور کیے بغیر بڑے ٹورنامنٹ کو جیتنا آسان نہیں ہوگا۔ نیوزی لینڈ اورآسٹریلیاکے خلاف ان دونوں وارم اَپ میچوں کے نتائج کے بعد پاکستان کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے پہلے اہم میچ میں نیدرلینڈ کو شکست دے دی ہے، اور دیکھنا ہوگا کہ اگلے میچوں میں پاکستان کی کارکردگی کس طرح کی رہتی ہے۔ پاکستان کی پہلی کوشش یہی ہوگی کہ وہ سیمی فائنل تک رسائی کو ممکن بنائے۔ لیکن اس کے لیے پاکستانی ٹیم کو تینوں شعبوں بیٹنگ، بولنگ اورفیلڈنگ میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس وقت ہماری بولنگ میں کچھ خامیاں نظر آرہی ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکیں۔ نسیم شاہ کا زخمی ہونا، اسپن بولرز کی طرف سے غیر معمولی کارکردگی کا سامنے نہ آنا اور فخر زمان کا بھی آئوٹ آف فارم ہونا ہمارے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔ اسپن بولنگ میں ہمارا انحصار شاداب خان اور محمد نواز پر ہے، اور دونوں کی کارکردگی میں تسلسل نظر نہیں آرہا، یہ امر ہماری جیت کے امکانات کو محدود کرتا ہے۔

اس وقت پاکستان کا زیادہ انحصاربابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی، حارث رئوف افتخار احمد اور شاداب خان پر ہے، اگر یہ کھلاڑی اپنی اپنی جگہ بہتر پرفارم کرتے ہیں تو جیت پاکستان کی ہوسکتی ہے۔اوپننگ میں امام الحق، فخر زمان اور فاسٹ بولرز میں حسن علی کا فارم میں آنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس طرح کے بڑے ٹورنامنٹ میں غلطی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے، اور جو بھی ٹیم مسلسل غلطیاں کرے اُس کی جیت پھر ناممکن ہوتی ہے۔ یہ ٹورنامنٹ بھارت میں ہورہا ہے، وہاں بڑا اسکور کرکے ہی جیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، اور جو بھی ٹیم تین سو سے زیادہ اسکور کرے وہ مخالف ٹیم کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔ بھارت کی پچوں پر 200 / 250 اسکور کوئی زیادہ بڑا اسکور نہیں ہوگا۔ جو بھی ٹیم پہلے کھیل کر تین سو رنز بنائے گی اس کو دوسری ٹیم پر نفسیاتی برتری حاصل ہوگی۔

پاکستان کی موجودہ کرکٹ ٹیم، مینجمنٹ اور کپتان کی کارکردگی بھی اسی ورلڈ کپ کے نتائج سے جڑی ہوئی ہے، اگر ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے تو اس کے نتیجے میں ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی ٹیم اور مینجمنٹ میں بہت سی تبدیلیاں ہوسکتی ہیں۔ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کھیلنے بھارت میں موجود ہے، ایسے میں یہاں بیٹھ کر قومی ٹیم پر بہت زیادہ تنقید اچھی بات نہیں، اور نہ ہی اس کا کوئی فائدہ ہوگا۔ بلکہ خطرہ یہ ہے کہ اس سے ٹیم کا مورال کمزور ہوگا اور اس کا براہِ راست اثر قومی ٹیم کی کارکردگی پر بھی پڑ سکتا ہے۔ بورڈ یا کرکٹ مینجمنٹ سمیت کرکٹ کے تجزیہ کاروں اورسابق کھلاڑیوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس وقت قومی ٹیم کی حمایت میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا جائے۔ ٹورنامنٹ ختم ہونے کے بعد جو بھی تبدیلیاں کرنا ہوں، ضرور کریں، لیکن وقت سے پہلے اس طرح کی باتیں کھلاڑیو ں کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہیں جس سے سب کو گریز کرنا چاہیے۔

پاکستان کا ایک اہم میچ 14اکتوبر کو روایتی حریف بھارت کے ساتھ ہوگا اور پوری دنیا میں موجود شائقینِ کرکٹ کو اس میچ کا شدت سے انتظار ہے، اورجو بھی ٹیم یہ میچ جیتے گی اُسے اس ٹورنامنٹ میں نفسیاتی برتری حاصل ہوگی۔ ویسے بھی پاکستان بھارت میچوں کی اہم بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے کرکٹ شائقین اپنے ملک کی شکست قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور جو بھی ٹیم ہارتی ہے اس کو اپنے ملک میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ میچ بنیادی طور پر ایک نفسیاتی جنگ ہے، اور جو بھی ٹیم نفسیاتی طور پر مضبوط ہوگی اس کی جیت یقینی ہوگی۔ دونوں ٹیمیں خاصی مضبوط ہیں لیکن بھارت کو اپنے ہوم گرائونڈ کا ایڈوانٹیج حاصل ہوگا۔ پاکستان اور بھارت دونوں پر اس میچ کا سخت دبائو ہوگا، اورجو بھی ٹیم اس دبائو سے بہتر طور پر نمٹنے میں کامیاب ہوگی اس کو برتری حاصل ہوگی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کمزور ہے، بلکہ اصل مسئلہ ہمارے کئی کھلاڑیوں کی خراب فارم ہے، اگر وہ میچوں میں اپنی فارم

بحال کرسکے تو ہمارے لیے کامیابیوں کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ایک ہی بار ورلڈ کپ جیتا ہے۔ 1992ء کا ورلڈ کپ عمران خان کی قیادت میں جیتا گیا تھا۔ اس کے بعد ہم کئی بار اس ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل اور فائنل کھیلے ہیں مگرکامیاب نہیں ہوسکے۔ دیکھنا ہوگا کہ اِس بار ہماری کامیابی کا تناسب کیا ہوتا ہے، اورکیا بابراعظم کی قیادت میں ٹیم اس ٹورنامنٹ میں سرخرو ہوسکے گی اورکیا واقعی دوبارہ عالمی کپ جیت سکے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ تاریخی کارنامہ ہوگا اور یہی ہماری کرکٹ ٹیم کا امتحان بھی ہوگا کہ وہ اس ٹورنامنٹ میں عوامی توقعات پر پورا اترسکے۔