افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری کا فیصلہ

حکومت کے پاس پاکستان میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کا مکمل ڈیٹا ہی نہیں ہے

نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی نے لاکھوں افغانیوں سمیت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یکم نومبر تک پاکستان چھوڑ دیں وگرنہ اُنہیں ملک بدر کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے کاروبار اور جائدادیں ضبط کرلی جائیں گ۔ پاکستان کی نگراں حکومت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کے الٹی میٹم کے بعد قانون نافذ کرنے والے محکموں کی کارروائیاں جاری ہیں۔ غیرقانونی طور پر مقیم باشندوں کی بے دخلی کے حوالے سے سب سے زیادہ ذکر افغان باشندوں کا ہورہا ہے۔ اسلام آباد سمیت بعض دوسرے شہروں میں بھی افغان شہریوں کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔ یکم نومبر کی ڈیڈلائن صرف اُن غیرملکیوں کے لیے ہے جو یہاں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اور تعلقات میں سردمہری کا سلسلہ جاری ہے، افغانستان کے امور میں پاکستان کے نمائندے آصف درانی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے، اور توقع کی جارہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے قائم کردہ امن کی بدولت ہمارے سرحدی علاقوں میں قیام امن میں مدد ملے گی اور افغانستان میں روپوش ٹی ٹی پی عناصر کو یا توگرفتار کرلیا جائے گا، یا پھر پاکستان کے حوالے کردیا جائے گا۔ طالبان انتظامیہ ٹی ٹی پی کو لگام ڈالنے کے لیے تمام اقدامات کررہی ہے اور یقین دلایا ہے کہ وہ ان پر دباؤ ڈالتے رہیں گے۔

اب یہاں سوال یہ ہے کہ جنرل فیض کی چائے سے مہاجرین کی ملک بدری تک، پاکستان کی افغان پالیسی بدل رہی ہے؟ بعض حلقوں کی جانب سے حکومت کی اس پالیسی پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ تاہم یہ فیصلہ افغانستان کی جانب سے چترال فائرنگ کے بعد کیا گیا ہے۔ جے یو آئی بھی اس پر اپنے تحفظات ظاہر کررہی ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی افغان پناہ گزینوں پر گِدھ کی طرح جھپٹ رہے ہیں۔ ان سے پیسے اور جائدادیں چھین رہے ہیں۔ یہ غیرقانونی مقیم افراد کے خلاف آپریشن نہیں ہے۔ اس میں قانونی و غیرقانونی میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جارہا۔ نگراں حکومت کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب افغانستان سے متصل سرحد پر حالات ٹھیک نہیں ہیں، سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم افغان باشندوں کے انخلا کے عمل میں انسانی پہلو کا خیال رکھا جارہا ہے یا نہیں؟ اور یہ کہ اس کے ممکنہ طور پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نگراں حکومت نے یہ فیصلہ جلدی میں ردعمل کے طور پر کیا ہے جس پر عمل درآمد ایک پیچیدہ معاملہ ہے،ایسے فیصلے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے،یہ ردعمل کے طور پر بنائی گئی پالیسی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم افغان چند ہفتوں میں واپس چلے جائیں! یہ معاملہ خاصا سنجیدہ ہے۔ ماضی میں افغان شہریوں کو یہاں آنے کی کھلی اجازت دیے رکھی اور سرحدی راستوں پر بھی روک نہیں لگائی، اب ایک دم سے یہ سب کچھ لمحوں میں کیسے بدل سکتا ہے؟ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس پاکستان میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کا مکمل ڈیٹا ہی نہیں ہے، اور غیر قانونی طور پر مقیم افراد صرف افغان نہیں ہیں اور بھی لوگ ہیں جو یہاں دہائیوں سے مقیم ہیں۔ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے بارے میں کوئی مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بھی انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود سب سے اہم نکتہ پاکستان کے مفاد کا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد میں افغان تارکین وطن کی بستی مسمار کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ایچ آر سی پی نے اپنے بیان میں کہا کہ’’حکومت کا یہ اقدام غیرملکیوں سے کھلی نفرت کے مترادف ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ کمزور افغانوں کی جبری بے دخلی قابلِ عمل حل نہیں ہے۔ یہ اقدام ان کی زندگیوں کو مزید خطرے میں ڈالے گا اور خاندانوں کے بکھرنے کا سبب بنے گا۔‘‘ بہر حال حکومت نے یہ فیصلہ کرتو لیا ہے لیکن کرپٹ اور رشوت خور، ڈالر کی تلاش میں رہنے والی پولیس کے ہوتے ہوئے اس پر عمل درآمد یقیناً ایک مشکل ٹاسک ہے، یہ مربوط کوششوں کے بغیر ممکن ہی نہیں، کیونکہ اس میں بہت سی سیاسی، سفارتی اور قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ قانونی پیچیدگیاں دور کرنے کے لیے اب بلوچستان کی صوبائی حکومت قانون سازی کررہی ہے، اسی طرح سیاسی اور سفارتی محاذوں پر پیش آنے والے مسائل کا حل بھی تلاش کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے جس کے بعدکوئی غیر ملکی بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ فیصلے کے بعد اب قانون نافذ کرنے والے وفاقی اور صوبائی ادارے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی گرفتاری اور جبری ملک بدری کو یقینی بنائیں گے۔ ان افراد کی دستاویزات کا جائزہ لینے کے لیے ٹاسک فورس بنائی گئی ہے، جو جعلی شناختی کارڈز کے اجراء اوراس کی بنیاد پر شروع کیے گئے کاروبار اور خریدی ہوئی جائدادوں کی جانچ پڑتال کرے گی۔ یہاں تک قومی مفاد میں سب کچھ درست ہے، لیکن حکمت عملی میں کمزوری کے باعث یہ فیصلہ حکومت کے گلے پڑسکتا ہے، اسے عادلانہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

سندھ ہائی کورٹ میں جمع کی گئی رپورٹ بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں 50 ہزار سے زائد مفرور ملزمان میں سے نصف تعداد یا 23 ہزار کا تعلق لاڑکانہ ڈویژن سے ہے۔ چونکہ اس ڈویژن کے زیادہ تر اضلاع دریائے سندھ کے کچے کے علاقے سے متصل ہیں لہٰذا ملزمان کی اکثریت کچے میں چھپنے کو ترجیح دیتی ہے جس کی وجہ سے یہاں کے اعداد و شمار زیادہ ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن کے اضلاع سے لگنے والے دریائے سندھ کے کچے میں پناہ لینے کے باعث صوبے بھر کی نسبت لاڑکانہ ڈویژن میں اشتہاری ملزمان کی اکثریت ہے۔ سندھ کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے جن کے خلاف پولیس، رینجرز اور فوج کے مشترکہ آپریشن کی حکمت عملی بھی طے کی گئی ہے۔ لاڑکانہ ڈویژن میں قبائلی لڑائیاں اور کچے کے ڈاکوؤں کی جانب سے کی جانے والی وارداتوں کی اکثریت ہے جن میں ڈکیتی، قتل، اغوا برائے تاوان جیسے جرائم شامل ہیں ۔ سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے انسپکٹر جنرل آف پولیس سندھ رفعت مختار نے یہ رپورٹ پیش کی۔رپورٹ کے مطابق صوبے بھر میں 50 ہزار 58 ملزمان مفرور ہیں، جن میں لاڑکانہ ڈویژن سرفہرست ہے، اور جہاں نصف کے قریب یعنی 23 ہزار سے زائد مفرور ملزمان پولیس کو مطلوب ہیں۔ عدالت نے مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ، بینک اکاؤنٹس اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم دیتے ہوئے چیئرمین نادرا، وزارتِ داخلہ، دفتر خارجہ اورا سٹیٹ بینک سے 23 اکتوبر کو رپورٹ طلب کر لی ہے۔

اسی طرح کا ایک اور معاملہ کابلی گاڑیوں کا ہے۔ایف بی آر قبائلی اضلاع میں چلنے والی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ضبط کرنے کو تیار نہیں۔نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو مقامی زبان میں ’کابلی گاڑیاں‘ بھی کہتے ہیں۔ ان گاڑیوں کو 2023ء کا مالی سال شروع ہوتے ہی ایک سال کا وقت دیا گیا تھا، لیکن ایک سال ختم ہونے کے بعد بھی ہم سے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے، حکومت کی 2023ء تک کی مہلت ختم ہوچکی ہے اب جون 2023ء میں اس میں ایک سال کی توسیع کی گئی ہے۔ حکومت کچے کے ڈاکوئوں اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا پیچھا کرنے کا فیصلہ تو نہیں کرسکی تاہم پاکستان سے غیرقانونی افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کے اپنے فیصلے پر عمل درآمد چاہتی ہے کہ اس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

افغانستان نے پاکستان کے اس فیصلے کو ناپسند کیا ہے۔ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع ملاّ یعقوب نے کہا کہ یہ فیصلہ غیرعادلانہ ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے واضح کیا ہے کہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف اس کارروائی کا 14 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جن کی پاکستان اپنی مخدوش معاشی صورتِ حال کے باوجود کئی دہائیوں سے مہمان نوازی کررہا ہے۔ اس ضمن میں ایک رائے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کی ہے، وہ اس فیصلے کو ملکی معیشت کے لیے ’گیم چینجر‘ قرار دے رہی ہے کہ اگر حکومتِ پاکستان اس اعلان پر عمل کرتے ہوئے پناہ گزینوں کو واپس بھیجتی ہے تو اس سے ڈالر کی قیمت میں کمی آئے گی۔ پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان باشندے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ویزا، پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات کے بغیر سفر کرتے ہیں، یہ لوگ پاکستان سے امریکی ڈالر غیر قانونی طور پر افغانستان لے جاتے ہیں، جس سے پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ ڈالر کی قیمت بلیک مارکیٹ میں 52 روپے سے 55 روپے تک کم ہوئی ہے اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں 25 روپے تک کمی آئی ہے۔ اگر اس فیصلے پر مکمل عمل کیا جائے تو ڈالر کی قیمت میں مزید کمی آئے گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی شرح240 رہنی چاہیے۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ دہائیوں سے جنگ زدہ افغانستان جہاں امریکہ کی روانگی کے بعد نہ کوئی کاروبار ہے، نہ کوئی بہت بڑی برآمدات ہیں، اور نہ ہی کوئی بہت بڑی افغان کمیونٹی بیرونِ ملک سے طالبان کے دورِ حکومت میں افغانستان میں زرمبادلہ بھیج رہی ہے تو پھر کس طرح افغانستان کی کرنسی کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 84 روپے کے برابر ہے؟ جبکہ پاکستان کی 30 ارب ڈالر کی برآمدات ہیں، 30 ارب ڈالرکی ہی اوورسیز پاکستانی ترسیلاتِ زر بھیج رہے ہیں اور اسے دنیا بھر کے قرضے بھی الگ سے مل رہے ہیں تو بھی پاکستان ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہوچکا ہے اور ڈالر تین سو سات روپے سے ہوکر اب کچھ نیچے جارہا ہے۔ لیکن اب جو تفصیلات منظرعام پر آئی ہیں وہ ہر پاکستانی کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ افغانستان کو اپنی معیشت چلانے کے لیے سالانہ 8 ارب ڈالر کی درآمدات کی ضرورت ہے، جبکہ افغانستان کی کُل آمدنی جس میں بیرونی ممالک سے آنے والے ڈالر اور تھوڑی بہت برآمدات ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کی ہیں، لہٰذا افغانستان کو اپنی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے سالانہ چھ سے سات ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ یہ چھ سے سات ارب ڈالر افغانستان پاکستان کی اوپن مارکیٹ اور بلیک مارکیٹ سے غیر قانونی طور پر حاصل کررہا تھا جس میں پاکستان کی چندکالی بھیڑیں بھی شامل تھیں۔ اوپن مارکیٹ سے چھ سے سات ارب ڈالر اگر افغانستان چلے جائیں تو پاکستانی روپیہ تو تین سو روپے فی ڈالر تک جانا ہی تھا۔ توقع کی جارہی ہے کہ حکومتی کریک ڈائون اسی طرح جاری رہا تو عنقریب پاکستان میں ڈالر240 روپے میں دستیاب ہوگا۔ اور افغان ٹریڈ کا بھی آڈٹ ہورہا ہے، ہر مہینے ہزاروں کنٹینر پاکستان آتے ہیں اور پھر یہاں سے بغیر چیک ہوئے افغانستان چلے جاتے ہیں، اور پھر وہی کنٹینر ’’لین دین کے عمل‘‘ سے گزر کر واپس پاکستان آتے ہیں۔ افغان ٹریڈ کے سبب پاکستان کو سالانہ پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کے دبائو پر تیل، بجلی، گیس اور کھانے پینے کی اشیا مہنگی کرنا پڑتی ہیں جس سے صرف سو سے دو سو ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے، اگر حکومت اپنے فیصلوں پر کاربند رہی اور معیشت کی بہتری کے لیے نئے اقدامات کیے توپاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں بہت مستحکم ہوجائے گا۔

اندازاً 17 لاکھ ایسے افغان مہاجرین ہیں جو قانون کے دائرے سے باہر ہیں۔ UNHCRکے مطابق 2.18 ملین افغان مہاجر ہیں جن میں سے 13 لاکھ کے پاس سفری دستاویزات ہیں۔ افغانستان کا پاکستان کے ساتھ تجارتی راہداری کا 2010ء کا معاہدہ، اور خاص طور پر 2021ء میں ایک ناقابلِ برداشت معاشی بوجھ پاکستان کی بحران زدہ معیشت کے گلے پڑگیا ہے۔ جتنی زیادہ پاکستان کی درآمدات گھٹیں اس سے کہیں زیادہ افغانستان کی درآمدات ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے بڑھیں۔ گزشتہ برس افغانستان کی درآمدات 7.3 ارب ڈالر تھیں جبکہ برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر کے قریب تھیں۔ اتنا بڑا تجارتی خسارہ پاکستان میں انہی اشیا کی اسمگلنگ کرکے اور ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ سے پورا کیا گیا۔ اس طرح افغانستان کی بڑی درآمدات 5.6 ارب ڈالر تک بڑھ گئیں جبکہ اس کی منڈی میں ان کی مانگ نہ تھی۔ مثلاً مصنوعی کپڑے کی افغان درآمد 35 فیصد بڑھی جبکہ پاکستان میں یہ 40 فیصد کم ہوئی، بجلی کے سامان کی افغان درآمد 72 فیصد بڑھی تو پاکستان میں یہ 62فیصد کم ہوئی، افغانستان میں پلاسٹک کی اشیا کی درآمد 206فیصد بڑھی تو پاکستان میں 23فیصد کم ہوئی۔ ٹائر کی درآمد افغانستان میں 80فیصد بڑھی تو پاکستان میں 42 فیصد کم ہوئی، مشینری کی درآمد افغانستان میں 211 فیصد بڑھی تو پاکستان میں 51 فیصد کم ہوئی ۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے پاکستان کو افغان شہریوں کے اندراج اور مزید قیام سے متعلق طریقہ کار تیار کرنے کے لیے مدد کی پیشکش کی ہے۔ یکم نومبر کے بعد پاکستان میں داخلے کی اجازت صرف ویزے اور پاسپورٹ کی بنیاد پر دی جائے گی۔ کابل پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے پاکستان میں 15 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود تھے جبکہ 10 لاکھ سے زیادہ غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ موجودہ آپریشن صرف اور صرف غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف ہے چاہے اُن کا تعلق افغانستان سے ہو یا کسی اور ملک سے۔ جو افغان مہاجرین قانونی طور پر موجود ہیں اور اُن کے پاس دستاویزات موجود ہیں انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پالیسی اور قانون کے تحت وہ تمام افراد جن کے پاس 1978ء سے پہلے پاکستان میں رہنے کا کوئی قانونی ثبوت موجود ہے انھیں مہاجر نہیں کہا جا سکتا، وہ پاکستانی ہیں اور نادرا سے شناختی کارڈ بنوانے کے اہل ہیں۔ جن افغان شہریوں کو پاکستانی شناختی کارڈ ملے ہیں انھیں اسی قانون کے تحت ملے ہیں۔ اس لیے ایسے خاندان مہاجرین کی کیٹگری میں نہیں آتے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جارہی۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ افغان شہری ہی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، اس لیے اس حکم کی زد میں وہی آرہے ہیں۔ یہ مسئلہ 1979ء میں افغانستان پر اشتراکی قبضے کے ساتھ شروع ہوا تھا، اس دور میں پاکستان نے 60لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو یہاں پناہ دی۔ 2001ء میں امریکی اتحادی افواج افغانستان پر حملہ آور ہوگئیں تومہاجرین پھر آگئے۔ اب 2021ء میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور وہ مستحکم بھی ہورہی ہے، اب افغان باشندوں کو اپنے وطن واپس جاکر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ افغانستان انتظامیہ کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ان کے لیے پاکستان میں افغان مہاجرین سے کیا جانے والا سلوک ناقابل ِ قبول ہے، پاکستان کو اِس حوالے سے اپنے لائحہ عمل پر نظرثانی کرنی چاہیے، پاکستان کے سیکورٹی مسائل میں افغان شہریوں کا کوئی ہاتھ نہیں، جب تک افغان مہاجرین اپنی مرضی سے اور اطمینان سے پاکستان سے نہیں نکلتے، پاکستان کو برداشت سے کام لینا چاہیے۔

پاکستان کا خیال تھا کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان تحریک طالبان پر گرفت کے ساتھ ساتھ ملک کی مغربی سرحد کافی محفوظ ہوجائے گی اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا آسان ہوجائے گا۔لیکن صرف دو سال میں اسلام آباد کے یہ سارے خواب نہ صرف چکنا چور ہوگئے بلکہ کابل کو مسلسل تنبیہ بھی کام نہ آئی۔ ستمبر 2021ء سے دسمبر 2021ء تک پاکستان میں کُل 94 دہشت گردانہ حملے ہوئے،2022ء میں دہشت گردی کے 365 واقعات میں 229 شہری اور 379 سیکورٹی اہلکار لقمہ اجل بنے، جبکہ رواں برس 2 اکتوبر تک پاکستان میں 364 حملے ہوچکے ہیں جن میں 276 شہری اور 414 سیکورٹی اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے افغانستان کو کئی مرتبہ دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے کہا ہے، لیکن افغانستان کی جانب سے خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔ گزشتہ مہینے 29 ستمبر کو 12 ربیع الاول کے موقع پر مستونگ اور ہنگو میں خودکش حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ بڑھتا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈلائن بھی دے دی گئی ہے۔ کیا پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو نکالنا ممکن ہوسکے گا؟