نوازشریف کی واپسی اور اسٹیبلشمنٹ کاسیاسی کھیل

نوازشریف کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو پاکستان تشریف لارہے ہیں اور قومی سیاست میں دوبارہ فعال کردار ادا کرنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ نوازشریف کی آمد کو ایک بڑی سیاسی جنگ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اورکہا جارہا ہے کہ ان کی آمد کے بعد قومی سیاست میں شدید بھونچال آنے والا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوازشریف کی واپسی کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں، یقینی طور پر ان کی واپسی اسٹیبلشمنٹ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے ہوئی ہے، کیونکہ نوازشریف کا بغیر کسی مفاہمت یا ڈیل کے واپس آنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی واپسی کو اسٹیبلشمنٹ کے ایک نئے کھیل کے طور پر دیکھا جارہا ہے اورکہا جارہا ہے کہ نوازشریف کی آمد کا ایک بڑا مقصد عمران خان کی سیاست کو دیوار سے لگانا ہے۔ نوازشریف کی واپسی اس بات کا بھی عندیہ ہوگی کہ معاملات انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں اور حتمی طور پر انتخابات کا راستہ ہی اختیار کیا جائے گا۔ کیونکہ اگر انتخابات نہیں ہونے تو پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نوازشریف کی واپسی کیونکر ممکن ہوگی۔

نوازشریف کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں مزاحمت اور مفاہمت کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔ جنگ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں لیکن اپنی جماعت اور اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں وہ مزاحمت سے مفاہمت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگ نوازشریف کو انقلابی، جمہوری، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور مزاحمتی سیاست کے گرو کے طور پر پیش کرتے ہیں، مگر عملی سیاست میں نوازشریف مزاحمتی سیاست کو محض ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مزاحمتی سیاست میں مفاہمتی سیاست کا کارڈ اُن کا اپنا بھائی شہبازشریف ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں بھائیوں کا ایجنڈا مختلف ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ مزاحمتی اورمفاہمتی سیاست کا یہ کارڈ شریف خاندان کی سیاسی بقا کا ضامن ہے اور دونوں کارڈ اپنی اپنی سیاسی ضرورت کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ مسئلہ نوازشریف کا ہی نہیں بلکہ دیگر سیاست دان چاہے وہ کتنے بھی مقبول کیوں نہ ہوں، ان کا اہم ہدف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرکے اپنے حقِ اقتدار کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔

نوازشریف کی پاکستان آمد ایک بڑا سیاسی کارڈ ہے۔ مسلم لیگ (ن) نوازشریف کی آمد کو اپنی سیاسی بقا کی جنگ اورانتخابی سیاست میں اپنی بڑی ضرورت کے طور پر پیش کررہی ہے۔ان کے بقول اگر نوازشریف کی واپسی ممکن نہیں ہوتی تو مسلم لیگ(ن) کے مُردہ گھوڑے میں نئی جان کسی بھی صورت میں نہیں ڈالی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ نوازشریف کی واپسی پر مسلم لیگ (ن) میںگرم جوشی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن نوازشریف کی واپسی کسی سیاسی تنہائی میں تو ممکن نہیں تھی، یقینی طو رپر ان کو ایک دفعہ پھر اسٹیبلشمنٹ سے ہی معاملات طے کرنا تھے اوران کو ہی بنیاد بنا کر ان کی پاکستان واپسی ممکن ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ نوازشریف نے کچھ دن قبل جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا مختلف جرنیلوں اورججوں کے احتساب کا بیانیہ پیش کیا اُس سے لگا کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت میں مسائل ہیں۔

لیکن پاکستان میں موجود مسلم لیگ(ن) کے لیے نوازشریف کے حالیہ بیانات بہت پریشان کن تھے۔ اسی بنیاد پر شہبازشریف کی پراسرار طور پر لندن روانگی، اور لندن میں مسلم لیگ(ن) کے بڑوں کی کئی گھنٹوں پر محیط بیٹھک کے بعد نوازشریف کا نیا سیاسی بیانیہ سامنے آگیا ہے جس میں اُن کے بقول ’’ہمیں تخریب نہیں تعمیر کی طرف جانا ہے۔ ہم اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی پالیسی کے حامی نہیں اور ملک کی تعمیرنو میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا بیانیہ انتقام نہیں بلکہ امن، ترقی اور خوشحالی ہوگا۔‘‘ اسحاق ڈار کے بقول جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ یا جنرل (ر) فیض حمید سمیت دیگر کے کڑے احتساب کا معاملہ اب ہمارا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ معاملہ ہم نے اللہ کی عدالت میں پیش کردیا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے بقول نوازشریف کو منانے میں کلیدی کردار شہبازشریف اوراسحاق ڈار کا ہے۔ اس مؤقف کو تسلیم کرلیا جائے تو مطلب یہ ہوا کہ نوازشریف کی مزاحمتی سیاست کا عملی طور پر جنازہ نکل گیا ہے یا نکال دیا گیا ہے۔ شہبازشریف کی فوری لندن روانگی اور خفیہ پیغام رساں کے کردار کو بھی اسی بڑے کھیل کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت سی باتوں کو مختلف زاویوں سے سمجھا اورپرکھا جاسکتا ہے۔

اب نوازشریف کی واپسی ’’تعمیرِ پاکستان‘‘ کے بیانیے کے ساتھ جڑی ہوگی، اور یہ تعمیرِ پاکستان وہ پچھلی تین دہائیوں سے کررہے ہیں اور اسی کو بنیاد بناکر وہ عملی سیاست پاکستان یا پاکستان سے باہر بیٹھ کر کرتے ہیں۔ یعنی نوازشریف کو اب اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ایک وفادار و تابعدار بچے کے طور پر پیش کیا جائے گا جو کسی بھی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گا۔ اس نئی ڈیل میں نوازشریف کو وہ سب کچھ مل سکے گا جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں، یا ان کے مقابلے میں نوازشریف کے چہرے کو سامنے رکھ کر شہباز شریف اس کھیل میں عملی طور پر مرکزی کردار میں سامنے آئیں گے۔ نوازشریف انتخاب لڑسکیں گے؟ انتخابی مہم میں حصہ لے سکیں گے؟ وزارتِ عظمیٰ تک پہنچ سکیں گے؟ یا وہ اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر بٹھا سکیں گے؟ ان سب پر فی الحال مختلف نوعیت کے سوالیہ نشان ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کا ایک مجموعی تاثر اس وقت شہبازشریف کی مفاہمتی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ فرماں برداری پر مبنی تعلقاتِ کار ہیں۔اینٹی اسٹیبلشمنٹ انداز مسلم لیگ(ن) کے حق میںنہیں کیونکہ اسی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے واپسی کیسے مزاحمتی سیاست میں رنگ بھرسکے گی!

نوازشریف کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی پہلی تقریر میں قومی مفاہمت اور قومی معیشت میں مفاہمتی پالیسی کو پیش کریں گے۔ وہ تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دیں گے کہ مل کر کوئی مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں۔ کیا نوازشریف کی اس مفاہمتی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہوگی؟ اور اگر ہوتی ہے تو کیا دیگر سیاسی جماعتیں نوازشریف کے اس ایجنڈے کی حمایت میں پیش پیش ہوں گی؟ اور خود تحریک انصاف اس عمل میں کہاں کھڑی ہوگی؟ کیونکہ پیپلزپارٹی کو بھی اس بات کا گلہ ہے کہ ان کے مقابلے میں نوازشریف کی سیاست کو پسِ پردہ قوتوں کی جانب سے زیادہ سہولت کاری دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی اگر مفاہمتی سیاست کا حصہ نہیں بنتی تو پھر محاذ آرائی کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہوگا، اور محاذ آرائی کا کھیل بدستور جاری رہے گا جو سیاسی اور معاشی بحران مزید بڑھادے گا۔ نوازشریف کے پاس اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور عمران خان کے پاس اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت ہوگی اور ووٹرز میں یہ بات جائے گی کہ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل عمران خان کی مخالفت میں ہورہی ہے تو اِس کا ووٹرز میں نوازشریف کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگا۔ اس لیے کھیل جہاں نوازشریف کے لیے سازگار ہے وہیں ان کو مختلف محاذوں پر قانونی اور سیاسی مشکلات کا بھی سامنا ہے، اور ان کے سیاسی مخالفین ان کو آسانی سے اس کھیل میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بھی ایک بڑا چیلنج نوازشریف کی سیاسی قبولیت ہے، کیونکہ ان کی سیاسی قبولیت اور خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کھیل میں ان کی مکمل حمایت اور معاونت ہی ان کی سیاسی قبولیت کو قائم کرسکے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا نئے بیانیے کو بنیاد بناکر نوازشریف مُردہ مسلم لیگ(ن) میں نئی جان ڈال سکیں گے؟ کیا اس وقت وہ اپنے بڑے سیاسی مخالف عمران خان کے سامنے خود کو اور اپنی جماعت کو ایک بڑی کامیابی سے ہمکنار کرسکیں گے؟ فی الحال نوازشریف کی جنگ سیاسی میدان میں پنجاب تک محدود ہے، دیگر صوبوں میں ان کی کوئی خاص اکثریت نہیں، اور وہ کوشش کریں گے کہ پنجاب میں اپنے اقتدار کو یقینی بنا سکیں۔ لیکن پنجاب میں فی الحال عمران خان ان سے بہت آگے ہیں اور ان کی سیاسی مقبولیت بھی نوازشریف اور مسلم لیگ(ن) سے خاصی اوپر نظر آتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پسِ پردہ قوتوں میں پنجاب کی نئی سیاسی تقسیم کا کیا فارمولہ ہے؟ کیونکہ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم منصفانہ اور شفاف انتخابات کی طرف بڑھیں تو اس میں حقائق سے زیادہ خوش فہمی کا پہلو ہے۔ عمران خان کی جیل سے رہائی اورانتخابی مہم میں بھرپور شمولیت، یا عمران خان کی جیل میں موجودگی… نوازشریف کو دونوں صورتوں میں ہی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ نوازشریف اگرچہ مستقبل کے پاکستان کی بات کریں گے، اور ہوسکتا ہے وہ اپنی سابقہ کارکردگی بھی پیش کریں۔ لیکن ان کو سب سے بڑی مشکل شہبازشریف کی 16ماہ کی حکومت کا دفاع کرنے میں آئے گی۔وہ کب تک پرانا چورن بیچیں گے اورکب تک لوگوں کاسیاسی نعروں سے دل بہلائیں گے؟ اور لوگ ان سے کیوںسوال نہیں کریں گے اورکیوں ان کے سیاسی ادوار کو بھول جائیں گے؟ یہ2023ء کا پاکستان ہے جہاں اس وقت کی عملی سیاست نوازشریف کی حمایت سے زیادہ مخالفت میں کھڑی نظر آتی ہے۔ رائے عامہ میں بھی نوازشریف کی واپسی کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ہی کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے گا۔جبکہ ان کے مقابلے میں عمران خان کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جائے گا، کیونکہ اگر وہ جیل ہی میں رہتے ہیں اور ان کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ملتی تو وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔کیونکہ اگر عمران خان کو جیل میں ہی رکھا گیا، یا اُن کو انتخابی مہم میں حصہ لینے یا انتخاب لڑنے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ نوازشریف کے لیے نہ تو آسان ثابت ہوں گے اورنہ ہی اس طرز کے انتخابات کی کوئی سیاسی حیثیت قائم ہوسکے گی۔ نوازشریف کی واپسی خود عمران خان کی واپسی کے راستے کو بھی ہموار کرے گی اوران کو کسی بھی صورت میں باہر رکھنا پھر ممکن نہیں ہوگا۔

اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ عمران خان کی مخالفت میں نوازشریف یا شہبازشریف پر ہاتھ رکھتی ہے تو اس کا ردعمل پی ٹی آئی اورعمران خان کی مقبولیت کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اسی طرح اگر عمران خان کے ساتھ مفاہمت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں نوازشریف کو کیسے روکا جاسکے گا؟ایک بات نوازشریف یا ان کے حامیوں کو تسلیم کرنا ہوگی کہ ان کے لیے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے وہ خود ان ہی کااپنا پیدا کردہ ہے۔ نوازشریف کی ملک سے عدم موجودگی اور عمران خان کے ملک میں بیٹھ کر سیاسی لڑائی لڑنے میں فرق ہے۔اس لیے اہم بات یہ ہے کہ ان حالات میں نوازشریف کی واپسی خود ان کو اوران کی جماعت کو جو سب سے زیادہ انحصار پنجاب پر کررہی ہے، مطلوبہ انتخابی نتائج نہیں دے سکی تو ان کی مقبولیت کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی واپسی ان کی کامیابی اورناکامی دونوں پہلوئوں کے درمیان کھڑی نظر آتی ہے۔لیکن اس کھیل کا ایک اور نتیجہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قومی سیاست آج بھی ڈیل کے درمیان ہی کھڑی ہوئی ہے۔ کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت کا یہ کھیل اورنئی سیاسی اور اقتدار کی صف بندی ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا اور آگے بھی ان ہی غلطیوں کو مزید شدت کے ساتھ کرنے کا کھیل سجایا جارہا ہے۔ یہ کھیل نہ ماضی میں ہماری سیاست اورجمہوریت کو مستحکم کرسکا اورنہ ہی آگے اس کھیل کے نتیجے میں ہماری جمہوریت اور سیاست کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات پر مبنی سیاست کا کوئی بھرم قائم رکھا جاسکے گا۔