کسی دوسرے مسئلے پر گفتگو کرنے سے پہلے میں اس حادثہ عظیم پر اپنے اور اپنی جماعت کے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتا ہوں جو ابھی پچھلے ہی مہینے ہمارے ملک میں رونما ہوا ہے، یعنی مسٹر لیاقت علی خان مرحوم کا قتل۔ یہ واقعہ نہ صرف شخصی حیثیت سے دردناک ہے، نہ صرف اخلاقی حیثیت سے شرمناک ہے، بلکہ اس لحاظ سے پورے ملک کے لیے افسوس ناک بھی ہے کہ ایک نہایت نازک موقع پر، جبکہ ہمارا ملک خطرات میں گھرا ہوا ہے، ایک ایسا شخص ہمارے درمیان سے زبردستی ہٹادیا گیا جو یہاں کے معاملات کی سربراہ کاری کا سارا بوجھ اٹھائے ہوئے تھا، جس سے زیادہ بااثر اور ذمہ دار شخصیت ہمارے ہاں موجود نہ تھی۔ ان سارے اختلافات کے باوجود جو ہمیں ان کی پالیسی اور طریق کار سے تھے، ہم اس بات کے معترف ہیں کہ انہوں نے بڑے نازک زمانے میں اس ملک کے نظم و نسق کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنی قابلیت کے مطابق اس نوزائیدہ مملکت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ اس کارِ عظیم میں ان کی محنت و جانفشانی کا اعتراف ہر وہ شخص کرے گا جس نے پچھلے سوا چار سال کی مشکلات کو دیکھا ہے۔
پھر یہ واقعہ اس لحاظ سے خطرناک بھی ہے کہ یہ اس ملک میں ایک بہت بڑے رجحان کے ابھرنے کی علامت ہے۔ اگرچہ سردست یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس حرکت کا محرک کیا تھا۔ کوئی سیاسی محرک تھا یا شخصی۔ لیکن اگر فی الواقع وہ کوئی سیاسی محرک تھا تو یقیناً یہ حالات کو ایسے رخ کی طرف موڑنے والی حرکت ہے جس کی ہر اُس شخص کو مذمت کرنی چاہیے جو اس ملک اور اس ملت کی فلاح چاہتا ہو۔ کسی ملک کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی بدقسمتی نہیں ہوسکتی کہ اس میں فیصلے کا آخری اختیار عقل، شعور، دلیل اور رائے عام سے چھین کر قاضیِ شمشیر کے سپرد کردیا جائے۔ یہ قاضی کوئی عادل اور صاحبِ فکر قاضی نہیں ہے۔ یہ اندھا، بہرا اور گونگا قاضی ہے۔ اس سے جب کبھی فیصلہ چاہا گیا ہے، اس نے حق اور انصاف دیکھ کر نہیں بلکہ خون کی رشوت لے کر فیصلہ کیا ہے، اور جس نے بھی زیادہ خون چٹادیا ہے اسی کے حق میں اس نے فیصلہ دے دیا ہے، خواہ حق پر ہو یا ناحق پر، خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ کوئی قوم جو خود اپنی دشمن نہ ہو اور جس کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل چکا ہو، ایسی بے وقوف نہیں ہوسکتی کہ اپنے معاملات کا فیصلہ شعور و استدلال کے بجائے تلوار کے اندھے اور رشوت خور قاضی کے حوالے کردے۔ اگر ہم اپنا مستقبل تاریک نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں پوری طاقت کے ساتھ اپنے ملک کے حالات کو اس خطرناک رخ پر جانے سے روکنا چاہیے۔
اس کے ساتھ یہ اندوہناک واقعہ ہم سب کے لیے اپنے اندر ایک اخلاقی سبق بھی رکھتا ہے۔ اس سے پہلے ہم سن چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک سازش ہوئی تھی جس کا مقصد فوجی طاقت سے سیاسی انقلاب برپا کرنا تھا، اور اب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ ہمارے سب سے بڑے ذمہ دار سیاسی لیڈر کو علی الاعلان قتل کردیا گیا۔ ہمیں واقعات کی اس منطق کو سمجھنا چاہیے۔ یہ واقعات ہمیں ایک تنبیہ کررہے ہیں۔ اس تنبیہ کو غفلت سے نظرانداز کردینا مناسب نہیں ہے، ہمیں اور خصوصاً ہمارے ذمہ دار لوگوں کو یہاں ایسے حالات پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے جن میں ہر وہ سیاسی تغیر پُرامن طریقے سے ہوسکتا ہو جس کے حق میں رائے عام ہموار ہوجائے، اور کوئی ایسی وجہ باقی نہ رہے جس کی وجہ سے لوگ یہ سوچنے لگیں کہ قومی اور سیاسی معاملات کا فیصلہ مصنوعی اور جبری تدابیر اختیار کیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ برطانیہ ایک غیر مسلم ملک ہے، مگر حکمت بہرحال مومن کی کھوئی ہوئی متاع ہے، جہاں سے بھی یہ ملے، اسے لینا چاہیے۔ ہمارے لیے برطانوی قوم کے طرزِ عمل میں ایک سبق موجود ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کوئی فوجی یا غیر فوجی سازش نہیں ہوتی، کوئی خفیہ تحریک نہیں اٹھتی، کوئی انگریز خواہ وہ ملک کے رائج الوقت نظام سے کتنا ہی سخت اختلاف رکھتا ہو، کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ اسے اپنے ملک کے کسی لیڈر یا حکمراں کو قتل کردینا چاہیے۔ بڑے سے بڑے انقلابی خیالات رکھنے والے آدمی کے ذہن میں بھی وہاں یہ تخیل راہ نہیں پاتا کہ جس انقلاب کا وہ خواہش مند ہے اسے برپا کرنے کے لیے فلاں شخص یا فلاں اشخاص کو قتل کردینا مفید یا ناگریز ہے۔ غور کیجیے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ درحقیقت یہ سب کچھ اس بات کا ثمرہ ہے کہ وہاں ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں جن میں ہر شخص اپنے نظریے اور پروگرام کے حق میں رائے عام کو ہموار کرنے کی کوشش کرسکتا ہے، اور ہر شخص کو پورا اطمینان ہے کہ جب بھی وہ رائے عام کو ہموار کرے گا، ملک کا نظام اس کی منشا کے مطابق بدل جائے گا۔ وہاں اگر کسی کی بات نہیں چلتی تو اس لیے نہیں کہ کسی نے طاقت سے اس کا راستہ روک رکھا ہے، بلکہ صرف اس لیے کہ رائے عام اس کے حق میں نہیں ہے۔ یہ چیز اس کو پستول چلانے کے بجائے اپنی بات کو پھیلانے اور عوام کو اپنے دلائل سے مطمئن کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسے کبھی یہ اندیشہ نہیں ہوتا کہ وہ اُن ذرائع سے محروم کردیا جائے گا جن سے وہ اپنے حق میں رائے عام کو ہموار کرسکتا ہو۔ اور اس کو کبھی یہ خطرہ بھی لاحق نہیں ہوتا کہ انتخابات میں کوئی بااختیار شخص یا گروہ اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر رائے عام کے بالکل برعکس نتائج حاصل کرلے گا۔ یہی چیز ہے جس کی بدولت برطانیہ میں ہرتغیر بالکل پُرامن اور معقول طریقے سے ہوجاتا ہے، اور باشندگانِ ملک میں جبری انقلاب یا سیاسی قتل و خون کا رجحان پیدا ہونے ہی نہیں پاتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ہی حالت ہمارے ملک کی بھی ہوجائے اور یہاں اُن اسباب کی جڑ کاٹ دی جائے جو سازشوں اور خفیہ تحریکوں اور مجرمانہ اقدامات کے محرک بنتے ہیں۔
(سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ۔ ”روداد جماعت اسلامی“، حصہ ششم 1951ء)
مجلس اقبال
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
علامہ اقبال انسان کی اصل حقیقت عرفان خودی کو بتاتے ہیں کہ جس انسان نے اپنی حقیقت اور اپنی اہمیت یعنی زمین پر اللہ کا نائب ہونے کو جان لیا اس نے کامیابیوں کی شاہ کلید حاصل کرلی۔ اسی چابی سے ہر مشکل سوال کا تالا کھل جائے گا۔ وہ نوجوانوں کو اپنی خودی پہچان کر اس کی حفاظت کا درس دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان غریبی میں بھی شاہی کرسکتا ہے اگر اس نے اپنی خودی کو پہچان لیا۔ انہوں نے کہاکہ خودی کی حفاظت و نگہبانی کرکے انسان غریب رہ کر بھی بے نیاز زندگی کا لطف حاصل کرسکتا ہے۔ اسی کو غریبی میں شاہی قرار دیتے ہیں۔ اپنے بیٹے جاوید کے نام سے خطاب میں ایک جگہ فرمایا: ’’میرا طریق امیری نیں فقیری ہے۔ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‘‘۔ خودی کی پہچان تو انسان کو مزاجاً بے نیاز بنادیتی ہے اور وہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنے آپ کو جھکاتا نہیں۔